دنیا کے میگا سیٹیز سماجی سطح پر جن مسائل سے دوچار ہیں، ان میں پسماندہ طبقات کے لیے کھانے کی فراہمی اوررہائش کے لیے چھت کی دستیابی اہم ترین مسئلہ ہے ۔ تیسرا مسئلہ مایوسی اور دل شکستگی (Frustration) کا ہے، جس کا بعض اوقات آسودہ حال لوگ بھی شکار رہتے ہیں، جس کے لیے یورپ سمیت دنیا بھر میں ماہرین نفسیات ارزاں ہیں۔ بڑے شہروں میں لاہور کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس میں ہر مقیم اور مسافر کے لیے داتا دربار موجود ہے، جہاں لنگر کا وسیع دسترخوان ہر وقت آراستہ رہتا ہے۔ نوواردانِ چمن کے لیے سر چھپانے کی بھی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آتی۔ اگر کسی پر ناکامی ، محرومی اور مایوسی کا غلبہ ہو تو داتا صاحبؒ کی بارگاہ میں اپنی بپتا سُنا کر، اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کر لیتا ہے، یوں اُسے کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ویسے بھی لاہور کے ایک صوفی سکالر کہا کرتے تھے کہ حضرت داتا صاحبؒ لاہور اور لاہوریوں سے بڑی محبت کرتے ہیں، داتا صاحبؒ ان کے خوش ہونے پر آسودہ اور ان کے دُکھوں پر آزُردہ ہوتے ہیں۔ لاہور جس کے متعلق حضرت داتا صاحبؒ نے ایک ہزار سال قبل کشف المحجوب میں لکھا تھا کہ: ’’من در بلدۃ لھانور کہ از مضافات ملتان است‘‘کہ میں شہر لھانور (لاہور) میں، جو مضافات ملتان میں سے ہے، میں ہوں۔یعنی حضرت داتا صاحبؒ کی تشریف آوری کے وقت لاہور اس خطے میں ملتان کے ذیل میں ایک شہر کے طور پر معروف تھا، لیکن حضرت داتا صاحبؒ کی برکت اس شہر پر یوں غالب آئی کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کہا : ’’آن بلدہ نزد فقیر ہمچو قطب ارشاد است نسبت بہ سائر بلاد ہندوستان۔‘‘ ’’یعنی یہ شہر تمام ہندوستان کے شہروں میں قطب الارشاد اور قطب البلاد کا درجہ رکھتا ہے، جس کی خیروبرکت تمام بلادِ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے۔‘‘ ۔چنانچہ دیگر کئی تاریخی معرکوں کی طرح تحریک پاکستان بھی 23مارچ1940ء کے اجلاس لاہور اور قرار داد لاہور کے بعد پاکستان کے حصول کی منزل کی طرف واضح اور دو ٹوک انداز میں اسی وقت گامزن ہوئی، جب داتا دربار کے پہلو میں، اس وقت کے منٹوپارک اور آج کے گریٹر اقبال پارک میں مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے اس شہر کو علمی، دینی اورروحانی وسعتوں کے علاوہ سماجی اور معاشرتی سطح پربھی ایسی کشادگی بخشی کہ باہر سے آنے والوں کو یہ شہر اپنے اندر ایسے جذب کر لیتا ہے جیسے وہ اسی کا حصہ ہے۔ اس رویے کی تشکیل میں یقینا خانقاہی ماحول اور مزاج کا بڑا دخل ہے کہ صوفی اپنی خانقاہ میں آنے والوں کے لیے سب سے پہلے دسترخوان وَا کرتا ، پھر قیام کا بندوبست،پھر آنے کا سبب اور مقصد دریافت کرتا ہے۔ تصوف کی تاریخ میں ممتاز صوفی حضرت ممشاد عَلَودینوریؒ کی یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جب ان کی خانقاہ کے بند دروازے پر حضرت ابواسحاق شامیؒ نے دستک دی تو آپؒ نے پوچھا کہ مسافر ہو یا مقیم۔۔۔ اگر مقیم ہو تو اندر آجاؤ، مسافر ہو تو کہیں اور چلے جاؤ ، اس لیے کہ چنددن قیام کے بعد جب تم یہاں سے جاؤ گے تو تمہارا فراق مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔ اخوت ، محبت اور بھائی چارے کا یہی رشتہ اسلام کی بنیاد اور دین کی روح تھی، جو امتدادِ زمانہ کے ساتھ ہماری سوسائٹی سے عنقا ہوگئی،نبی اکرمؐ نے ریاست مدینہ کی تشکیل کے وقت جو نمایاں اصول دنیا کو عطا فرمائے تھے وہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی زبانی بھی یہی تھے ، جو انہوں نے ہجرت کے موقع پر مدینہ تشریف آوری سے ذرا پہلے قبا کے مقام پر نبی اکرمؐ کی زبان فیض ترجمان سے براہِ راست سماعت فرمائے تھے ،عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’اَفْشُوا السَّلاَمَ، وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ صلُوا الاَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُوْا اْلجَنَّۃَ بِالسَّلاَم‘‘۔ ’’بکثرت لوگوں کو سلام دو یعنی امن و سلامتی کو پھیلاؤ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی اختیار کرو اور رات میں اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم جنت میں بسلامت داخل ہو جاؤ گے‘‘۔ موجودہ حکومت نے ’’پناہ گاہ‘‘کے نام سے بے سہارا لوگوں کو سایہ فراہم کرنے کی جس مہم کا آغاز کیا ہے ، اس میں بھی سب سے خطیر حصّہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی خانقاہ کا ہے ، جن کے دربار سے ملحقہ 2کنال سے زائد قیمتی اراضی اس عظیم منصوبے کے کام آرہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مؤرخہ 10نومبر2018ء کو اس عظیم منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے اس کو فلاحی ریاست کی طرف پہلا قدم قرار دیا ہے، اس کے انتظامی خدوخال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کے لیے بورڈ آف گورنر کی تشکیل سمیت دیگر جزویات کا احاطہ کیا اور اس کے ساتھ ہی منصوبے کا دائرہ ملک کے دیگر شہروں تک وسیع کرنے کا اعلان ، اس منصوبے پر پنجاب کی سبقت اور وزیراعلیٰ کی سبک رفتاری پر مسرت کا اظہار کیا۔ شہرلاہور میں داتا دربار اور اسٹیشن کے علاوہ چوبرجی اور اچھرہ میں بھی اس کے لیے کام جاری ہے، یہ منصوبہ سوشل سیکیورٹی اور سماجی بہبود کے حوالے سے یقینا گراں قدر اہمیت کا حامل ہوگا۔یہ بات بھی یقینا آگے چل کر واضح ہو جائے گی کہ یہاں کے اقامت گزیں محض وقتی مسافر ہوں گے یا مستقل بے نوا بھی۔ جن کے پاس رہنے کے لیے سرے سے کوئی جگہ ہی نہیں ہے،داتا دربار سے ملحق یہ ’’پناہ گاہ‘‘محض 160لوگوں کے قیام کے لیے ہے، جبکہ اس ایریا میں میٹروپل کے نیچے شب بسری کرنے والے مستقل افراد کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے ۔ ہماری تابناک تاریخ میں رفاہِ عامہ کے لیے جن عمارات کے نقوش ثبت ہیں ، ان میں یقینا ایسی قیام گاہیں ، تکیے ، زاویے ، سرائے اور طعام گاہیں بطور خاص قابل ذکر ہیں، بلکہ ایک زمانہ تھا جب مکہ مکرمہ میں حاجیوں کے قیام کے لیے اس کثرت سے مکانات اور قیام گاہیں تعمیر ہوئیں کہ اس سے مکہ کی سرزمین جگمگا اُٹھی، یہی وجہ تھی کہ بعض فقہا نے مکہ مکرمہ کے مکانات، سرائے اور قیام گاہوں کو کرایہ پر دینے کے عدم جواز کا بھی فتویٰ دیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ سب مکانات در حقیقت حاجیوں کے لیے وقف ہیں ۔ بہرحال اس عظیم منصوبے کی شروعات میں خیروبرکت کی ایک خاص بات مجھے یہ بھی محسوس ہوئی کہ اس کا سنگ بنیاد اس ماہِ نور میں رکھا گیا جس میں نبی عالمینؐ دنیا میں تشریف فرما ہوئے ، جنہوں نے ’’الخلقُ عیالُ اللّٰہ‘‘ کی نوید سنا کر اس پیغام کو عام کیا۔ یہ پہلا سبق ہے کتاب ہُدٰی کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا بلاشبہ محمد رسول اللہ ﷺ کا دین ۔۔۔ رحمت اور محبت کا دین ہے ۔ ایثار، قربانی، سخا اور عطا کا دین ہے ۔ اسلام عظمتِ انسانیت اور تکریم آدمیت کا علمبردار اور اپنی ریاست کے ہر فرد کی عزت، آبرو، جان ومال اور فلاح و بہبود کا ضامن ہے ۔ بلکہ نبی اکرمؐ نے مجبوروں ، بے نواؤں اور مظلوموں کی امداد کے لیے اعلانِ نبوت سے قبل ’’حلف الفضول‘‘کے نام سے مکہ کی معتبر شخصیات سے مل کر جو معاہدہ ترتیب دیا ، اس کی شرائط کو یہ کہہ کر آپ ؐ نے ہمیشہ مقدم رکھا کہ اس کے بدلے میں اگر کوئی مجھے سُرخ اونٹ بھی دے، تو میں نہ لوں۔