یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے کالم کار قبیلے کا تقریباً روز کا ہی مسئلہ ہوگا کہ کالم کا پیٹ کس طرح بھرا جائے۔مگر خدا ہمارے سیاستدانوں کو طویل حیاتی اور ان کی زبانوں کو مزید ترش اور تیز کرے کہ دن میں ایک دو بیان ایسے ضرور داغ دیتے ہیں کہ جن سے ہم جیسے بیشتر کا ’’گزارا‘‘ ہوجاتا ہے۔استاد محترمی مستنصر حسین تارڑ بہر حال اس زمرے میں نہیں آتے ۔ ۔۔ما شا ء اللہ ساری زندگی اتنے ڈھیروں ڈھار سفر کئے ہیں کہ اگر کسی ایئر پورٹ پر لینڈ ہی کر جائیں تو ایک کالم بندھ جاتا ہے۔دو ایک دن شہر میں گزار لئے تو سفر نامے کی کتاب تو پکی ہے۔تارڑ صاحب کی یاد کچھ ایسی ہے کہ ’’ بس آتی ہی چلی جاتی ہے‘‘۔ اگر سابق صدر پیپلز پارٹی کے چیئر مین محترم آصف علی زرداری کا بیان سامنے نہ آتا تو تارڑ صاحب سے محبت اور عقید ت کا قرض اتار دیتا۔اور یوں بھی ایسی کون سی جلدی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کا قلم اور دماغ جس طرح چوکڑیاں بھر رہے ہیںاُس کو دیکھتے ہوئے آج نہیں توکل۔۔۔بلکہ اگلے برس ورنہ اگلی دہائی میں یہ معہ سود کالم نہیں،کتاب کی صورت میں اتار دوں گا۔اور ہاں، ہم کالم کاروں اور اینکروں کو خاص طور پر کورَس کی صورت میں حکومتی ترجمان محترم فواد چوہدری کاشکرگزار ہونا چاہئے کہ محترم موصوف روز ہی ایک ایسی ’’در فنطنی‘‘چھوڑ بیٹھتے ہیں کہ اس سے ایک دو دن کا گزارا تو ہو ہی جاتا ہے۔مگر اس وقت تو جیسا کہ ابتدا میں کہا۔ ۔۔ محترم و مکرم آصف علی زرداری کے اس بیان نے پکڑاہوا ہے کہ’’ہر ایک پاکستان میں ڈیل کے ذریعے اقتدار میں آ جاتا ہے‘‘ محترم آصف علی زرداری نے خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کا ذکر کرتے ہوئے پھبتی کسی کہ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح ڈیل کے ذریعے حکومت میں آئے ہیں۔اور ڈیل کے ذریعے آنے والے صرف سمجھوتے ہی کرسکتے ہیں۔یہ ملک چلانا نہیں جانتے۔حکومت چلانا ایک آرٹ ہے اور یہ ہم ہی جانتے ہیں۔منفرد لہجے کے شاعر مصطفی زیدی یاد آگئے ؎ حدیث ہے کہ اصولاً گنہگار نہ ہوں گنہگار پہ پتھر سنبھالنے والے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے جب سے لندن میں مقیم صحافتی استاد سابق ہائی کمشنرمحترم واجد شمس الحسن نے ہمارے قلم کی بے اعتدالیوں کو دیکھتے ہوئے تنبیہہ کی ہے کہ آج بلکہ اسی ،نوے کی دہائی کی پیپلز پارٹی اور اُس وقت کی قیادت پر کتنے ہی کچوکے لگاؤ۔۔۔مگر اس سے بانی ِ پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کو مبرا رکھا کرو کہ ان کی غلطیوں اور کمزوریوں سے بڑے ان کے پاکستان کے لئے عظیم الشان کارنامے ہیں۔روایتی آدمی ہوں۔جنہوں نے قلم پکڑنا سکھایا ۔ان کے کہے پر کیسے گستاخی ہوسکتی ہے ۔مگر پھر بھی معذرت کے ساتھ تاریخ بڑی سفاک ہوتی ہے۔حکمرانوں کے پاپولر فیصلے اور پہاڑ جیسی غلطیاں آنے والی نسلوں پر کیسے کیسے ستم ڈھاتی ہیں۔ہمارے محترم سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن سے کون زیادہ جانتا ہو گا کہ سقوطِ ڈھاکہ پر بہر حال قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا کردار تو تاریخ میں سوالیہ نشان بناہی رہے گا۔مگر حسب ِ حکم آگے بڑھ جاتا ہوں۔ اعتراف کیا کہ 1988-89میں اُن کا صدر غلام اسحاق خان سے ڈیل کر کے اقتدار میں آنا ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔بھٹو صاحب کی اقتدار سے محرومی اور شہادت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو طویل جد و جہد کی اور پھر جیل،جلا وطنی میں جو سختیاں جھیلیں اور پھر جس طرح اُن کی شہادت ہوئی اُس کے بعد اُن کی اُس خاص وقت میں ’’ڈیل‘‘پر تفصیلی گفتگو کرنے سے گُریز کروں گا ہی۔مگر محترم زرداری صاحب، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرح آپ کی جماعت کی پانچ دہائی کی تاریخ ’’ڈیل‘‘ نہیں۔ ۔ ۔ڈیلوں سے بھری ہے جسے مرتب کرنے میں کتابیں نہیں،جلدیں بھر جائیں۔بھٹو صاحب کا پہلا دوراور شہادت بھی چھوڑدیتاہوں۔شہید بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اپنی شہادت کے بعد تاریخ میں جس مقام پر ہیں اُس میں انہیں سیاسی تنازعات میں گھسیٹنا مروجہ اخلاقیات کے منافی ہے مگر۔ ۔ ۔ خود ہمارے محترم آصف علی زرداری کا سیاسی کردار تو محترمہ بے نظیر بھٹو کا ہی مرہون ِ منت ہے۔چلیں تسلیم کرلیتے ہیںکہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کے سبب عدالتوں اور جیلوں کے بھی اُن کے پھیرے لگتے رہے لیکن اس کے عوض جو کچھ انہیںملا وہ تو بہت سے بڑھ کر ہے۔کون نہیں جانتا کہ شہید بی بی کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد جب 1993میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ بھٹوزکی نہیں زرداریز کی حکومت تھی۔میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کو جب 1993میں صدر غلام اسحاق خان نے رخصت کیا تو کیا اس میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسٹیبلمشمنٹ سے ڈیل نہیں کی تھی۔ ۔ ۔ اکتوبر 1999میں جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو برطرف کیا تو کیا اُس وقت پی پی کے جیالو ں نے ’’ہو جمالو‘‘ کی دھن پر رقص نہیں کیا تھا۔۔۔اور ہاں، یادداشت پر زور ڈالنے پر یاد آیا کہ نواز شریف، عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے اقتدار میں آنے کی تہمت لگانے والے محترم آصف علی زرداری صاحب ایک جمہوری حکومت کو توڑے جانے کے بعد قائم ہونے والی بلخ شیر مزاری کی نگراں حکومت میں وزارت کا حلف لینے والوں کی فہرست میں سرِ اول تھے۔ نگراں حکومت میں وزیر بننے کو کیا ڈیل نہیں کہا جائے گا؟اور پھر 2002ء میں مشرف، پی پی ڈیل تقریبا ً ہونے کے قریب تھی۔میںخود اسلام آباد میں تھا۔جب پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما محترم نوید قمر کے گھر محفل سجی ہوئی تھی۔مرحوم مخدوم امین فہیم محترمہ بے نظیر بھٹو کی لندن میں موجودگی کے سبب محترم آصف علی زرداری سے فائنل کلیئرنس لینے کے لئے اڈیالہ جیل گئے ہوئے تھے۔مگر poorمخدوم امین فہیم اعتماد پر پورے نہیں اترے اور پھر 2007ء ۔۔۔اس میں تو باقاعدہ دستاویزی ڈیل ہوئی تھی۔۔۔جسے این آر او کا نام دیا گیا تھا اور جس کے سبب محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی۔جو خود ان کے لئے بد قسمتی اور ہمارے محترم آصف علی زرداری کے لئے خوش بختی ثابت ہوئی۔اور جسے پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ کہا جاتا ہے کہ محترم آصف علی زرداری اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کے سب سے اونچے عہدہ ٔ جلیلہ پر نہ صرف فائز ہوئے بلکہ ریاست کے تینوںبڑے ستونوں سے مفاہمت یا ڈیل کے سبب پورے پانچ سال اس عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز بھی رہے۔کالم آخری دموں پر آگیا ہے۔چھوٹی ،چھوٹی ڈیلوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ۔۔۔مگر چیئر مین سینیٹ کے عہدے پر ڈیل تو ابھی کل کی با ت ہے۔اورپھر قومی اسمبلی ،وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدوں پر اپوزیشن کا متفقہ امیدوار لانے کے بجائے ن لیگ کو جو پیٹھ دکھائی گئی۔کیا وہ کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں تھی۔محترم آصف علی زرداری صاحب آپ نے درست فرمایا ۔عمران خان محض کپتان ہے اور آپ سیاست میں کپتانوں کے کپتان ۔۔۔ مگر بھٹوز کی پارٹی پر اس سے بڑاظلم آپ کی قیادت میں اورکیا روا ہوسکتا ہے کہ چاروں صوبوں کی مقبول پارٹی سندھ کے 12ڈسٹرکٹ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔