سویا ہوا تھا شہر تو بیدار کون تھا سب دم بخود ہیں ایسا خطا کار کون تھا باقی ہمیں بچے تھے سو نظروں میں آ گئے ہم جیسوں کا وگرنہ خریدار کون تھا وقت کیسے پنکھ لگائے اڑتا چلا جاتا ہے‘ رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے ‘ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ مگر زندگی کہیں اپنا آپ محسوس کراتی ہے ،مسکراتے ہوئے اسے دیکھا، باور آیا کہ زندگی کیاہے‘ بس یہی لمحات ہیں جو یاد بنتے جاتے ہیں اور یہی کبھی آنکھ میں جھلملاتے ہیں اور کبھی دل میں کسمساتے ہیں۔ جب داخل خارج سے جڑتا ہے تو بندے کی تکمیل ہوتی ہے۔ آمدم برسر مطلب کہ آج اخبار 92 نیوز کی چوتھی سالگرہ ہے ۔چلیے آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ میرا بھی تو ہے، کچھ کاوش میری بھی ہے کہ میں 92نیوز کے قارئین کے لئے دل و جان سے لکھتا ہوں یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ 92 نبی پاکؐ کے ناموں سے موسوم کر کے اخذ کیا گیا اور پاکستان کا کوڈ بھی یہی ہے۔ ویسے ہی میاں محمد بخش کا شعر یاد آ گیا: خشخش جناں قدر نہ میرا تے صاحب نوں وڈیائیاں میں گلیاں دا کوڑا روڑا تے محل چڑھایا سائیاں جناب یہ نسبت بہت کام کرتی ہے یہ معاملہ غائب کا ہے اور یہ تعلق اور واسطہ جب اپنا آپ دکھاتا ہے تو اندر روشنی ہو جاتی ہے دو جہاں مہک اٹھتے ہیں۔ قدرت مہربان ہوتی ہے تو زندگی ثمر بار ہونے لگتی ہے۔ ہائے ہائے ہم ناسمجھ ادھر ادھر عزت کے لئے بھاگتے ہیں اور بھاگتے چلے جاتے ہیں مگر اللہ کہتا ہے عزت تو میرے پاس ہے ۔کون اس کا ہے یہ ہر کسی کے عمل سے ظاہر ہو جاتا ہے نہ بھی ہو وہ تو جانتا ہے جو اپنے بندے کے شب و روز میں برکت اتار دیتا ہے۔ پھر ایک خود کار صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک تخلیقی عمل کی طرح کوئی نکتے سے لگاتا چلا جاتا ہے۔ فقط دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ۔ مجھے 92چینل پہلے پسند تھا وجہ اس کی یہ کہ اس میں اخلاقیات ‘ تہذیب اور پاکستانیت حاوی ہے ۔ اس کے پروگراموں میں مثبت اور تعمیری انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ایک پاکیزگی اور ستھرا پن نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے 92نیوز اخبار کا آغاز ہوا تو میں آرزو مند تھا اور سید ارشاد احمد عارف نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میں کالم اور قطعہ لکھنے لگا ۔اس اخبار کا معیار اور پھر میرے سامنے رئیس امروہی اور انور شعور کی روایت تھی۔ پھر اس اخبار کے کالم نگار بھی اکثر صف اول کے ہیں۔ اچھے اور لائق لوگوں کی موجودگی آپ کو محنت پر اکساتی ہے:شیخ سعدی نے ایسے ہی نہیں کہا تھا: جمال ہمنیش درمن اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم میری چھٹی حس کہتی تھی کہ 92نیوز بہت جلد بڑے اخباروں میں ہو گا۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ میری چھٹی حس موجود ہے۔ ایک تو اس میں سید ارشاد احمد عارف کا تجربہ اور ان کے مزاج کی سنجیدگی اچھے لکھنے والوں کو کھینچ لائی۔ اور تو چھوڑیے ایک ہارون رشید ہی مان نہیں ہیں۔بعض اوقات تو ان کی نثر شاعری کو مات کرتی ہے۔ شاہ صاحب کے کالم سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔سجاد میر کی عمدہ تحریرپڑھتے ہیں۔عامر خان خاکوانی کے بارے میں میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ Cool and deep۔ عبداللہ طارق سہیل تو میرے محسن ہیں ، ان کی طنز نشتر کی طرح ہے۔وہ معلومات کا خزانہ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میرے قارئین مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ عارف نظامی ایسے سینئرتو ہمارا سلیبس ہیں ،سادگی اور پرکاری۔ اوریا مقبول جان نام ہی کافی ہے ،آصف محمود موضوعات کی تازگی ختم نہیں ہونے دیتے ادیبانہ اسلوب ہے سعدیہ قریشی نے اپنا مقام پیدا کیاہے ۔ کیوں نہ ایک شعر میں سعدیہ کا لکھ دوں: بلند اور ہوتی ہے مرے چراغ کی لو ہوائے تند کو اتنا جواب کافی ہے اشرف شریف کا اپنا انداز ہے،کیا جزئیات ہیں جو رقم نہیں ہوتیں۔ ظہور دھریجہ وسیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اعزاز بھی 92نیوز کو حاصل ہے کہ جنوبی پنجاب کو کوریج ملتی ہے۔ باقی سب لوگ بھی اچھا لکھ رہے ہیں یہ اخبار خاص طور پر تاجر طبقے میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے وہاں سے بہت زیادہ فیڈ بیک ملتا ہے۔ ایک خاص بات کا میں ذکر کرنا پسند کروں گا کہ 92نیوز اہل بیت سے محبت کرنے والوں کا اخبار ہے ۔ بات ساری یہ سعادت کی ہے میں نے اس اہل بیت سے محبت کی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہاں منیر سیفی کا شعر لکھنے کی سعادت حاصل کروں کہ امام عالی مقامؑ کا تذکرہ ضروری ہے: جلا بھی شدت جاں سے بجھا بھی شان سے تھا وہ اک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا کسی کو ایسے ہی بھاگ نہیں لگتے اس کے پیچھے کوئی ہاتھ ہوتا ہے شاید میں آپ کو شعر سے سمجھا سکوں: میں جہاں کہیں بھی بھٹک گیا وہیں گرتے سنبھل گیا مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا مرا ہاتھ ہے کسی ہاتھ میں اس اخبار نے عہد حاضر کے مسائل کو اجاگر کیا ہے، بڑے شہروں کے باسی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو دور دراز دیہات اور قصبوں میں رہنے والے بھی اپنی صبح کا آغاز اس کے صفحات پر گندھی اطلاعات اور کالموں سے کرتے ہیں۔یہ واحد اخبار ہے جس کے ادارتی صفحات پر زراعت ، ٹیکنالوجی، فطرت سے محبت اور سیاسی معاملات پر سیر حاصل رہنمائی پڑھنے کو مل جاتی ہے ۔میگزین کے صفحات پر رنگ رنگ کی معلومات پیش کی جاتی ہیں۔ صحافت پر آج بھی برا وقت تھا۔کچھ عرصہ پہلے بڑے بڑے اخبار ہاتھ اٹھا گئے اور کتنے ہی صحافی بے چارے بے روزگار ہو گئے اس ادارے کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ جس نے سب کچھ برداشت کیا اور اپنے کارکنوں کو تحفظ دیا۔ ہمارے اخبار کا اسلامی تشخص تو اس اسلامی صفحات سے عیاں ہے۔اس کا ادبی صفحہ سجاد بلوچ بہت اچھے انداز میں ترتیب دے رہے ہیںکہ وہ خود بھی اچھے شاعر ہیں، محمود الحسن بھی تو بہت صاحب علم ہیں اور بہت سنجیدہ مزاج۔ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کالم تو کالم ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اس کی آنکھوں کو جو دیکھا تو پکار اٹھا میں کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کو جادو آئے