پوری دنیا میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی منشور یونائیٹڈ ڈیکلریشن ہیومین رائٹس کا دن منایا جاتا ہے جسے اقوام متحدہ نے 1948 میں اپنے قیام کے فوری بعد اپنایا تھا۔ اس سال 10 دسمبر 2022 سے اگلے سال 10 دسمبر 2023 تک UDHR یعنی اس ڈیکلریشن کی ڈائمنڈ جوبلی منائی جاتی رہے گی جس کا مقصد بلاامتیاز رنگ و نسل مذہب جنس زبان سیاسی اور سماجی وابستگی غربت و امارت کے حوالے سے دنیا بھر کے انسانوں کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ یہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومین رائٹس بلاشبہ اس اصول پر مبنی ہے کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں، سب کے یکساں بنیادوں پر حقوق ہیں جس کا ہر ممکن تحفظ کیا جائے گا۔ اگرچہ انسانی حقوق کا یہ عالمی دن اور عالمی منشور بڑا خوش کْن اور پرکشش ہے اور انسانی عظمت کا آئینہ دار ہے اور جن لوگوں نے اس کو ترتیب دیا ہے ایسا کرنے کا سوچا اور یو این میں اپنانے کا کام کیا وہ سب قابل احترام ہیں لیکن اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا میں پہلے سے زیادہ امتیازات، تعصبات سیاسی معاشی اور معاشرتی خرابات اور تعصبات عروج پر ہیں۔ تھرڈ ورلڈ ممالک میں حالات اس کے برعکس ہیں اور بدقسمتی سے وہ ممالک جو اس ڈیکلریشن آف ہیومین رائٹس کے اعلامیئے کے چیمپئین ہیں، وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یو این کے عالمی انسانی حقوق کے دن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کتنی قراردادیں پیش ہونگی اور کس کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا کن کن ملکوں اداروں افراد اور گروہوں کے خلاف کارروائی کا اعلان ہوگا جو گزشتہ سال کے دوران اس منشور کی روح سے ملزم یا مجرم پائے گئے ہیں امریکہ جو جمہوریت اور انسانی بنیادی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار اور مبلغ ہے جس کے آئین کا اغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے Right life liberty of and pursuit of happiness اس نے گزشتہ سال کے دوران کن کن ایسے ملکوں کی امداد بند کی ہے یا مزمت کی ہے جو ان خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ایشیامیں اس وقت بھارت وہ واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں عیسائیوں، دلتوں، سکھوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسند ہندو مسلسل ظلم و ستم کر رہے ہیں اور عوام کی توہین کی جاتی ہے، لوگوں مذہب معاشرت اور ثقافت تبدیل کرنے کے لئے ریاستی جبر ہو رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں اور امریکہ نے کواڈ کا بھارت کو ممبر بنا رکھا ہے اور G-20 کی صدارت بھی بھارت کو دے رکھی ہے۔بھارت نے اپنے نام نہاد سیکولرزم جمہوریت اور ائین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کشمیری عوام کو آٹھ لاکھ فوج کے نرغے میں قید کر رکھا ہے لیکن UN میں اس کے خلاف کوئی تادیبی قرارداد پیش نہیں ہو رہی ہے۔ اسی طرح اسرائیل نے نسلی بنیادوں پر فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کررکھی ہے لیکن اقوام متحدہ ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ عالمی قوتیں انسانی حقوق کے تحفظ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے معاشی سیاسی اور تدابیراتی مفادات کا تحفظ مقدم سمجھتی ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملکوں سے سرمایہ غیر قانونی طور پر باہر کے ملکوں میں بھیجنے پر پابندی ہونی چاہیے لیکن امیر ممالک اپنے ہاں سرمایہ داروں کو تحفظ دیتے ہیں جس سے غریب عوام کے بنیادی حقوق کی حق تلفی ہوتی ہے جس سے غربت بڑھ رہی ہے ۔ پاکستان میں جہاں معاشی لوٹ کھسوٹ مالی بددیانتی اور منی لانڈرنگ کے ملزموں اور مجرموں کو رجیم چینچ کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا ہے کیا اقوام متحدہ میں اس پر کاروائی ہوسکتی ؟ 22 کروڑ عوام کا ملک مالیاتی بدعنوانی کے سبب اب ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے ۔دنیا بھر میں اس وقت انسانی حقوق کے خلاف کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے اور اقوام متحدہ آنکھیں بند کرکے سوئی ہوئی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دن منانے، مباحثے ، مذاکرے کرانے اور قراردادیں پاس کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں۔ فلسطین کے نہتے مسلمان اپنی ہی سرزمین میں اسرائیلی بمباری تشدد کا شکار ہورہے ہیں انکی جان و مال ارزاں ہو چکی ہے۔ اسرائیلی آبادکاری کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے۔ فلسطینیوں کے حق میں دنیا میں آوازیں بلند ہوتی ہیں لیکن جنہوں نے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوانا ہے وہ جانتے بوجھتے کوئی قابل عمل اقدامات نہیں کرتے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ خود مسلمان ممالک جو مل جل کر اپنے ہاں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرسکتے ہیں، اپنی اپنی عوام کی فلاح و بہبود کا کام کرسکتے ہیں، وہ بھی تقسیم اور منتشر ہیں۔ مسلمان ممالک میں جمہوریت برائے نام ہے اور اسی لئے مجموعی طور پر ہر جگہ سب مار کھا رہے ہیں جس سے مسلم امہ کی وحدت، مسلمان لیڈروں کی وجہ سے رسوا ہورہی ہے۔ قومی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوچکی ہے اس کے لئے مائنڈ سیٹ کو بدلنا ضروری ہے۔ ٭٭٭٭٭