آج کا اخبار کھولا تو کالم کے صفحات پر جہاں دیدہ سینئر صحافی مجاہد بریلوی صاحب کے کالم پر نظر پڑی۔ کالم کا عنوان تھا’’سعودیہ میں پاکستانیوں پر کیا گزر رہی ہے…؟ اس کالم میں جناب مجاہد بریلوی نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب میں مزدوری کے لئے گئے پاکستانیوں کی جس حالت زار کا تذکرہ کیا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ برس ہا برس سے کام کرنے والے غریب پردیسیوں کو کس طرح مالدار بزنس گروپ بیک جنبش قلم بے روزگار کر دیتے ہیں۔ ہزاروں بے روزگار ہونے والے پاکستانی انصاف کے لئے عدالت سے کر سفارت خانے اور لیبر ڈیپارٹمنٹ تک کوئی در نہیں کھٹکھٹا سکتے کہ برادر اسلامی ملک میں ایسی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ ہیں تو ہزاروں کہانیاں ہوں گی۔ کسی کو ڈیڑھ سال کام کر کے پانچ مہینے کی تنخواہ ملی تو کسی کو کئی برس گزارنے کے باوجود اقامہ تک نہ ملا کوئی ایسا کم نصیب کہ زندگی کا کندن جس بھٹی میں جھونکا جب ادھر سے نکالا گیا تو بقایا واجبات کی ادائیگی تک نہ ہوئی۔ کچھ ایسے تہی دامن‘ اور تہی دست ہیں کہ اب جیب میں دمڑی نہیں کہ گھر والوں کو فون تک کر سکیں۔! مجاہد صاحب نے بہت تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی۔ اس جرات رندانہ پر وہ داد تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ اس کہانی کو بیان کرنے میں جس پردہ نشیں کا نام آتا تھا ہم اسے ہدف تنقید بنانے سے گریز کرتے ہیں اس لئے کہ براہ راست اسلامی ملک ہماری عقیدت و احترام کا مرکز و محور ہے اور یقینا ہے۔ لیکن کیا احترام کے اس رشتے کے ساتھ ہم یہ سمجھ لیں کہ وہ اپنی غیر انسانی پالیسیوں میں سیاہ کرے یا سفید اس پر بات نہیں کرنی۔ اس کے علاوہ بھی ہمارا رشتہ اس برادر اسلامی ملک سے کچھ اس طرح کا ہے کہ ایک طرف دست طلب پھیلا رہتا ہے۔ اور دوسری طرف دست شفقت۔ ہم ہر بُرے وقت میں ان کے دست و شفقت کے تمنائی رہتے ہیں اور اب ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح معیشت سخت بحران سے لاچار ہے اور ہمارا برادر اسلامی ملک ہمیں اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لئے 12ارب ڈالر کی بھاری امداد دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔ تو کیا احسانات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ اور تقدس اور عقیدت کے تہہ در تہہ رشتے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اٹھانے میں رکاوٹ بنتے ہیں؟ جہاں روزگار ختم ہونے سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے وہاں ان مظلوموں کے لئے آواز اٹھانا عین انسانی اور عین اسلامی ہے اور جس روشن ذات مبارکہؐ کے واسطے سے عقیدت کے یہ رشتے قائم ہیں اس کے دین کا سبق بھی یہی ہے۔ یاں مگر اس کے لئے معذرت خواہانہ اور خوشامدانہ رویہ ترک کر کے کچھ جرات اظہار اور کچھ درد دل کی ضرورت ہو گی جس کا مظاہرہ بریلوی صاحب نے اپنے کالم میں کیا۔ لیکن اس سے زیادہ جرات کی ضرورت ہمیں اس وقت ہو گی جب ہم دیس میں بننے والے ڈائون سائزنگ کا شکار پاکستانیوں کا نوحہ لکھیں۔ بے روزگاری کا ایسا ہی کہرام گھر کے آنگن میں بھی بپا ہے۔ میڈیا ہائوسز سے سینکڑوں ورکروں کو نوکری سے نکالا جا رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا سونا‘ روزگار کی ان راہداریوں میں نچھاور کر چکے جہاں سے اب انہیں بے دخل کر دیا گیا ہے۔20سال 25سال 30سال کی نوکری کے بعد ایک روز اچانک انہیں دفتر سے بے دخلی کا پروانہ پکڑا دیا گیا۔ ایک عجیب بے چینی اور بے یقینی ایک شخص جو نوکری کر رہاہے جس کی تنخواہ سے اس کے گھر کا چولہا جلتا ہے اس کو یکدم اس کی تنخواہ کے وسیلے سے محروم کر دینا کیا کوئی مذاق ہے۔؟اس کی تنخواہ سے اس سے وابستہ لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اس کے بچوں کی فیسیں جاتی ہیں وہ گھر کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ بیماری میں اس کی دوائی آتی ہے۔ کسی کی نوکری ختم ہو جانا محض ایک روز کا واقعہ نہیں ہوتا اس کے ساتھ کئی اور سانحے کئی اور حادثے جڑ جاتے ہیں۔ ایک بڑے میڈیا ہائوس نے سال 2018ء کے آخری مہینے میں ایک ہی دن پانچ سو پچیس ورکروں کو نوکری سے نکال دیا۔ اب اگر 525افراد چار یا پانچ افراد پر مشتمل گھرانے کے کفیل بھی ہوں تو متاثرہ افراد کی تعداد ہزاروں میں جا پہنچتی ہے۔ بے روزگار ہونے والوں میں غریب چپڑاسی اور خاکروب تک شامل ہیں۔ چند ہزار روپے لینے والے ٹیکنیکل سٹاف ‘ کمپیوٹر کمپوزر۔ اس تبدیل شدہ نئے پاکستان میں ان غریبوں کا پرسان حال کون ہو گا۔؟ ہم صحافیوں کا حال ہی چراغ تلے اندھیرا والا ہے۔ ہم دنیا جہاں کے لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ شام‘ عراق‘ فلسطین کے مسلمانوں پر بیتنے والے ظلم پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن اپنی کمیونٹی سے وابستہ مسائل پر کبھی نہیں لکھتے۔ جس بے حسی اور بے دردی سے غریب ورکروں کی لائف لائن منقطع کی جا رہی ہے اس پر آواز نہیں اٹھاتے۔ اگر اخبارات اور ٹی وی چینلز میں اتنے افراد کو کھپانے کی سکت نہیں تو بھی یہ لوگ کسی کی تو ذمہ داری ہیں۔ اگر ان اداروں کی نہیں تو ریاست کی؟ہم مگر اس پر آواز نہیں اٹھاتے۔ ٹی وی کے کسی ٹاک شو میں کبھی ان مظلوم ورکروں کی حالت زار پر بات نہیں ہوتی۔ جنہیں ادارے بیک جنبش قلم بے روزگار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے لئے آواز اٹھتی ہیں لیکن مین سٹریم میڈیا میں کیوں نہیں؟ ہم اتنے بزدل کیوں ہیں کہ حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبرائیں! یا پھر ہم خود عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بے روزگاری کی اذیت مایوسی کے گھپ اندھیروں میں لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب کے پردیسی پاکستانیوں کی طرح ان دیسی پاکستانیوں کی بے روزگاری کا مسئلہ بھی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔