عجیب منطق ہے اور ناقابل فہم استدلال ‘ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ایک دشمن کم ہو جائے گا اور اکیلے بھارت سے نمٹنا آسان۔ اگر تسلیم کرنے سے دشمنی کم ہوتی تو بھارت 15اگست 1947ء سے ہمارا گہرا دوست ہوتا اور کبھی جنگوں کی نوبت آتی‘ نہ پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہوئے۔ اسرائیل کو مصر‘ اردن‘ ترکی نے تسلیم کر رکھا ہے آج تک انہیں کیا فائدہ ہوا ‘کسی نے بتایا نہیں‘ البتہ ترکی شاکی ہے اور مصر پریشان۔ مرحوم یاسر عرفات اورتحریک آزادی فلسطین نے اس اُمید پر کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطینیوں کی آزاد و خود مختار ریاست ترقی و خوشحالی کی منزل تیزی سے طے کرے گی یہ کڑوا گھونٹ بھرا‘ انتفادہ کوکمزور کیا اور اپنے ہی بھائیوں کی مخالفت مول لی مگر نتیجہ صفر۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ‘غزہ کے فلسطینیوں کا جینا حرام ہو گیا اور اسرائیلی دارالحکومت یروشلم منتقل۔ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی‘ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ مرحوم فلسطینیوں اور عربوں کے جائز مطالبات تسلیم ہونے پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے پرجوش تھے مگر امریکہ اور اسرائیل کا منافقانہ رویہ دیکھ کر اپنے فارمولے سے دستبردار ہو گئے۔ برصغیر کے مسلمان قیام پاکستان سے قبل ہی فلسطینیوں کی حق تلفی اور صہیونی ریاست کے قیام کے مخالف تھے۔ جب امریکہ و یورپ نے یہودیوں کے آزاد وطن کا شوشہ چھوڑا اور فلسطینیوں کی سرزمین پر صہیونی ریاست کی تجویز سامنے آئی تو مصور پاکستان علامہ اقبال نے کہا ؎ رندان فرانسیس کا مے خانہ سلامت پُر ہے مے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطَب کا اعلان بالفورکی روشنی میں صہیونی ریاست کے قیام پر اقوام متحدہ میں بحث شروع ہوئی تو قائد اعظم نے وزیر خارجہ سرظفر اللہ کو مکمل تیاری کے ساتھ نیو یارک روانہ کیا اور پاکستان نے اسرائیل کے قیام کی ڈٹ کر مخالفت کی‘ 25اکتوبر 1947ء کو رائٹرز کے نمائندے سے انٹرویو میں قائد اعظم نے کہا’’فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ ظفر اللہ خان نے کر دی ہے۔ مجھے اب بھی اُمید ہے کہ تقسیم کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہونا ناگزیر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبہ تقسیم نافذ کرنے والے اختیار کے مابین نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے کی حمائت تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر‘‘ 19دسمبر 1947ء کو بی بی سی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا‘ برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ‘ ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں غصیلا احتجاج کر رہے ہیں ظاہر ہے کہ برصغیر کے مسلمان امریکہ یا کسی اور ملک کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتے لیکن ہماری حس انصاف مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں‘‘ صہیونی ریاست کے طور پر اسرائیل نے صرف فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہیں توڑے بلکہ امریکہ و یورپ کی سیاسی‘ معاشی‘ اقتصادی اور عسکری تائید و حمائت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا‘ شام‘ اردن اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا‘ عراق کا ایٹمی پروگرام تباہ کیا‘ سعودی عرب کے مقدس مقامات پر قبضے کے مذموم عزائم کسی سے مخفی نہیں ‘گریٹر اسرائیل کی پیش گوئیاں ہوئیں اور پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کے لئے ایک نہیں کئی بار بھارتی منصوبہ بندی میں شریک ہوا۔ پاکستان کی اسرائیل سے سرحد ملتی ہے نہ ہمارے معاشی و اقتصادی مفادات اسرائیل سے وابستہ ہیں۔ عرب ممالک اور ان کے عوام کو ناراض کر کے‘ مظلوم فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ اسرائیل دشمنی سے باز آ جائے گا اور جو ہتھیار امریکہ سے براہ راست حاصل نہیں کر سکتے وہ اس کا گماشتہ ہمیں فراہم کرے گا۔ اسرائیل بھارت کے مقابلے میں ہمیں ترجیح کیوں دے گا؟ میلوں دور ایک منحنی ریاست کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کیا خطرہ ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے بھارت کو اپنی خدمات پیش کرتی اور ناکام رہتی ہے؟ اسرائیل آخر پاکستان سے دوستی کے لئے مرا کیوں جا رہا ہے؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ پاکستان عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے ۔عالم عرب بالخصوص سعودی عرب کی سلامتی کا دارومدار دفاعی طور پر مضبوط اور اقتصادی و سیاسی طور پر مستحکم پاکستان پر ہے اسرائیل جانتا ہے کہ پاکستان کو رام کئے بغیر وہ عربوں سے اپنا ناجائز وجود منوا سکتا ہے نہ شرق اوسط میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے قابل۔ جب تک پاکستان کا اسلامی تشخص برقرار اور ایٹمی پروگرام محفوظ ترقی و پذیر ہے‘ بھارت جنوبی ایشیا میں بالادستی قائم کر سکتا ہے نہ اسرائیل توسیع پسندانہ عزائم میں کامیاب۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے میں سنجیدہ تھی اور ترکی مددگار مگر بالآخر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ صہیونی ریاست پاکستان کے بعض سوالات کا تسلی بخش جواب دے پائی نہ یہ یقین دہانی کرا سکی کہ وہ یروشلم کو دارالحکومت نہیں بنائے گی۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اس حوالے سے اپنی کتاب میں تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ پھر جموں و کشمیر کے بارے میں پاکستان اپنے اُصولی موقف پر اصرار نہیں کر سکتا۔ فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ جائزتسلیم کر لیا گیا تو جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کی مخالفت کا کیا جواز؟ صہیونی ویسے بھی تاریخی طور پر شریرگروہ ہے۔ سپین میں مسلمان بادشاہ نے ایک یہودی کو وزیر اعظم مقرر کیا‘ جس نے منصب سنبھالتے ہی اہم اداروں میں صہیونی اہلکاروں کے تقرر پر پابندی لگا دی ۔بادشاہ نے پوچھا تو جواب دیا کہ میں ان کی سرشت سے کسی بھی مسلمان کے مقابلے میں زیادہ واقف ہوں‘ جرمنی اور آسٹریا میں یہودیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوا تو ترک خلافت نے انہیں پناہ دی اور حسن سلوک سے نوازا مگر سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشوں میں یہ پیش پیش رہے اور شکست و ریخت میں بھر پور کردار ادا کیا ۔جو لوگ پاکستان میں سادہ لوحی یا شرارت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری اسرائیل سے کیا دشمنی ہے وہ یہی سوال اسرائیل سے کریں کہ آخر وہ پاکستان کا دشمن کیوں ہے؟ اور بھارت سے قدر مشترک کیا ہے؟۔ معاہدہ توڑنے میں یہودیوں کا ثانی صرف بھارتی برہمن ہے فتح خیبر کے بعد رسول اکرم ﷺ نے معاہدے کے تحت یہودیوں کو جان و مال کا تحفظ دیا مگر کچھ عرصہ بعد یہ خلاف ورزی پر اُتر آئے۔نتیجتاً ریاست مدینہ نے وعدہ شکنوں کو نکال باہر کیا۔ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے داعی ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ اسرائیل کے عزائم اور صہیونیوں کی سرشت سے واقف ہوں گے‘ کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزار چکے ہیں نئے پاکستان کو وہ لاالہ الااللہ کی بنیاد پر ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جو کسی کے سامنے دبے نہ جھکے‘ بھارت اور اسرائیل کا پاکستان سے عناد نظریاتی ہے معاشی یا اقتصادی نہیں۔ ہمارے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے دونوں الرجک ہیں اور امریکہ ان کا ہمنوا‘سنا ہے‘ عمران خان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر دل نہیں مانتا اگر یہ بات ہے تووہ صرف دل کی سنیںکسی ایرے غیرے کی ہرگز نہیں‘ فرمان رسولﷺ یہی ہے اِستفتِ قلبک(دل سے پوچھو)۔ یہی اقبالؒ و قائدؒ کا سبق ہے اور کشمیری و فلسطینی عوام سے وفا کا تقاضا۔ مصر‘ اردن کو اسرائیل کوتسلیم کرنے سے کچھ نہیں ملا‘ ہم بھی یہ غلطی نہ کریں جس کا انجام بقول شاعر ع آغاز بھی رسوائی‘ انجام بھی رسوائی