بعض منظر چاہے آپ نے دیکھے ہوں یا محض تخئیل کی پیداوار ہوں، وہ ذہن میں نقش رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ محو نہیں ہوتے۔ چند سال پہلے مغلپورہ کی شالیمار لنک روڈ پر ایک قتل کے بعد کا منظر کبھی نہیں بھلا سکتا۔کسی کام سے جارہا تھا، اچانک دو تین فائر ہوئے، آواز سن کر رک گیا۔اتنے میں ایک سفید کار نہایت تیز رفتاری سے قریب سے گزر گئی۔ کسی راہ گیر نے اشارہ کر کے بتایا کہ اس گاڑی والوں نے پیچھے کسی کو گولی ماری ہے۔ تجسس کے پیش نظر میں بھی دیکھنے چلا گیا۔ وہاں دیکھا کہ ایک باریش شخص ڈرائیونگ سیٹ پر پڑا ہے،سر سے خون بہہ رہا تھا۔ اتنے میںایمبولینس آگئی، تیزی سے زخمی کو سٹریچر پر ڈالا اور قریب ہی واقع نجی ہسپتال لے گئے۔ وہاںگئے تو دیکھاکہ سفید براق لباس میں ملبوس شخص کی لاش سٹریچر پر پڑی ہے،پیروں میںنئی پشاوری چپل تھی۔قمیص کے نیچے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی، غالباً اسی لئے گولیاں مارنے والوں نے سر کا نشانہ لیا، کھوپڑی اڑ چکی تھی۔ بعدمیں معلوم ہوا کہ مقتول ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھتا تھا اور قبضہ گروپ سمیت مختلف الزامات میں ملوث تھا۔ قبضہ گروپوں کی دشمنی کا نشانہ بنا۔ جن دنوں کراچی میں لاء کر رہا تھا، وہاں بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا۔ گرومندر کے قریب ایک نوجوان کو ایسے ہی تعاقب کر کے قتل کر دیا گیا۔ اخبارات سے معلوم ہوا کہ وہ گینگسٹر پولیس کو مختلف الزامات میں ملوث تھا۔ شام کے ایک اخبار نے موقعہ واردات کا نقشہ کھینچا کہ مقتول کی لگژری گاڑی خوشبوئوں سے مہک رہی تھی، ریکارڈر پر انگلش موسیقی چل رہی تھی، مگر سوار اس سے بے نیاز چھلنی پڑا تھا۔غالباً مے نوشی کی کسی تقریب کے بعدمقتول نکلا ،اتفاق سے غیرمسلح تھا۔دشمن گینگ نے پیچھا کیا۔ اس نے ایک دو اشارے توڑے اور نکلنے کی کوشش کی ، مگر موقعہ نہ مل سکا،باہر نکلنے سے پہلے ہی حملہ آوروں نے اسے گولیوں سے اڑا دیا۔ نہایت افسوسناک اور عبرتناک منظر اسی اخبار میں مقتول کے والد کی شائع کردہ تصویر کا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ پولیس کے ریٹائر افسر ہیں اور اس سے پہلے ان کے دو بیٹے بھی ایسی ہی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے قتل ہوچکے تھے۔ سفید ڈاڑھی والے بوڑھے باپ کو دیکھ کر صدمہ پہنچا۔ معلوم نہیں ان کی تربیت میں کیا خامی رہ گئی کہ اپنے تین گینگسٹر بیٹوں کے لاشے اٹھانے پڑے۔ چار پانچ سال پہلے جب لیاری کی گینگ وار عروج پر تھی، اس گینگ وار کے ایک اہم کردار ارشد پپو کی موت بھی ہلا دینے والی تھی۔ ارشد پپو کاگروپ لیاری گینگ وار کے مشہور کردار عبدالرحمان ڈکیٹ اور اس کے ساتھی بابالاڈلا کا مخالف تھا۔پپو کئی سال جیل میں رہا اور اس کا باپ جو خود بھی گینگ وار کا حصہ تھا، دانستہ اسے باہر نہیں آنے دیتا تھا کہ جیل کی سکیورٹی میں اسے بیٹا زیادہ محفوظ لگتا۔ حالات کچھ بدلے تو اس نے ارشد پپو کو رہا کرایا۔ عبدالرحمان ڈکیٹ تب دنیا سے جا چکا تھا۔ عزیر بلوچ بھی منظر پر نہیں تھا۔ ایسے میں بابا لاڈلا نے کسی طرح پولیس افسروں سے مل ملا کراس گھر پر چھاپہ پڑوا دیا جہاں ارشد پپو خفیہ طو رپر مقیم تھا۔ اس نے گرفتاری دے دی، یہ سوچ کر کہ بعد میں پیسے دے دلا کر چھوٹ جائے گا۔ اب نجانے یہ جعلی پولیس اسکواڈ تھا یا پھر بابا لاڈلا سے نمک حلالی کی گئی، بہرحال جب وین رکی اور ارشد پپو باہر نکلا تو وہ لیاری کا معروف چوک تھااور سامنے بابا لاڈلا اپنے پورے مسلح گینگ سمیت کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ارشد پپو کے ساتھ گزری ہولناک روداد کراچی کے ایک اخبار نے شائع کی۔ رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ پورا محلہ اکھٹا ہوگیا تھا، ارشد پپو کو ہر طرح سے اذئیت دی گئی، ڈنڈوں، خنجروں، پتھروں اور نجانے کس کس چیز سے پیٹا گیا۔اسے گدھا گاڑی میں جوت کر دیواروں سے ٹکرایا گیا۔ کہتے ہیں کہ قیمہ قیمہ وجود کو بعد میں جلا دیا گیا اور جلی کھوپڑی سے بابا لاڈلا اور اس کے گینگسٹر فٹ بال کھیلتے رہے۔ اس کیس کا عدالت نے بھی نوٹس لیا۔ جو ہونا تھا، وہ تو مگر ہو چکا تھا۔ لیاری کی خوفناک گینگ وار کا ایک لہور نگ باب ختم ہوا۔ کہانی مگر ختم نہیں ہوئی۔ وہی بابالاڈلا ، اس کے گینگسٹرز کراچی میں رینجرز کے آپریشن کا نشانہ بنے۔بہت سے مقابلوںمیں مارے گئے، کچھ پکڑے اور جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔کتنے ہی بدنام گینگ وار کے کردار تھے، عبدالرحمان ڈکیت، بابا لاڈلا، شیراز کامریڈ، ارشد پپو، عبدالستار جھینگو وغیرہ وغیرہ۔ کم وبیش سب اپنے انجام کو پہنچے۔ اپنی زندگی میں مخالفوں کے لئے ہیبت اور خطرے کی علامت سمجھنے جانے والے گینگسٹر خود بھی آخرکار نشانہ بنے اور ان کے حصے میں بھی چندفٹ کی قبر ہی آئی۔ ہماری والدہ مرحومہ ہمیشہ بچوں کے حوالے سے ایک دعا مانگا کرتی تھیں، اللہ سئیں، نہ ظالم کر نہ ظالم دے حوالے کر(رب تعالیٰ میرے بچوں کو نہ ظالم بنا اور نہ ہی کسی ظالم کے قبضے میں آئیں۔)ہر ما ں کو یہی دعا مانگنی چاہیے۔اللہ ان کے بچوں کو ظالموں سے بچائے ،مگر والدین بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ بچے خود بھی ظالم نہ بنیں ۔ گینگ وار اور گینگسٹرز کے یہ سب واقعات اتوار کی شام ایک نئی فلم دیکھ کر ذہن میں آئے۔ مارٹن سکورسیس(Martin Scorsese) ہالی وڈ کے بہت مشہورفلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر ہیں۔ سکورسیس نے خود بھی بہترین ہدایت کار کا آسکر ایوارڈ جیت رکھا ہے، مگر ان کی فلموں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کام کرنے والے اداکاروں نے متعدد آسکر ایوارڈ جیتے۔ سکورسیس کے کریڈٹ پر کئی شہرہ آفاق فلمیں موجود ہیں۔ ان میںTaxi Driver فلم کو کئی ایوارڈ ملے، رابرٹ ڈی نیرو کی اداکاری کو بہت سراہا گیا،Raging Bullیہ بہترین سپورٹس فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، ڈی نیرو ہی نے ایک باکسر کا کردار ادا کیا، Goodfellasیہ کرائم ورلڈ پر بننے والی دو تین سب سے مشہور فلموں میں سے ایک ہے۔ ’’گاڈ فادر‘‘ سیریز بہت مشہور ہے، مگر سکورسیس کی فلم ’’گڈ فیلاز‘‘امریکہ کے مافیا گینگ کے طریقہ کار کو بہت اچھے طریقے سے سمجھاتی ہے۔سکورسیس کی اکثر فلموں میںاداکار ڈی نیرو نے کام کیا، تاہم گینگز آف نیویارک میں ڈینئیل ڈے لیوس نے مرکزی کردار نبھایا۔ سکورسیس کی کئی شہرت یافتہ فلموں میں اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو نے بھی کمال کی اداکاری کی، ڈی کیپریو ہمارے ہاں ٹائٹینک فلم کے ہیرو کے طورپر پہچانا گیا۔ ڈی کیپریو نے سکورسیس کی بنائی فلموں The Aviator(یہ فلم سنکی کھرب پتی ہاورڈ ہیوز پر بنی)،The Departed، Shutter Island،The Wolf of Wall Street میں کام کیا۔مارٹن سکورسیس کی تازہ فلم The Irishmanچند ہفتے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے دنیا بھر میں ناقدین کی ستائش حاصل کی ہے۔ اس فلم کو فوری طور پر نیٹ فلیکس نے خرید لیا ۔ دی آئرش مین دراصل امریکہ کے مافیاز گینگ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور ہٹ مین(قاتل)فرینک شیرین کی بائیوگرافی ہے۔ فلم کے بیشتر واقعات درست ہیں اور ایک مشہور کتاب پر یہ بنی ہے۔ اس میں امریکی تاریخ کے ایک اہم کردار جمی ہوفا (Jimmy Hoffa)کا بھی کردار ہے۔ جمی ہوفا امریکی لیبر ٹریڈ یونین کا مرکزی لیڈر تھا اور چودہ سال تک ملک کی سب سے بڑی لیبر یونین کا صدر رہا۔ جمی ہوفا کو اس کی جعل سازیوں کی وجہ سے جیل بھیجا گیا، مگرچار سال بعد صدر نکسن نے اسے معافی دے دی۔ہوفا کے مافیا گینگ کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور اپنے مخالفوں کی سرکوبی کے لئے اس نے ان بدمعاشوں کو استعمال کیا۔ جب ان کے ساتھ اختلافات ہوئے تو فرینک شیرین جو ہوفا کی حفاظت کرتا تھا، اس نے اسے گولی ماردی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ مافیا نے جمی ہوفا کی لاش غائب کر دی ۔ ہوفا کی گمشدگی کا شمار امریکہ کی چند نمایاں گمشدگیوں میں ہوتا ہے۔ آج تک اس کی لاش نہیں مل سکی ، صرف مختلف تھیوریز چلتی رہیں، مگر کنفرم کچھ بھی نہیں۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ آج کل جمی ہوفا کا بیٹا جیمز ہوفا امریکی مین لیبریونین کا صدر ہے اور وہ پندرہ بیس برسوں سے اسی عہدے پر چلا آ رہا ہے۔ ’’آئرش مین‘‘ فلم کا سب سے متاثرکن اور عبرت انگیز حصہ آخر میں آتا ہے۔ جب درجنوں افراد کے قاتل فرینک شیرین ، اس کا مافیا باس رس بیفلینو اور دیگر بڑے گینگسٹرز کے آخری برس جیل میں دکھاتے ہیں۔ اپنی زندگی میں دوسروں کے لئے دہشت کی علامت بنے رہنے والے مافیا لیڈر بوڑھے، بیمار ہو کر کسی کینچوے کی طرح حقیر ہوگئے ۔کسی کو کینسر ہوگیا، کسی کے لئے ڈبل روٹی تک کھانا ممکن نہ رہا۔ زندگی میں کبھی مذہب، خدا کی طرف نہ دیکھا، مگر آخری دنوں میں چرچ جانے لگے۔ فرینک جس پر فلم بنی، اس کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ دولت تو تھی، مگر بچوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ انہیں اپنے بدنام، قاتل باپ سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ بوڑھے فرینک نے اپنے آخری دن وہیل چیئر پر ایک علاج گاہ میں گزارے۔ اس کی باتیں سننے کے لئے کسی کے پاس وقت تھا نہ ہی ایسی خوشگوار یادیں تھیں، جو دل بہلا سکتیں۔ طاقت، دہشت، ہیبت اور فرعونیت کے سفر کا یہی وہ فطری اختتام ہے ، جو ہر ایک کو کسی نہ کسی انداز میں دیکھنا پڑتا ہے۔ افسوس کہ اس سے سبق سیکھنے والے زیادہ نہیں۔