اشفاق احمد 

بادشاہ اور وزیر ، دونوں ایک ساتھ، جان کے خوف کے مارے، سرکنڈے کی بیڑ میں چھپے بیٹھے تھے اور باغی انہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ جب باغیوں کے ژوئیں ژوئیں کرتے نیزے ان کے اردگرد آ کر گرتے تو دونوں سہم کر ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ جاتے۔ تلاش کرتے باغیوں کے کتے، لگڑ بگڑ، لومڑ اور پالتوں بجو تخت چھوڑ کر بھاگ جانے والے بادشاہ کی کھوج میں اپنے مالکوں کا ساتھ دے رہے تھے، لیکن دونوں ہی ناکام تھے… باغی بھی اور ان کے پالتو جانور بھی۔ سرکنڈے کے جنگل میں ہر طرف تیز دھار استرے اگے ہوئے تھے اور ان کے اندر داخل ہونا موت کو دعوت دینا تھا۔

لیکن زندگی بھی ایسی پیاری چیز ہے جسے بچانے کے لیے انسان موت کی بازی لگا کر بھی بچا لیتا ہے اور اپنے پیچھے عجیب عجیب داستانیں چھوڑ جاتا ہے۔ بادشاہ اور وزیر دونوں ہی استروں کے منڈپ میں چھپے اپنی زخم خوردہ زندگی کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کے بدنوں پر جگہ جگہ چیروں سے خون رس رہا تھا، پاؤں کے چھالے پھٹنے سے تلوؤں پر دلدل کی ہلکی سی تہہ چڑھ آئی تھی اور مسلسل بھوکے رہنے کی وجہ سے ان میں زندہ رہنے کی شکتی پیدا ہو گئی تھی، گو وہ اندر سے کبھی کے مر چکے تھے۔

جب بادشاہوں اور وزیروں پر افتاد پڑتی ہے تو اسی طرح سے ہوتا ہے اور جب حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں تو سرخ آندھیاں ضرور چلتی ہیں۔ باہر چلیں یا بھیتر خون خرابا ضرور ہوتا ہے۔ رت کے اندر کچھ ایسا رسائن ہے کہ اس کے جوش مارنے سے رت جگا ضرور ہوتا ہے۔ چاہے انقلاب ہو چاہے شب عروسی، لوگوں کو جاگنا ضرور پڑتا ہے۔ بادشاہ اور وزیر بھی کئی راتوں کےجاگے ہوئے تھے اور موت کی لمبی نیند سونے پر دونوں ہی تیار تھے، لیکن اپنی جبلت کی آمریت کے سامنے بے دست و پا اپنے آپ کو بچائے بچائے پھرتے تھے حالانکہ ان میں قدر و قیمت والی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی تھی۔ اگر وہ اپنے رستے ہوئے زخموں کے ساتھ نقاہت کے مارے سرکنڈوں کے جھنڈ میں بیٹھے فوت ہو جاتے تو ان کو خوشی ہوتی اور وہ خوشی کے ان لمحات کو زندگی بھر نہ بھلا سکتے۔

بادشاہ کا نام راڑا تھا اور اس کے وزیر کا نام دڑؤ تھا۔ دونوں الگ الگ علاقوں میں پیدا ہوئے، الگ الگ بڑھے پھولے اور دونوں نے الگ الگ ہی اپنی زندگیوں کا آغاز بے کاری اور بے روزگاری سے کیا۔ دونوں ہی اچھے دنوں کی تلاش میں ایک ایسے مقام پر آ کر ملے جو ابھی دوسرے ترقی یافتہ دیسوں کے مقابلے میں پس ماندہ، گنوار، بے عقل اور مورکھا تھا۔ یہاں کے بہت سے لوگ ابھی تک جانوروں کی سی زندگی بسر کر رہے تھے اور جو جانوروں کی سطح سے ذرا اوپر اٹھ آئے تھے، وہ بھی بے یقینے سے تھے۔ بڑے بزرگ، مرد عورتیں، سارے کے سارے زمین پر ہھتیلیاں ٹیک کر چوپایوں کی طرح چلتے تھے اور جو نوجوان لڑکے لڑکیاں دونوں پاؤں پر کھڑے ہو کر چلنے لگے تھے، وہ بھی درختوں کے تنوں کو تھام تھام کر آگے بڑھتے تھے۔ بڑے بزرگ نوجوانوں کو گھور گھور کر دیکھتے اور چلا چلا کر کہتے ’’ناں الفت پنے کرو۔ ناں اسماں میں ٹاکیاں لگاؤ۔ سیدھی طرح اپنے باپ دادا کی ریت پر چلو۔ بے اصولے چلنے سے منہ کے بل گرو گے اور ہڈی پسلی تڑوا لو گے۔‘‘ لیکن ہر بستی کے نوجوان چونکہ بے وقوف ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے بزرگوں کی بات مانے بغیر دوپاؤں پر ہی چلتے رہے اور ڈگمگاتے رہے۔

راڑا سواں ندی کا باشندہ تھا اور اس کے علاقے کی بستیوں کے لوگ بڑی دیر سے دو پاؤں پر چل رہے تھے۔ ان بستیوں کے بڑے بادشاہ بھاماں کی دور دور تک کلاجگی ہوئی تھی کیونکہ وہ ندی کنارے اگی ہوئی گھاس سے نرم ہار نکال کر ایسے وستر بنا دیتا تھا جن کو پہن کر نہ سردی لگتی تھی نہ گرمی۔ وہ سارا دن سواں ندی کے کنارے بیٹھا نرم نرم ہار نکال کر ان کے گٹھے بناتا رہتا اور شام کو ان میں جوڑ ڈال کرگٹھ بھر چوڑی اور لال سانپ سے دو ہاتھ لمبی پٹی تیار کر لیتا۔ یہ پٹی جنے جنانی کے سینے اور پیٹ پر لپٹنے کے بعد بھی تھوڑی سی بچ رہتی جو چھوٹے بچے کے کندھے اور چھاتی کے ڈھانپنے کے کام آ جاتی۔

بھاماں کا وزیر بہنگی تھا۔ بہنگی کو پہاڑوں کے اوپر کالے رنگ کے پتھر سے شیشے کا ایسا تیز دھار ٹکڑا مل گیا تھا جس نے کٹاس کی ایک ڈلی پر صدیوں کی دھوپ پڑنے سے یہ صورت اختیار کی تھی۔ جن لوگوں کے بال چپک جاتے یا بدن کے کسی حصے سے چپٹ جاتے یا آنکھوں اور منہ کے سامنے جھالروں کی طرح یوں اٹک جاتے کہ بندہ نہ دیکھ سکتا نہ کچھ کھا سکتا، وہ بہنگی کے پاس آ کر شیشے سے بال کٹوا کر اپنا پنڈ چھڑوا کے لے جاتے۔ اس کے اس کمال کی وجہ سے بھاماں بادشاہ نے اسے اپنا وزیر بنا لیا تھا۔

اصل میں اس زمانے کا یہی دستور تھا کہ انسانوں کے گروہ کو جس چیز کی اشد ضرورت ہوتی اور جس کے بغیر ان کی زندگی کے لالے پڑے ہوتے، اگر وہ چیز کوئی شخص بنا کر یا دریافت کر کے یا اختراع کر کے ان کو فراہم کر دیتا تو وہ اس کو اپنا پیشوا مان کر اسے اپنا بادشاہ بنا لیتے تھے اور زندگی بھر اس کی اطاعت سے سر نہ پھیرتے تھے۔

اکثر آبادیوں کے بادشاہ جولاہے تھے۔ بہت سے گروہوں پر پتھ جوڑ کر گھر بنانے والوں کی حکمرانی تھی۔ کچھ لوگ جنہوں نے کھودا کھودی کے پترے اور سوئے بنا کر دکھا دیے تھے، ان کو سب نے خوش ہو کر اپنا بادشاہ مان لیا تھا۔ کئی علاقوں میں بال کاٹنے اور ناخن تراشنے والے بادشاہ تھے اور ان کی دور دور تک مانگ تھی۔ سو سو، دو دو سو کے گروہ ان کے آگے ناچتے گاتے، انہیں اپنی اپنی بستیوں میں لے جاتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ سب سے بڑے نامی گرامی، طاقت ور اور مشہور زمانہ وہ بادشاہ تھے جنہوں نے خود رو پودوں سے ان کے بیج تلاش کر کے انہیں مٹی میں دبانے کا فن نکالا تھا۔ وہ اپنی بستیوں کے اندر خود رو پودے اپنی مرضی سے اگا لیتے تھے اور انہیں خوراک کی تلاش میں دور نہیں جانا پڑتا تھا۔ بیج نکالنے اور دبانے کا فن ان بادشاہوں نے اپنی مملکتوں کے علاوہ دوسری سلطنتوں کے لوگوں کو بھی سکھا دیا تھا، اس لیے یہ لوگ بادشاہوں کے مقابلے میں شہنشاہ کہلانے لگے اور غاروں اور درختوں کی کھوہوں میں ان کی پوجا عام ہونے لگی تھی۔

اس زمانے میں چونکہ لوگوں کو صرف ہاتھ کا کام ہی آتا تھا اس لیے اعلیٰ درجے کا کام کرنے والے اور دوسروں کو ہاتھ کا کام سکھانے والے ہی راجے، مہاراجے اور راج ادھیراج تھے۔ اس وقت کرۂ ارض پر جولاہوں، ترکھانوں، لوہاروں، موچیوں، مستریوں اور دستکاروں کی حکومت تھی اور ان ہی کے پیشوں سے مملکتیں، سلطنتیں اور راجدھانیاں پہچانی جاتی تھیں۔

اپنے ہڑپہ سے کوئی بارہ کوس آگے چیچا وطنی کی طرف ایک بہت بڑی آبادی ہمبہ کی تھی، لیکن یہ ہڑپہ کے وجود میں آنے سے کئی ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ ہمبہ کے لوگوں نے دونوں پاؤں پر چلنا شروع تو کر دیا تھا، لیکن اب ان کی زندگی ایک دردناک عذاب میں مبتلا ہو گئی تھی۔ پہلے جو راہیں اور پگڈنڈیاں ان کی نگاہوں سے بانہہ بھر دور ہوتی تھیں، اب چھ سات فٹ نیچے اتر گئی تھیں۔ اونچے نیچے راستے، قدم قدم پر نوکیلے پتھر، سولوں کانٹوں سے بھری واٹیں… پانچ دس قدم چلنے کے بعد پاؤں لہو لہان ہو جاتے اور لوگ بیٹھ بیٹھ کر اور رک رک کر اپنے غاروں اور کھوہوں میں واپس پہنچتے۔ عورتوں اور چھوٹے بچوں کا تو برا حال تھا۔ بوڑھے البتہ اپنے پرانے چوپایہ چلن پر آ گئے تھے، اس لیے وہ پھونک پھونک کر قدم دھرتے تھے اور جوانوں سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے۔

راڑا سواں ندی کا باشندہ تھا۔ رمتا جوگی تھا۔ کام کاج سے اس کو دلچسپی نہ تھی۔ سیر و سیاحت کا دیوانہ تھا۔ ایک اچھے گھوڑے جتنی مسافت دن بھر میں طے کر کے کسی درخت کے نیچے یا درخت کے اوپر رات گزار کر اگلے دن اپنا سفر پھر شروع کر دیتا۔ اس کے پاؤں لمبے سفر کی صعوبتیں سہہ سہہ کر گھوڑے کے سموں کی طرح سخت ہو گئے تھے اور جب وہ چلتا تھا تو جنگلی گھوڑیاں دریا کنارے چگتی سر اٹھا کر اسے غور سے دیکھنے لگ جاتیں کہ باقی دو سموں کی ٹاپ کیوں نہیں آرہی!

راڑا جب ہمبہ پہنچا اور اس نے ہتھیلی جیسی ہموار سرزمین پر خوب صورت مخلوق کو ایک دردناک عذاب میں مبتلا پایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بستی کی گھابھن اور شیردار عورتیں اس کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئیں اور باری باری اس کا ہاتھ پکڑ کر اس سے اپنے گال اور گردنیں سہلانے لگیں۔ راڑا نے جب ان کے سوجھے ہوئے، لہولہان، زخمی اور کٹے پھٹے پاؤں دیکھے تو وہ کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔ چپ تو وہ پہلے ہی تھا کہ ان کی بولی اس کی سمجھ سے باہر تھی لیکن اب ساکت اس لیے ہو گیا تھا کہ سواں ندی کی عورتوں کا مساس ہمبہ کی عورتوں سے مختلف تھا۔

جب ہمبہ کے بادشاہ نے، جس نے اپنی رعایا کو گھاس سے رسی بٹنے کا علم سکھایا تھا، راڑا کے سامنے کچی گندم، جنگلی پونڈا اور کول ڈوڈے کے بیج رکھے تو بادشاہ کے پیپ دار لیس بھرے پاؤں دیکھ کر راڑا کھانا پینا بھول گیا اور اس نے اپنے دل میں مخلوق خدا کی اس مشکل کو آسان کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔راڑا بستی سے باہر نکل آیا اور اس نے باہر درختوں میں اپنا بسیرا کرنا شروع کر دیا۔ زخمی پاؤں والی عورتوں نے اسے بہت یاد کیا، لیکن وہ اتنی دور تک چلنے سے لاچار اور راڑا تک پہنچنے سے معذور تھیں۔ ہمبہ کے بادشاہ نے پردیسی مہمانوں کو کھانا بھجوانے کی کوشش کی، لیکن اس کے خدمت گار زیادہ فاصلہ طے نہ کر سکے۔ بستی کے لوگ بہت روئے اور ان سے الگ ہو کر راڑا بھی بہت رویا۔

راڑا نے اپنے پاؤں کے ساتھ پتے باندھ کر چلنے کی کوشش کی، لیکن پتے پہلے ہی قدم پر پھٹ گئے۔ اس نے درختوں کی چھال کے سوکھے ٹوٹے ایڑی سے پنجے تک باندھ کر چلنا شروع کیا تو دس بارہ قدم کا پینڈا صاف طے کر گیا، لیکن پھر اس کے سموں کے نیچے چھال کے ٹوٹے کرچی کرچی ہو گئے۔ اس نے گھاس کی رسیاں بٹ کر پاؤں کے گرد لپیٹیں اور بڑی دور تک آگے نکل گیا، لیکن جب وہ مڑنے لگا تو رسیاں ٹوٹ کر ریشہ ریشہ ہو گئیں اور اس کی انگلیوں میں سبز گھاس کے تنکے رہ گئے۔

اس کو بستی سے باہر زندگی گزارتے کئی مہینے ہو گئے لیکن اس کا نخل تمنا ہرانہ ہو سکا۔ اس عرصے میں وہ دو تین مرتبہ بستی کے اندر آیا بھی اور اعتراف شکست اور ناکامی کی خفت کا اظہار کر کے واپس چلا گیا۔ اس نے روتی ہوئی عورتوں کو بھی مڑ کر نہ دیکھا جو اپنے پاؤں کے زخموں سے بے نیاز اس کی جدائی کے بوجھ تلے رو رہی تھیں اور درختوں کے نیچے ان ہرنیوں کی طرح کھڑی تھیں جن کے کالے مرگ کوش کاری بانس سے لٹکا کر کندھوں پر دھرے لیے جا رہے ہوں۔

جس روز سردیوں کی دھوپ میں زمین پر پالتی مارے راڑا اپنی چکڑ بھری انگلیوں سے چپنیاں پھاڑ پھاڑ کر کول ڈوڈے کے بیج کھا رہا تھا، اس وقت دڑؤعین اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ راڑا نے جب اپنے ہاتھوں اور چھاتی پر اچانک اندھیرا سا ڈٹھا تو اس نے نظریں اوپر اٹھا کر دیکھا۔ سامنے دڑؤ کھڑا تھا اور اس کے منہ میں جنگلی پونڈے کی ٹوری تھی۔ دونوں نے ہاتھ کے اشارے سے ایک دوسرے کی خبر پوچھی، لیکن دونوں ہی ان اشاروں کا ٹھیک ٹھیک مطلب نہ سمجھ سکے۔ اصل میں ان کے اشاروں میں گرامر کی کئی غلطیاں تھیں اور وہ ابلاغ کے علم میں بالکل کورے تھے۔ دڑؤ بڑے اطمینان سے راڑا کے سامنے بیٹھ گیا اور غور سے اس کے پاؤں دیکھنے لگا۔

دڑؤ سمندر کے پاس دلدلی علاقوں کا باشندہ تھا اور اس کے پاؤں پیدائشی طور پر بڑے نرم و نازک تھے۔ وہ بھی راڑا کی طرح کا سیلانی جھونکا تھا جو رکتا، چلتا، دبکتا، گھومتا سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے ہمبہ آ پہنچا تھا۔ اگر یہاں دھوپ میں راڑا نہ بیٹھا ہوتا تو وہ اس سے بھی آگے نکل کر پتا نہیں کہاں پہنچ جاتا، لیکن وہ رک گیا۔

چند دنوں کے اندر اندران دونوں کے درمیان ایسی شدید رغبت پیدا ہوئی کہ وہ راڑا کے جنادھاری بوڑھ کی کھوہ میں کنڈلی مار کر ایک ساتھ سونے لگے۔ پتا نہیں یہ رغبت انسانی تھی، جسمانی تھی یا روحانی لیکن تھی بڑی سحر انگیز۔ چند دنوں کے اندر اندر وہ ایک دوسرے کی بولی بھی سمجھنے لگے اور ایک دوسرے کے دلوں کا بھید بھی جاننے لگے۔ دڑؤ کبھی آنکھ کے ساتھ آنے والے ایک سال کی پوری تصویر دیکھ لیتا تھا، لیکن اس کو چولستان سے نکلی ہوئی ہرنوں کی اس ڈار کا پتا نہیں چلتا تھا جو اپنے بڑے غول سے بھٹک کر ہمبہ سے سات آٹھ کوس کی دوری پر گزر رہی تھی۔ راڑا اپنی آنکھیں چندھی کر کے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں گھنگچی جتنا فرق رکھ کے آنے والی کئی صدیوں کو اچھی طرح دیکھ لیتا تھا۔ ان صدیوں کی چلتی پھرتی تصویروں میں اسے صرف ایک دو باتیں ہی ٹھیک سے سمجھ میں آتی تھیں، باقی اس کے سر پر سے گزر جاتی تھیں۔ پرندے، ندیاں، آسمان، چوپائے اور درخت تو اس کو کچھ مطلب فراہم کرتے تھے لیکن باقی کی ساری چیزیں انسان سمیت اس کی گرفت میں نہیں آتی تھیں۔ اس کو نظر تو سب کچھ آتا، لیکن سمجھ نہ آتا۔ سمجھ نہ آتا تو بیان نہ کر سکتا۔ بیان نہ کر سکتا تو اس کی خاموشی کے پھیلاؤ میں اور بھی اضافہ ہو جاتا اور جب خاموشی میں اضافہ ہوتا تو دڑؤ اس سے خوف زدہ ہو کر دور نکل جاتا۔ دور نکل جاتا تو کئی کئی دن تک واپس نہ آتا۔ کئی کئی دن تک واپس نہ آتا تو رغبت کا مارا راڑا اس کو تلاش کرکے واپس لے آتا۔ پتا نہیں یہ رغبت انسانی تھی، جسمانی تھی یا روحانی لیکن تھی بڑی طاقت ور اور سحر انگیز!

سوجے سوجے، لہولہان اور زخمی پاؤں کو پہناوا عطا کرنے کے لیے دڑؤ بھی راڑا کی مہم میں برابر کا شریک تھا بلکہ ان دونوں کے درمیان باہمی رغبت کی ایک بڑی وجہ یہ تلاش ہی تھی جو انہیں صبح سے شام تک دیوانوں کی طرح ویرانوں میں لیے پھرتی تھی۔ اچانک ایک روز درخت کا ایک بڑا سا ڈالا ٹوٹا اور نیچے سوئے ہوئے باگڑ بلے پر گرا۔ یہ سب کچھ اس قدر خاموشی سے ہوا کہ بھورے بلے کو پتا بھی نہ چل سکا کہ وہ مر گیا ہے اور اب اس کا دنیا کے ساتھ کوئی رشتہ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ ڈالا بڑا تھا اور پتے زیادہ تھے۔ کئی دنوں تک گدھوں کو باگڑ بلے کی لاش نظر نہ آ سکی۔ پتا اس روز چلا جب باگڑ بلے کی سڑتی ہوئی لاش کی بدبو دور دور تک پھیل گئی۔راڑا نے سانس روک کر باگڑ بلے کو پتوں کے تنبو سے نکالا اور اپنے گھر کی کھوہ سے بہت دور لے جا کر کھلے میدان میں ڈال دیا۔ تین گدھ کنی مانگتی تکلوں کی طرح فضا میں ٹیڑھے سے اترے اور دیکھتے دیکھتے بھورے رنگ کے باگڑ بلے کو چاٹ چوٹ کر صاف کر گئے۔ پھر بڑے زور کی بارش ہوئی اور باگڑ بلے کی بھوری کھال مٹیالی ہو کر زمین کے ساتھ چمٹ گئی۔

ہمبہ کی ایک نوخیز، چھریرے بدن اور سانولے رنگ کی گابھن لڑکی سب کی آنکھ کا تارہ تھی۔ یہ لڑکی نرم دھول کے راستوں پر چلتی اور نرم زمین کی کھوج میں کوئی میل بھر کا چکر کاٹ کر ہر دوسرے تیسرے راڑا کو دیکھنے ضرور آتی۔ ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر وہ راڑا کو تکے جاتی اور اپنی زبان میں کچھ ایسے بول بولتی جاتی جو اس وقت تو راڑا کو سمجھ میں نہیں آتے تھے، لیکن بعدازاں کئی لاکھ برس گزرنے کے بعد جب وہی بول ’’ماہیا‘‘ کے روپ میں زبان زد عام ہوئے تو راڑا اس جہان سے کوچ کر چکا تھا۔ اپنے گربھ کی وجہ سے وہ لڑکی بیٹھی ہوئی یوں لگتی جیسے ابھی اٹھنے والی ہے اور جب بھرپور کھڑی ہوتی تو نظر آتا جیسے ابھی بیٹھنے والی ہے۔ اس کے بدن میں اتنی گولائیاں پیدا ہو گئی تھیں کہ سکون میں بھی اس کا انگ انگ متحرک رہتا تھا۔ اس کے فاختاؤں جیسے پیر زخمی بھی تھے اور سوجے ہوئے بھی۔ راڑا اس کے چہرے اور بدن سے لطف اٹھانے کے بجائے ہر وقت اس کے پیروں ہی کو دیکھا کرتا اور پیروں ہی میں گھرا رہتا۔

جب اس کرۂ ارض پر چمڑے کا پہلا جوتا بنا تو وہ اس باگڑبلے کی کھال کا تھا جس کو گدھوں نے چاٹ چوٹ کر اندر سے بالکل خالی کر دیا تھا اور اس کی کھال کو زمین پر پھیلا دیا تھا۔ دنیا کا پہلا موچی راڑا تھا اور دنیا کا سب سے پہلا جوتا اس گربھ وتی کے لیے بنا تھا جس کے پاؤں فاختاؤں جیسے تھے۔ہمبہ کے ڈور بٹیا بادشاہ نے بستی کے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر پہلے تو راڑا کو سجدہ کیا، پھر اپنی پچیس سالہ پرانی حکمرانی اس کے حوالے کر دی۔ ہاتھ پکڑکر راڑا کو خود  تخت پر بٹھایا۔ اس کی دونوں آنکھوں اور پھر دونوں ہاتھوں کو الگ الگ بوسہ دیا اور بستی کے سارے لوگوں سے اس رسم کی ادائی کی درخواست کی۔ دست بوسی کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا اور جو لوگ ہمبہ کے باسی نہیں بھی تھے، وہ بھی اردگرد کے علاقوں سے آ کر راڑا بادشاہ کے ہاتھ چومتے رہے۔

دڑؤ، جس کو راڑا نے اپنا وزیر بنا لیا تھا، ایک خالص بوٹے کا چھلکا اتار کر اس سے باریک اور مضبوط رسی بٹنے کا ماہر ہو گیا تھا۔ پھر اس نے چمڑے کے اندر باریک سوراخ نکالنے کا راز بھی معلوم کر لیا تھا اور ساتھ ساتھ عورتوں کے دلوں کو چھیدنے کا بھی ماہر ہو گیا تھا۔

راڑا بادشاہ کے اوپن ایئر شاہی محل کے ہر طرف ہر طرح کے پالتو اور جنگلی جانور کٹ رہے تھے اور ان کی کھالیں ستھرائی اورصفائی کے لیے اور بعد میں چمڑے کی کمائی کے لیے بادشاہ کے پاس پہنچا دی جاتی تھیں۔ بادشاہ سلامت ستر پر ایک لنگوٹ سا لپیٹ کر سارا دن گندے پانی میں اترے بدبودار کھالوں کو دھوتے رہتے اور ان کے قریب وزیر باتدبیر دڑؤ چمڑے کے کونوں کو تسوارے اور ڈوریاں بٹوریاں لگے رہتے۔ سب سے پہلے ہمبہ بستی کی عورتوں نے جوتے پہنے، ان کے بعد پاؤں چلنے والے لڑکے لڑکیوں نے، پھر جوانوں نے اور سب سے بعد بوڑھوں کے لیے جوتیاں بنانے کا ڈول ڈالا گیا۔

بادشاہ نے اردگرد کے علاقوں سے لوگ بلوا کر انہیں بھی جوتا بنانے کا فن سکھایا اور وہ بھی چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں کے مالک بن گئے۔ اس زمانے کے بڑے بڑے بادشاہ، اونچی عزتوں اور لمبی شہرتوں والے حکمرانوں زیادہ تر جولاہے، نائی، پتھر پھوڑ اور کاٹھ پھوڑ مستری، دھات کار اور بیج آگئے تھے۔ اب ان میں خاندان موچیاں کا بھی اضافہ ہو گیا۔ موچیوں کے کام کی ایسی کلاجگی کہ بہت سے پرانے دھرانے سیانے بادشاہوں نے اپنے سروں سے راج ادھیراج کا مکٹ خود اتار کر موچیوں کے سروں پر رکھا اور انہیں اپنا بادشاہ بنا لیا۔

جب موچی بادشاہ راڑا اور اس کے وزیر دڑؤ کو ہمبہ پر حکومت کرتے دس سال پانچ مہینے اور تئیس دن ہو گئے تو آج کے وسط ایشیا کی اور سے ایک پردیسی گھومتا گھماتا، بھوکوں مرتا، دھکے کھاتا ہمبہ کی بستی میں آ نکلا۔ اس پردیسی کا رنگ صاف، بال ککے، قد لمبا اور آنکھیں کیری تھیں۔ تیز بولتا اور تیز چلتا اور تیز سوچتا تھا۔ ہمبہ کے جنے اور جنیاں سبھی اس کے گرد جمع ہو گئے اور بولی نہ جاننے کے باوجود اس کی محبت کے جھومر ڈالنے لگے۔ خود بادشاہ راڑا، بادشاہ کا وزیر اور اس کی عورتیں پردیسی سے دل لگا کر اسے نظروں کے سامنے بٹھا کر کھڑے ہو گئے۔

تیز تیز چلنے اور تیز تیز بولنے والے پردیسی نے بڑی تیزی کے ساتھ ہمبہ والوں کی بولی سیکھ لی اور ان کے اور قریب ہو گیا۔ بستی کے سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھلے میدانوں، بند رستوں اور گہری نیائیوں میں اس کے ساتھ گھومنے لگے۔ اس ککے کیرے پردیسی کو بات کرنے، بات کو چمکانے اور چمکتی ہوئی بات کو گھما کر پھینکنے کا ایسا ڈھنگ آتا تھا کہ وہ کسی بھی لڑکے کی جانگھوں اور کسی بھی لڑکی کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ سکتا تھا اور لیٹتے ساتھ ہی خرمستیاں بھی کر سکتا تھا۔ اس کے بولنے میں بات کی بول بانٹ ایسی خوبصورت ہوتی کہ بڑھت میں چوکور بھی چلتی اور گول گول دائروں میں بھی برابر کی کاٹ کرتی جاتی۔ بڑے بوڑھے اور اپنے سوئے پورے کر چکی عورتیں اس کی راہوں کو پلٹ پلٹ کر دیکھا کرتیں حالانکہ وہ ان راہوں سے کبھی کا گزر چکا ہوتا۔

ککاکیرا ساری بستی کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ ایک ٹیلے پر بیٹھ کر رات بھر جگمگاتا اور بستی کے سارے لوگ ساری ساری رات اس کی پوجا میں مگن رہتے۔ اس کا سب سے بڑا پجاری وقت کا بادشاہ راڑا تھا جس نے جوتے بنانے، مساس کروانے اور محبت کرنے کا کام چھوڑ دیا تھا اور ایک ہی طرف ٹکٹکی لگا دی تھی۔ ککے کیرے کے پاس آگہی کا خزانہ اور جان کاری کی موہنی تھی۔ اس نے کبھی جوتا نہیں بنایا تھا، لیکن وہ جوتا بنانے پر دن بھر بیان دے سکتا تھا۔ وہ بال کاٹنے کے فن سے نا آشنا تھا، لیکن بالوں کے بارے میں کاٹنے کے حوالے سے، کٹنے کے رشتے سے، تیشے کی دھار سے، کانچ کی جھریٹ سے اچھی طرح واقف تھا، اس کو کپڑا بنانا نہیں آتا تھا، پر پٹھے کی قسم پر، ریشے کی شان میں، دھاگے کے بیان میں، ڈور کی لٹکن میں، لچھے کی الجھن میں پوری پوری رات بات کر سکتا تھا۔

اس کے پاس بات تھی اور بڑی ہی لمبی بات تھی۔ بول بچن کے زور پر وہ ہر خالی دل میں گھر کر لیتا تھا اور ہر بھرے ہوئے گھر کو خالی کروا لیتا تھا اور ہر خالی وقت کو اپنی باتوں سے بھر کر اس میں چکا چوند کے چھلے، گھنگھرو اور گھونگھے سیپیاں ٹانک سکتا تھا۔ ککا کیراایک ایسی آسمانی مخلوق تھا جس کو کچھ بھی کرنا نہیں آتا تھا اور سارے کرنے والوں پر اس کی حکمرانی تھی۔ وہ محنت سے شدید نفرت کرتا تھا اور سارے محنت کرنے والے ایک ایک کر کے اس کی محبت کے تالاب میں ڈوبتے جا رہے تھے۔ایک رات پورن ماشی کا چاند اس کے ٹیلے کے عین اوپر آ گیا تو ککے کیرے نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’میں بے کار رہ رہ کر تنگ آ چکا ہوں اور اب اپنی بقیہ زندگی اس بستی کا بادشاہ بن کر سکون و تسکین اور راحت و آرام سے گزارنی چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے سارے ساتھی یہ بات سن کر سکتے میں آ گئے۔ بڑی دیر تک چاند کی چاندنی میں پتھر کے بت ساکت و صامت بیٹھے رہے… دیوتا تاٹیلے پر اور پجاری نیچے ٹھنڈی ریت پر۔

جب بڑی دیر گزر گئی تو دیوتا نے اپنی بات ایک بار پھر وضاحت کے ساتھ دہرائی اور ہاتھ کے اشارے سے اس چھوکرے کو اپنی طرف متوجہ کیا جس کے کندھے بکائن کی چھتری کی طرح چوڑے اور جس کا بدن کھجور کے پیڑ کی طرح کھنگریلا تھا۔ اس نے حسرت بھری چیخ مار کر کہا ’’کاش ہم تیری یہ آرزو پوری کر سکتے اور تجھے اس ٹیلے سے اٹھا کر ابھی اس پتھر پر بٹھا سکتے جو صرف بادشاہوں کے لیے بنا ہے اور نیم کے گھنے اور ٹھنڈے پیڑ کے نیچے اسی مقصد کے لیے رکھا گیا ہے، لیکن یہ بات نا ممکن ہے۔‘‘

ککے کیرے کو اس ان گھڑت چھوکرے کی یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے نفرت کی ایک عجیب آواز اپنے حلق سے نکالی اور ٹیلے سے نیچے کی طرف تھوک دیا۔ چھریرے بدن کے ایک خوبصورت سے جوان نے ہاتھ ہوا میں لہرا کر کہا ’’باوجود اس کے کہ ہمارا دل تجھی کو بادشاہ بنانے پر رضا مند ہے اور ہم اندر سے تجھی کواپنے ہردے کا بادشاہ مانتے ہیں لیکن ہمارے دستور کی پہلی شق ہی اس اعلان سے کھلتی ہے کہ جو محنت کش، کارکنندہ، کارگر یا زحمت کش اپنی کسی اپج سے یا اپنی کسی ایجاد سے لوگوں کی بنیادی ضرورت کا حل عملی صورت میں پیش کرے گا اور اس پر باقاعدگی سے عمل کرتا رہے گا، صرف اسی کو بادشاہ بننے کا حق حاصل ہو گا اور وہی لوگوں کے درمیان حکم ہو گا۔‘‘

ککے کیرے نے کہا ’’میں ایسے دستور کو نہیں مانتا… نہیں مانتا… نہیں مانتا۔‘‘

اپنے دستور کی پہلی ہی شق کے خلاف تین مرتبہ نفی کا اعلان سن کر سارے جوان اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بیک زبان کہا ’’یہ صرف ہمارا ہی دستور نہیں، ساری دنیا کی ہر بستی اور ہر گروہ کا دستور ہے اور اس کے پری ایمبل کا پہلا فقرہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ ہم اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔‘‘

ککا کیرا سفید دودھیا چاندنی میں دونوں ہاتھ پھیلا کر ٹیلے پر مقدس ککرمتے کی طرح کھڑا ہو گیا اور اس نے علم کی برتری اور ہاتھ کی کارکردگی، ہنردستی، کارجسمانی اور صنائع دستی کی بے وقعتی پر بھاشن دینا شروع کر دیا۔ یہ اس کرہ ارض کی وہ پہلی تقریر تھی جس میں غیر کارکن، بے حرفہ، بدون عمل اور ناتمام لیکن لسان انسانوں کو بلند و برتر اور رفیع و عالی بتایا گیا جبکہ کارآمد، کارشناس، پیشہ ور اہل حرفہ کو کمی کمین کا نام دیا گیا۔ جب چاندنی میں کھڑے انسانوں کو اس حقیقت کا علم ہوا کہ سخن سازیے، گل باتئے، بیان بازیے اور لفظ انڈیلئے دیوتاؤں کی اولاد ہیں اور ہاتھ بدن سے کام کرنے والے راکشسوں کے پھوسٹرے ہوتے ہیں تو وہ انقلاب کے نام پر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سرکنڈوں کی مشعلیں جلا کر اپنے جولاہے بادشاہ راڑا اور اپنے ڈور بٹیا وزیر دڑؤ کے خلاف بغاوت کر دی۔

بہت سی جذباتی عورتیں اور معصوم بچے پہلے ہی حملے میں مارے گئے اور بہت سے بوڑھے جنہوں نے بلوائیوں سے یہ کہا کہ اس ہری بھری زمین پر فساد نہ پھیلاؤ، اس فقرے کی ادائی پر قتل کر دیے گئے۔ راڑا اور دڑؤ نیم تلے کا تخت چھوڑ کر بھاگے اور باغیوں کے آگے بھاگتے ہی گئے۔

صبح ہو چکی تھی۔ معزول بادشاہ راڑا اور اس کا وزیر دڑؤ دونوں ایک ساتھ جان کے خوف کے مارے سرکنڈے کی بیڑ میں چھپے بیٹھے تھے۔ جب باغیوں کے ژوئیں ژوئیں کرتے نیزے ان کے اردگرد آ کر گرتے تو دونوں سہم کر ایک دوسرے سے چمٹ جاتے۔ تلاش کرتے باغیوں کے کتے، لگڑ بگڑ، لومڑا اور پالتو بجو تخت چھوڑ کر بھاگنے والے بادشاہ اور وزیر کی کھوج میں اپنے مالکوں کا ساتھ دے رہے تھے، لیکن دونوں ہی ناکام تھے… سونگھنے والے پالتو جانور بھی اور ڈھونڈنے والے باغی بھی۔

جب دھوپ تیز ہو گئی اور باغی تھک ہار کر اپنے نئے بادشاہ ککے کیرے کے پاس چلے گئے تو سرکنڈے کے سمندر میں بے نام سی حرکت ہوئی۔ دڑؤ نے پھوس تلے چھپی ہوئی بٹیر کی طرح سر اٹھایا اور اپنے قریب بیٹھے ہوئے چمرخ ابوالہول راڑا سے پوچھا ’’ہماری حکومت گئی؟‘‘

راڑا نے آنکھیں جھپکائے اور ہونٹ ہلائے بغیر کہا ’’گئی!‘‘

تھوڑی دیر دڑؤ خاموش رہا۔ پھر بولا ’’کچھ عرصے بعد ہمارا تخت و تاج دوبارہ بھی تو مل سکتا ہے؟‘‘

راڑا نے نفی میں سرہلایا تو دڑؤ تیز پترے سے اس پر حملہ کرنے کو ابھرا۔ راڑا نے اس کی کلائی پکڑ کر مروڑی اور پترا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر سرکنڈوں میں گر گیا۔

دڑؤ نے روتے ہوئے کہا ’’چلو اب نہ سہی، پھر کبھی سہی لیکن ہماری حکومت ہمیں مل تو جائے گی… واپس!‘‘

راڑا نے پورے شاہی جاہ و جلال سے اسے جھڑک کر کہا ’’تخت و تاج کو دفع کرو احمق انسان اور اپنی جان بچانے کی فکر کرو۔ اگر اس وقت یہ جان بھی بچ جائے تو غنیمت ہے‘‘۔

دڑؤ نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’مالک! تمہارے پاس تو کشف کا علم ہے اور تم بڑی دور تک دیکھ سکتے ہو۔ اگر صرف یہ بتا دو کہ کتنے نئے چاند بعد ہماری حکومت ہم کو واپس مل جائے گی تو پھر میں تم سے کوئی سوال نہیں کروں گا؟‘‘

راڑا نے زچ ہو کر کہا ’’میں نے تمہیں بتایا نہیں کہ اب حکومت کبھی لوٹ کر ہمارے پاس نہیں آئے گی اور ہم وہاں ساری عمر اسی طرح ہی رہیں گے اور ساری جونیں اس طرح بکھرے رہیں گے، پر تمہیں یقین کیوں نہیں آتا؟‘‘

دڑؤ نے دونوں خون آلود ہاتھ تیزدھار سرکنڈوں پر ڈال کر وہیں اپنا ہاتھ ٹیک دیا اور رو کر بولا ’’مجھے آخری بار بتا دو مالک! اپنے کشف کی لوچن سے دیکھ کر بتاؤ، پھر چاہے اپنے ہاتھ سے مار کر آگے نکل جانا… پر دیکھو اور اسی پنتھ کے زور پر جس نے تم کو لتر بنانے کا رواج سکھایا۔‘‘

تھوڑی دیر تو معزول بادشاہ خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں چندھی کر کے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں گھنگچی جتنا فرق رکھ کر آنے والی صدیوں کو اپنے سامنے لا کھڑا کیا۔ تھوڑا سا وقت تو اس نے صدیوں کی بھول بھلیاں میں گھوم پھر کر گزارا۔ پھر ہلکی سی جھرجھری لے کر بولا ’’ناں بھائی! اپنا راج تو دور دور تک نظر نہیں آتا۔‘‘

’’کیوں نہیں آتا؟‘‘ دڑؤ نے خوف زدہ ہو کر کہا ’’اور پیچھے دیکھو۔ بالکل پیچھے چلے جاؤ۔ اس کے بعد کے بعد میں بھی ڈھونڈو۔‘‘

’’وہاں بھی ان ہی لوگوں کے راج اور ان ہی کی راج دھانیاں ہیں۔‘‘ راڑا نے بالکل پیچھے دیکھ کر کہا۔

’’اور ہم؟‘‘ دڑؤ نے گھبرا کر پوچھا۔

’’ہم اسی طرح ہیں۔‘‘ راڑا نے ذرا سی آنکھیں اور میچ کر کہا ’’ہمارے وستر، بھیس اور کپڑے بدل گئے ہیں پر ہمارا آسمان وہی ہے جو راج پاٹھ والوں نے طے کر دیا ہے۔ ہم ہنر مند، محنت کش، کارگر اور زحمت کش ہیں۔‘‘

’’ہم کو مار مار کر بھگا رہے ہیں سرکنڈوں کے جنگل میں سے؟‘‘ دڑؤ نے پوچھا۔

’’ناں ناں ناں‘‘ راڑا نے مسکرا کر کہا ’’مار نہیں رہے، ہم سے کام لے رہے ہیں اور ہم سے بڑے خوش ہیں۔‘‘

’’خوش ہیں؟‘‘ دڑؤ نے حیران ہو کر پوچھا ’’واقعی خوش ہیں؟‘‘

’’بہت خوش، بہت نہال، پرسن، دل شاد!‘‘

’’دل شاد؟‘‘ دڑؤ اپنی جگہ سے اچھلا۔

’’ہم پر نظمیں لکھ رہے ہیں‘‘۔ راڑا نے کہا ’’ہمیں اپنے پیار سے محنت کش، محبوب مزدور، دلارے دہاڑی دار، کڑے کسان اور قیمتی کاشت کار کہہ کہہ کر بلا رہے ہیں اور ہم سے بہت ہی خوش ہیں۔‘‘

’’سچ کہہ رہے ہو بادشاہ؟‘‘

’’بالکل سچ، بالکل صحیح‘‘ راڑا نے کہا ’’ہمارے گیت بھی گا رہے ہیں اور ہماری جے بھی بلا رہے ہیں۔ ہمارے حقوق پر پوتھیاں، پستکیں، کتابیں اور حکم نامے لکھ رہے ہیں۔ ہماری مورتیاں اور تصویریں بنا رہے ہیں۔‘‘

’’اور ہمارے راج سنگھاسن اور تخت اور تاج؟‘‘ دڑؤ نے پوچھا۔

’’وہ ان ہی کے پاس ہیں اور ان ہی کے پاس رہیں گے۔‘‘ معزول بادشاہ نے کہا

’’اب تخت و تاج پر اور گدی سنگھاسن پر ہنر مندوں، محنت کشوں، کاری گروںکا جلوہ نہ ہو گا۔‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘ دڑؤ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو راڑا نے بہت دور اڑتے ہوئے غبار کو اپنی طرف آتے دیکھ کر آرام سے کہا ’’وہ اس لیے کہ دستور بدل گیا ہے۔ اب حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بول بچن کے بادشاہوں اور اذکار گفتار اور بیان کلیان کے راجوں کے پاس رہے گی… ہنر مندوں، کاری گروں اور محنت کشوں کے پاس نہیں۔‘‘

’’اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہو گا؟‘‘ دڑؤ نے رو کر کہا۔

’’کیوں نہیں، کیوں نہیں۔‘‘ راڑا نے تسلی آمیز لہجے میں کہا ’’راج پاٹھ بول بھاشن والوں کے لئے ہو گا اور گیت سلامیاں راج مستری کے لئے ہوں گی۔ تخت اور تاج علم والوں کے پاس رہے گا جبکہ شاعری شاباشی ہنر مندوں، محنت کشوں کے لیے ہو گی۔ بادشاہی اور حکمرانی بے ہنر، بے محنت، بے تعلق، بے اعتبار گفتگو بازوں اور پھوکے اپدیشکوں کے پاس رہے گی جبکہ تھاپی تھاپڑا کسان کاشت کار کے لیے ہو گا۔ رائل فیملی ذکر اذکار اور باتیں کرنے والوں کی ہو گی اور پچکار چمکار کی رائلٹی ہنر مندوں کو ملے گی۔‘‘

ابھی دڑؤ کچھ اور پوچھنے والا تھا کہ اس کے اردگرد اندھیرا چھا گیا۔ راڑا نے دیکھا کہ سر کنڈے کے ساگر میں باغیوں کے جم غفیر نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور ان کی زندگیوں کا آخری لمحہ آن پہنچا ہے۔

جب فتح مند باغی مقتول بادشاہ اور وزیر کی لاشیں سرکنڈوں سے گھسیٹ رہے تھے تو گھسیٹنے والوں میں خوبرو نوجوانوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو بڑی خوش الحانی کے ساتھ طربیہ مرثیہ پڑھ رہا تھا… اپنی فتح مندی اور گدی نشینی پر مسرور بھی تھا اور دونوں محنت کشوں کی موت پر نوحہ خوانی بھی کر رہا تھا!

٭٭٭