میں اپنی سٹڈی میں کتابوں کی شیلفوں کی صفائی اور ترتیب درست کر رہی تھی کہ شیخ سعدی کی ’’گلستان‘‘ ہاتھ لگ گئی۔ یونہی ہاتھ میں لے کر اس کی ورق گردانی کی، دل کیا کیوں نہ اس پر ہی کچھ بات کی جائے۔ شیخ سعدی کی حکایتوں میں زندگی کی حقیقتیں پنہاں ہیں۔ سیکھنے سکھانے اور داستان گوئی کا ہْنر بھی شاید انہیں کتابوں سے پروان چڑھا۔ آج کی تیز ترین دنیا میں ہر کوئی اپنے اندر ایک نویکلی دنیا بسائے ہوئے ہے۔ سب ہی اپنے آپ کو سلطان اور عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ آج کل کوئی کسی سے نصیحت لینے کو تیار ہی نہیں۔ شیخ سعدی کی حکایتوں کو پڑھ کر بے اختیار دل جْھوم اْٹھتا ہے۔ ’’گلستان‘‘ کی تراکیب اور جملے دائمی علامتوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ فارسی زبان کی چند مشہور ترین کتابوں میں جو شہرت شیخ سعدی کی تصانیف ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ کو ملی وہ بے مثال ہے۔ شیخ سعدی کو ذاتی طور پر ’’گلستان‘‘ بے حد عزیز تھی۔ گلستان سادہ اخلاقی حکایتوں پر مبنی نثر کی وہ بہترین تصنیف ہے، جس کے معنوں میں ایک جہان پوشیدہ ہے۔ گلستان کی حکایتیں انسان کے دلوں کو چھو لیتی ہیں، عوام اور معاشرے کی بات کرتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شیخ سعدیؒ نے اس میں نہایت دل نشین اور نرم انداز میں اخلاقیات کا درس دیا ہے، جو دلوں کو بوجھل نہیں بلکہ نصیحتوں سے آراستہ کرتا ہے۔ برصغیر پاک وہند اور ایران میں کئی سو برسوں سے گلستان پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے۔ دنیا کی بہت سی زبانوں جرمنی، فرانسیسی، ہندی، ترکی، گور مکھی اور پنجابی میں اس کے ترجمے ہوئے۔ انگریزی میں بھی گلستان کے متعدد تراجم ہوئے۔شیخ سعدیؒ کا نام شرف الدین تھا۔ تخلص سعدی اور لقب مصلح الدین تھا۔ شیخ سعدی کے والد محترم شیخ عبداللہ اور ان کے آباؤ اجداد مدتوں پہلے عرب سے ہجرت کر کے ایران آ بسے تھے۔ شیخ سعدی کے گھر کا ماحول دینی اور مذہبی تھا لہٰذا انہوں نے ابتدائی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ شیخ سعدی ابھی گیارہ برس ہی کے تھے کہ ان کے والد بزرگوار وفات پا گئے۔ اب ان کی تربیت کی تمام تر ذمہ داری ان کی نیک ماں کے کندھوں پر آن پڑھی۔ شیخ سعدیؒنے اپنا پہلا حج بچپن میں ہی اپنے والدین کی رفاقت میں کیا تھا۔ جب شیخ سعدی نے ہوش سنبھالا تو وہ طوائف الملوکی کا دور تھا۔ شیراز چونکہ عالم و فاضل لوگوں کا مرکز تھا مگر تخت و تاج کے دعوے داروں نے افراتفری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ لہٰذا وہ دل برداشتہ ہو کر شیراز سے بغداد روانہ ہو گئے۔ وہاں مدرسہ نظامیہ میں کئی برس تک تعلیم حاصل کی۔ وہ صوفی درویش منش سب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ بغداد سے وہ سیرو سیاحت کے لیے مختلف ملکوں میں نکل گئے جہاں وہ ہر طرح کے لوگوں سے ملے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے چودہ بار پیدل حج کیا۔ شیخ سعدی کی شہرہ آفاق کتاب ’’گلستان‘‘ میں سے چند حکایتیں ازسرِ نو تازہ کرنے کو اپنے قارئین کی نظر کر رہی ہوں۔ حجاج بن یوسف کے دور میں ایک نیک بزرگ بغداد تشریف لائے تو اس نے ان بزرگ سے درخواست کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں۔ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ ا سکی جان لے لے۔ حجاج بن یوسف نے گھبرا کر کہا حضور! یہ آپ کیا دعا کر رہے ہیں۔ بزرگ فرمانے لگے اصل میں تمہاری رعایا اور تمہارے لیے یہ بہترین دعا ہے کہ تم خود اور تمہاری رعایا تمہارے ظلم سے بچ سکیں۔ نوشیرواں بادشاہ ایک دفعہ اپنی شکار گاہ میں تھا کہ کبابوں کے لیے نمک کی ضرورت پڑی۔ نوشیرواں نے اپنے غلام سے کہا گاؤں جا کر قیمت ادا کر کے نمک لاؤ ورنہ گاؤں اجڑ جائے گا۔غلام نے پوچھا تھوڑا سا نمک مفت لینے پر بھلا گاؤں کیسے اجڑ جائے گا۔ نوشیرواں نے جواب دیا کہ یاد رکھو دنیا پر بہت پہلے بہت کم ظلم ہوتا تھا تو حالات اچھے تھے پھر جو کوئی آیا اس نے ظلم میں اضافہ کیا اب تم دیکھ رہے ہو نوبت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اگر رعایا کے باغ سے بادشاہ ایک بھی سیب توڑے گا تو اس کا لشکر پورے باغ کو اجاڑ دے گا۔ اگر منصف ایک انڈہ مفت میں کھا لے گا تو اس کے پیروکار ہزاروں مرغیوں کو چٹ کر جائیں گے۔ ثابت ہوا کہ کسی بھی ملک کے امن و امان کے لیے انصاف کا بول بالا ایسے ہی ضروری ہے جیسے زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی۔ ایک دفعہ ایک لومڑی گھبرائی ہوئی کہیں بھاگتی جا رہی تھے۔ کسی نے اسے روک کر اس کے اضطراب کی وجہ پوچھی تو بولی بادشاہ نے تمام اونٹوں کو بیگار میں پکڑنے کا حکم صادر کیا ہے لہذا میں جان بچا کر بھاگ رہی ہوں۔ لوگوں نے کہا تو بھی عجیب ہے کہاں تم اور کہاں اونٹ۔ لومڑی نے کہا حاسدوں سے بچ کر رہنا چاہیئے اگر کسی نے بادشاہ سے کہہ دیا کہ میں اونٹ کا بچہ ہوں تو مجھے بھی بیگار میں پکڑ لیں گے۔ پھر بھلا بادشاہ اگر تحقیق کا ڈول ڈالے بھی تو جب تک فیصلہ ہو گا میں تو ختم ہو چکی ہوں گی۔ حلب کے بازار میں ایک گداگر صدا دے رہا تھا: اے دولت مندو اگر تمہیں انصاف اور ہمیں قناعت کی عادت ہوتی تو دنیا سے سوال کی رسم ہی اٹھ چکی ہوتی۔ ایک دفعہ میں ایک مکان خریدنے کے لیے دیکھ رہا تھا۔ وہاں ایک سود خور بھی آ نکلا اور بولا: حضرت یہ مکان بڑا ہی عمدہ ہے۔ آپ اسے ضرور خرید لیجیے آپ فائدے میں رہے گے دوسرے میں آپ کا پڑوسی ہوں۔ آپ کو ہر طرح سے آرام رہے گا۔ میں نے کہا معاف کیجیے اس مکان کی برائی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ تم اس کے پاس رہتے ہو۔ ان سب حکایتوں کا ہمارے ملکی حالات سے میل کھانا محض ایک اتفاق ہے۔ ٭٭٭٭٭