" قُبہ"عربی میں گنبد اور ٹیلے کو کہتے ہیں جبکہ "الصَخْرَہ"کے معنی "چٹان"کے ہیں ، بیت المقدس میں یہ ایک خوبصورت احاطہ ہے جسے عام طور پر "مسجد اقصیٰ"سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ مسجد اقصیٰ نہیں ہے بلکہ " قُبّۃُ الصَّخْرَہ"ہے، جس کے سنہری گنبد کے نیچے وہ پتھریلی چٹان ہے ، جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے کر گئے، اسی چٹان پر، جب نبی اکرم ﷺ براق پر سوار ہو کر، بلندی کی طرف روانہ ہوئے، تو یہ چٹان بھی وفور محبت میں اوپر بلند ہوئی، جس کو جبرائیلؑ نے اپنے ہاتھ سے پیچھے دھکیل دیا، جس کا نشان آج بھی اس چٹان میں موجود ہے۔ یہ مقام مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ مقدس ہے، یہاں وہ حاضری دیتے، نوافل پڑھتے ، تلاوت کرتے ہیں۔ ہمارے "فرسٹ کزن"اہل یہود کے ہاں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، وہ اسے "Mount of Moriah"کہتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں صفا اور مروہ۔۔۔ دو مقدس پہاڑ ہیں، اورجیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ مکہ نافِ زمین ہے یعنی زمین کا وسط اوردنیاکی ابتدائ۔ اسی طرح یہود دنیا کے آغاز کا نقطہ ، اس چٹان کو سمجھتے ہیں، مزید یہ کہ ان کے مطابق،’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو اسی پتھرپر لٹایا اور قربانی دی --- نہ کہ اپنی کنیز بیوی کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی‘‘۔بہت کم لوگ مسجد اقصیٰ کے اصل ’’سرمئی گنبد‘‘ سے آگاہی اور شناسائی رکھتے ہیں ،اور سنہری گنبد’’ قبۃ الصخرہ‘‘ ہی کو مسجد اقصیٰ سمجھا جاتا ہے ،اس غلط فہمی کو عام کرنے میں یہود ونصاریٰ کے میڈیا کا بڑاا ہم کردار ہے ،وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان مسجد اقصیٰ کی صحیح پہچان کر سکیں ، اس لیے کہ یہود سمجھتے ہیں کہ ان کے ’’ہیکل سلمانی‘‘ کے تعمیر کے راستے میں صرف اور صرف ’’مسجد اقصیٰ ‘‘رکاوٹ ہے ،کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان کا معبد ثلاثہ(Tird Temple) یعنی ہیکل سلیمانی عین اس جگہ تعمیر ہونا ہے، جس جگہ مسجد اقصیٰ قائم ہے ، اور یہ منصوبہ مسیح مدعود کی آمد سے پہلے پایۂ تکمیل تک پہنچنا ہے ،اور یہی سوچ اور فکر سب سے بڑھ کر تصادم کا باعث ہے ۔بیت المقدس حضرت عمرؓ کے ہاتھوں فتح ہوا اور وہ بطور فاتح حرم قدسی میں داخل ہوئے تو بیت المقدس کے پادری صفرو نیوس سے آپ نے کہا کہ میں یہاں مسلمانوں کے لیے ایک مسجد تعمیر کرنا چاہتا ہوں ۔چنانچہ وہ حضرت عمرؓ کو اس ’’صخرہ‘‘ کے پاس لے آیا، یہ جگہ نجاست سے اَٹی ہوئی تھی ، جس کا سبب عیسائیوں اور یہودیوں کا باہمی تصادم تھا ،حضرت عمر ؓنے از خود اس جگہ کی صفائی کی اور مسجد کی تعمیر کا حکم دیا ، جوکہ اس حرم قدسی کے وسیع حرم میں واقع ہے ۔قبۃُ الصخرہ کی موجودہ عمارت عبدالملک بن مروان اور پھر اس کے بیٹے ولید نے اس خیال کے پیشِ نظر بنوائی تاکہ شام اور فلسطین کے عیسائی گرجوں کی پُر شکوہ عمارات او ر فنِ تعمیر کا مقابلہ کیا جاسکے ۔ آپ کہیں گے کہ آپ نے یہود کو مسلمانوں کا "فرسٹ کزن"کہہ دیا ، یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ حالانکہ ان کے درمیان تو صدیوں پہ محیط رقابت ۔۔۔ اب تک جاری ہے۔ تو جان لیجئے کہ حضرت نوحؑ ۔۔۔ جن کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے، کے تین بیٹے۔۔۔ سام، حام، یافث معروف ہیں، طوفانِ نوح کے بعد ۔۔۔دنیا کی تمام اقوام کے مورثِ اعلیٰ انہی تینوں کو قرار دیا گیا ہے۔ عرب اور فلسطین وغیرہ میں سام کی اولاد کاقیام ہوا، اور ادیان عالم کی تقسیم میں بھی سامی اورغیر سامی کی صف بند ی میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔۔ سامی مذاہب کہلائے، جن کے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، جن کو ادیان کی تاریخ میں "جدّ الانبیائ" بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے محترم اور معتبر مذہبی مقامات حجازِ مقدس یعنی مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور ارض فلسطین میں۔ آپ کوحضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی جلوہ آرائی۔۔۔ کسی نہ کسی طرح ضرور محسوس ہوگی۔ از خود نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا کہ " اَنَا دَعْوَۃُ اَبِی اِبْرَاہِیْم"میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا ثمر ہوں ۔ حالی نے کہا تھا: ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن عراق (اُر) بابل و نینوا کی سرزمین تھا۔ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا عَلم بلند کیا، تو پوری سوسائٹی میں تہلکہ مچ گیا، ایوانِ اقتدار میں لرزا طاری ہوگیا، "نارِ نمرود"کے شعلے ۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے گلزار کر دیئے، اس سرزمین پران کا مزید قیام مشکل ہوگیا، اپنی اہلیہ حضرت سارہ کے ہمراہ عراق سے ہجرت کر کے مصر سے گزرتے ہوئے ۔۔۔ ارضِ فلسطین کو سرفراز کیا، مصر کے بادشاہ نے آپ کی عظمت و رفعت کے سبب حضرت ہاجرہ کو آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔ انہی کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل تولد فرمائے۔ قرآن نے سورۃ الصٰفٰت میں "فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْم"کہہ کر انہیں یاد کیا اور صفتِ حلم سے متصف فرمایا۔ مفسرین کے مطابق "نارِ نمرود"سے سرخروئی کے بعد ، عمر کے آخری حصّے میں حضرت اسمٰعیل ؑکی ولادت کی بشارت دی گئی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین میں رملہ کے قریب "قط"نامی بستی میں تشریف فرما ہوئے، اسی خطّے میں آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام براجمان تھے۔ فرشتے جب "قوم لوط"کو ان کی غلط کاریوں کے سبب ، تباہ کرنے کے لیے آئے، تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت سارہ جن کی عمر اس وقت 90سال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام، جن کی عمر120سال تھی، کو حضرت اسحاق کی ولادت کی بشارت عطا کی۔ سورۃ الصّٰفٰت کی آیات 100تا 112میں جس حُسنِ ترتیب سے یہ امور نقل ہوئے ہیں، اس سے قارئین کو از خود استفادہ کرنا چاہیے۔ گویا مشیتِ الٰہی کے تحت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مکہ مکرمہ کی آبادکاری اور خانہ کعبہ کی رونق افزائی کا ذریعہ ثابت ہوئے، روئے زمین پر یہ اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہے، جس کو قرآن نے یوں بیان گیا: "اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلّذِی بِبَکَّۃَ مُبٰرکًا وّ ھُدًی لِّلعٰلَمِیْن"(آل عمران:۹۶) اسی شہر کعبہ میں، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل سے پیغمبر آخر الزماں حضرت مصطفی ﷺ کا ظہور ہوا۔ جب دوسری طرف فلسطین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق کی نسل سے نہایت معتبر اور اولوالعزم پیغمبر مبعوث ہوئے،جو انبیاء بنی اسرائیل کہلائے ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب "اسرائیل"تھا، یعنی اللہ کا بندہ۔ یہیں سے بنی اسرائیل کا پھیلاؤ ہوا ، آپ کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام "یہودا"تھا، جو "یہودیت"کی وجہ تسمیہ جانا جاتا ہے۔ مکہ میں "بیت اللہ"کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت سارہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پاس واپس لوٹ آئے۔ یہاں پر بھی آپ نے ایک مسجد تعمیر فرمائی، جو "مسجدِ ابراہیم"کے نام سے مشہور ہوئی، جس کا انتظام حضرت اسحاق اور ان کے بعد کی نسلوں کے پاس اس وقت تک رہا، جب تک کہ وہ ہجرت کر کے فلسطین سے مصر نہ چلے گئے۔