اب تو ڈیڑھ سال ہو گیا، یہ حکومت آخر کب تک اپنا مذاق بنواتی رہے گی۔ ایک سال اور چند ماہ کے عرصے میں حکومت نے کئی ایسے کمزور فیصلے کیے جویا تو ازخود نوٹسزکے ذریعے اڑا دیے گئے یا انہیں عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا اورنتیجہ وہی کہ حکومت کو سبکی اٹھانا پڑی ۔کوئی دس واقعات تو میں ابھی آپ کے گوش گزار کر دیتا ہوں، ذہن پہ زیادہ زور دیا جائے تو یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے ۔ جنوری میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ممبران کے ریٹائر ہو جانے کے بعد آئینی و قانونی طور پر 45 دن کے اندر نئے ممبران کا تقرر کرنا تھا ، لیکن قانونی تقاضا پورا کرنے کے لیے کون اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کی توہین گوارا کرتا ، لہذا اگست تک ان دو نشستوں پر دونوں بڑوں کی انائیں براجما ن رہیں۔اگست میں جب اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بغیر ہی صدارتی حکم کے ذریعے دو ممبرز کا تقرر کیا گیا، پہلے تو چیف الیکشن کمشنر نے ان کا حلف لینے سے انکار کر دیا بعد میں اسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جہاں صدارتی حکم کو متنازع قرار دے کر معطل کر دیا گیا۔ اسی سال جنوری میں حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں ایک نئی جے آئی ٹی تشکیل دی جسے انسپکٹر رضوان گوندل سمیت دو افراد نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایک جے آئی ٹی کے کام مکمل کر لینے کے بعد اسی معاملے پر دوسری جے آئی ٹی تشکیل دینا غیر آئینی ہے۔عدالت نے موقف تسلیم کرتے ہوئے نئی جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کر دیے، احمد اویس اس وقت تو کافی سیخ پا ہوئے مگر اس کے بعد ایسی خاموشی ہوئی کہ آج تک اس معاملے پر حکومت کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جون میں وزارت قانون نے وفاقی محتسب ٹیکس مشتاق احمد سکھیرا کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ۔مشتاق سکھیرا نے اپنی برطرفی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت نے حکومت سے جواب مانگا، حکومت عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی اور مشتاق سکھیرا کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا اور حکومت کے بڑے قانونی دماغ منہ دیکھتے رہ گئے۔ رواںماہ حکومت نے ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین سعید الٰہی کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے ان کی جگہ ابرارالحق کو یہ ذمہ داری سونپ دی۔سعید الٰہی اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے ، موقف اختیار کیا کہ ان کی مدت ختم ہونے میں ایک سال باقی ہے ، انہیں بغیر وجہ بتائے اور بغیر نوٹس دیے اچانک فارغ کر دیا گیا ہے یہ بھی کہا گیا کہ ابرارالحق کی تعیناتی نا مناسب ہے کیوں کہ وہ سہارہ فائونڈیشن کے چئیرمین بھی ہیں، یوں یہاںمفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو رہا ہے۔عدالت نے ابرار الحق کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا اور حکومتی قانونی ماہرین بغلیں جھانکنے پر مجبور ہیں۔ ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس تو آپ کو یاد ہو گا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سمیت تمام متعلقہ افراد کو عدالت بلا لیا۔ایک تو یہ کہ تبادلہ روک دیا گیا دوسرا وزیر اعلی، آئی جی پنجاب اور احسن جمیل گجر سمیت دیگر کئی اہم شخصیات کو شرمندگی کے افسوسناک مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اعظم سواتی کے معاملے میںبھی حکومت کو اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جب انہوں نے غریب ہمسائے پر اپنا زور دکھاتے ہوئے جھوٹا مقدمہ درج کرانے کے لیے آئی جی پردباؤ ڈالا بات نہ ماننے پر ان کے تبادلے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا، زمین پر غیر قانونی قبضے اور ٹیکس چوری کی تحقیقات بھی شروع ہوگئیں، مجبورا انہیں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔صرف اعظم سواتی کو ہی نہیںبلکہ ان کے دباؤ میں آ کر حکومت کو بھی شرمندگی اٹھانا اور تنقید سہنا پڑی۔ معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان بھی ان سقراطوں میں شامل ہیں جنہیں اپنی دانشوری کے باعث توہین عدالت کے مقدمے سے گزرنا پڑ رہا ہے ، انہیں یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ نواز شریف کے معاملے میں عدالت پر کیسے تبصرہ کرنا ہے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہو۔ نواز شریف کے شورٹی یا انڈیمینٹی بانڈ کے معاملے میں بھی حکومتی قانونی ماہرین کافی کمزور دکھائی دیے۔ باہر جانے کے لیے نواز شریف سے شورٹی بانڈ جمع کرانے کی فرمائش کی جسے عدالت نے غیر ضروری قرار دے کر ختم کر دیااور حکومتی موقف معزز عدالت کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔اس پر فیصلے کی اپنے حق میں تشریح اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھی۔وزیر اعظم اور ان کی قانونی ٹیم الگ الگ بولیاں بولتے نظر آئے۔اس پوری کہانی میں سے نکلا کیا؟ سوشل میڈیا کے لیے محض ایک لطیفہ، وہی سات ارب سے پچاس روپے کے سٹامپ والا۔ ابھی چند دن پہلے حکومت نے کچھ آرڈینینس پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیے ، ہنگامہ آرائی ہوئی جو کہ ہونا ہی تھی۔ پارلیمنٹ میں اس انداز میں قانون سازی پہلے بھی کئی مرتبہ ہو چکی ہے ، جو ایک نا مناسب روایت ضرور ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ حکومت نے اپنے ڈپٹی سپیکر کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد سے گھبرا کر ساری کی ساری قانون سازی ہی رول بیک کر دی ہو۔ آرمی چیف کے نوٹیفیکشن کے معاملے پر تو ساری کی ساری حکومت کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے ، کس مہارت سے پوری قوم کو ایک ہیجان میںمبتلا کر دیا، گویا وزیر اعظم، وزیر قانون اور دیگر تجربہ کار کابینہ ممبرزیہ نہیں جانتے تھے کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے تقاضے کیا ہیں اور یہ نوٹیفکیشن کن مراحل سے گزر کر قانونی تقاضے پورے کرے گا۔ حکومت کی قانونی ٹیم بڑے بڑے ناموں پر مشتمل ہے ۔فروغ نسیم کا شمار ملک کے چند بڑے قانون دانوں میں ہوتا ہے۔بابر اعوان پہلے بھی وزیر رہ چکے ہیں ، تجربے کی کوئی کمی نہیں ۔ بیرسٹر شہزاد اکبر کی قابلیت پر بھی شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، انور منصور بھی قانون کا ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہیں، فواد چودھری بھی پندرہ سال سے زیادہ پریکٹس کا تجربہ رکھتے اور ایک قابل وکیل ہیں۔ان سب سے بس یہی گزارش ہے کہ اب تو ڈیڑھ سال ہو گیاہے، یہ حکومت آخر کب تک اپنا مذاق بنواتی رہے گی۔