شرم اتر جائے تو بھیک مانگنے میںعار کیا۔اورمل جائے تو خوشی چھپائے نہیں چھپتی۔اچھا بھکاری بھیک کے حصول کو بھی اپنی کامیابی تصور کرتا ہے،اچھی کمائی ہو جانے پر دوسروں سے داد بھی مانگتا ہے۔کمال ہو گیا بھئی دیکھو ہم کامیابی سے بھیک مانگ لائے ہیں ۔یہ ہمارا ہی منہ ہے کہ بھیک مل جاتی ہے تمہیں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ کامیابی کے پیمانے بدل گئے ہیں ۔ آجکل نت نئے طریقے نکل آئے ہیں ۔ پہلے بھیک مانگنے والے ڈھونگی سڑک پہ نکلتے تھے تو پھٹے پرانے کپڑے نکال کر پہن لیتے تھے کہ خستہ حال لگیں،سائیکل موٹر سائیکل وغیرہ دور کھڑی کر دیتے تھے کہ ثروت مندوں کو اپنے اوپر ترس دلایا جا سکے۔ اب چلن بدل گیا ہے۔ اب تو پورے کا پورا ٹبر یوںبھیک مانگنے جاتا ہے کہ جیسے رشتہ مانگنے جا رہے ہوں ۔اچھی طرح تسلی کر لی جاتی ہے کہ کوئی رہ تو نہیں گیا۔ بھیک مانگنے والے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، برانڈڈ کپڑے پہنتے ہیں، شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے سے ہچکچاتے نہیں اور بھیک بھی پورے دھڑلے سے مانگتے ہیں کہ جیسے اپنا حق مانگ رہے ہوں۔ بلاول بھٹو زرداری نے دنیا کو بتایا کہ سیلاب کے پانچ مہینے بعد بھی سندھ میں واقع ہمارے گھروں میں پانی کھڑا ہے،خدارا کچھ کیجئے۔ وہ تو بھلا ہو دنیا کے معصوم مندوبین کا کہ انہوں نے یہ نہیں پوچھا سندھ میں حکومت کس کی ہے اور کب سے ہے؟شکر ہے انہوں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ بھٹو زندہ ہے مگر کام کیوں نہیں کر رہا اوراگر بھٹو نے کوئی کام نہیں کرنا تو زندہ کیوں ہے؟ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں دنیا نے 10.57 ارب ڈالر دے دیے ہیں ۔ ہمارے ہاں کچھ سادہ لوگوں نے ان اعلانات کا تاثر یوں لیا کہ جیسے زرمبادلہ کے ذخائر کا مسئلہ حل ہو گیاہے۔ انہیں لگا کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر جو 4.5 ارب ڈالر تک گر گئے تھے اب وہ پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے ۔ بتانے والے بھی کچھ اسی ڈھنگ سے بتا رہے ہیں ۔رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ مبارک ہو پاکستان کو 10ارب ڈالر مل گئے ہیں ۔ مریم اورنگزیب بھی کچھ ایسے ہی ٹویٹس کرتی رہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ابھی رقم کا صرف وعدہ ہوا ہے، یہ رقم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پراجیکٹس لگانے کے لیے اگلے تین سال تک ٹکڑوں میں ملے گی۔ یہ سب ممالک اور ادارے اپنے وعدے پورے کرنے کے پابند بھی نہیں ہیں ۔ دس ارب ڈالر کے ابھی صرف ارادے اور وعدے ہیں۔سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا بیان اخبار میں چھپا ہے ، انہوں نے وضاحت کی ہے کہ جنیوا کانفرنس میں ملنے والی رقم امداد نہیں قرض ہے۔ ادھر شاہد حسن صدیقی نے ایک اور نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان ہر پراجیکٹ میں 50 فیصد کا حصے دار ہے۔ یعنی ہر پراجیکٹ میں پاکستان پچاس فیصد کا شیئر ڈالے گا تو پراجیکٹ شروع ہوگا۔ شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اپنے حصے کے دس ارب ڈالر کا بندوبست نہ کر سکا تو دنیا کی طرف سے وعدہ کیے گئے دس ارب ڈالر بھی نہیں ملیں گے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی یہ بات سن کے میں تو ڈر گیا کہ اگر کچھ نہ ملا تو پتہ نہیں ہمارا جنیوا کے ٹور کا خرچہ بھی نکلے گا یا نہیں ۔اب ہمارے پاس بھلا اپنے دس ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ یعنی ہمارے پاس اپنے نہیں ہوں گے تو اُدھر والے بھی کھٹائی میں پڑ جائیں گے؟ اب میرے ذہن میں سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں تھا ہم جنیوا کانفرنس میں مدد کرنے والوں سے کہتے کہ آپ نے پیسے دینے ہیں تو دیں ہم پہ اتنی شرطیں نہ لگائیں۔ اور سیدھے سیدھے پیسے ہمارے ہاتھ پہ رکھیں ، ہماری مرضی سکول بنائیں ، اسپتال بنائیں ،گھر بنائیں یا کچھ بھی نہ بنائیں۔ ہماری مرضی فورا بنائیں یا اگلے الیکشن سے پہلے بنائیں ۔اب کوئی شرطیں لگا کے بھی پیسے دیتا ہے بھلا۔یہ تو ایسے ہی ہوا نہ کہ میں سڑک پہ کھڑے ایک بھکاری پہ ترس کھا کے اسے ہزار کا نوٹ تھما دوں اور کہوں شرط یہ ہے کہ اسے خرچ نہیں کرو گے بلکہ اسے فلاں کاروبار میں لگائو گے یایہ کہ اس سے آٹا نہیں خریدو گے صرف دوائی خرید و گے۔ بھلا شرطیں لگا کے بھیک کون دیتا ہے۔ہمیں سیدھا سیدھا کہہ دینا چاہیے تھا، چاہے تھوڑے پیسے دو لیکن غیر مشروط طور پر دو۔ ادھر پہلے ہی آئی ایم ایف کی شر طیں سن سن کے ہمارے کان پک گئے ہیں ۔ ڈالر کو مارکیٹ کے مطابق اپنا ریٹ مقرر کرنے دو، بجلی اور گیس مہنگی کرو، پیٹرولیم لیوی کو دوگنا کر دو۔ وغیرہ وغیرہ۔ہم بھلا ان فضول شرطوں پہ کب تک زندگی گزاریں گے۔ ہم آزاد ملک کے شہری ہیں ، یہ لوگ ہماری آزادی کو بہانے بہانے سے سلب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہونا چاہیے ۔ ہم غلامی قبول بھی کیوں کریں ، ہمیں کونسا کوئی ایمرجینسی ہے۔ ابھی کل ہی بلوم برگ نے لکھا ہے کہ پاکستان چھ مہینے تک ڈیفالٹ نہیں کرے گا،جب ہمارے پاس چھ مہینے کی زندگی ابھی بچی ہوئی ہے تو ہم کیوں کسی کے پائوں پکڑیں۔اور ہاں ہم نے اخبارات میں اپنی معاشی کارکردگی کے اشتہار بھی تو پڑھے ہیں ۔ اس کے بعد تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو پریشان ہو گا۔ اسحق ڈار نے بھی کہہ دیا، ڈیفالٹ نہیں کر رہے، جب بلوم برگ سے کہلوا دیا گیا کہ ڈیفالٹ نہیں کر رہے تو پھر ہمارے خزانے میں چار ارب ڈالر بچے ہوں یا دو ارب ڈالر، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہمیں ڈیفالٹ سے بچانا عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ہی پہلے ہمیں بچایا وہی اب بھی بچائیں گے۔ جو پہلے کھانے کو دیتے رہے اب بھی دیں گے ۔ ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، دس ارب ڈالر کا وعدہ ہو گیا ہے ناں ؟ بھیک مل گئی ، آئو جشن منائیں ۔