وفاقی کابینہ نے سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021ء کی منظوری دے دی ہے۔ بل میں سٹیٹ بینک کے فرائض ذمہ داریوں اور اس کی کاکردگی میں بہتری و شفافیت لانے کے لیے متعدد اختیارات شامل ہیں۔ منظور کئے گئے بل کے مطابق سٹیٹ بینک قیمتوں اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کام کرے گا۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بتایا ہے کہ اس بل کا بنیادی مقصد سٹیٹ بینک کے مینڈیٹ کا تعین کرنا ہے۔ قبل ازیں سٹیٹ بینک کی جوابدہی کا نظام مشکل اور پیچیدہ رہا ہے‘ بل میں اسے آسان کیا جارہا ہے۔سٹیٹ بینک اب پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوگا۔ ترمیمی بل کی رو سے :سٹیٹ بنک میں نیا بااختیار بورڈ آف ڈائیرکٹر ہوگا۔ گورنر اور ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک کی تقرری کی معیاد 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے۔80 شعبہ جات کو 140 ارب سے زائدٹیکس مراعات ختم کر دی جائیں گی۔نیب اور ایف آئی اے، سٹیٹ بنک کے موجودہ اور سابق گورنروں، ڈپٹی گورنروں اور بورڈ ممبران سے تفتیش نہیں کر سکیں گے۔انتظامی اور پالیسی اعتبار سے سٹیٹ بنک پر سیاسی اور سرکاری اثرو رسوخ مکمل ختم ہو جائے گا۔سٹیٹ بنک مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کر سکے گا۔پاکستان کی آزادی سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا متحدہ ہندوستان کا مرکزی بینک تھا۔ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد یہی بینک ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کا مرکزی بینک تھا۔ یکم جولائی 1948 کو قائداعظم محمد علی جناح نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرکے ریزرو بینک آف انڈیا کی اجارہ داری ختم کردی۔ 30 دسمبر 1948 ء کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70 فیصد ہندوستان کو دیا جبکہ پاکستان کو 30 فیصد ملا۔ اْس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ایک پرائیوٹ یا نجی بینک تھا۔ یکم جنوری 1974ء کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا، ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو فنانشل سیکٹر ری فارم کے نام پر خود مختاری دے دی۔21جنوری 1997 ء میں ملک معراج خالد کی نگران حکومت نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار بنا دیا۔ اب یہ حکومت ِ پاکستان کے ماتحت نہیں رہا تھا بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بن گیا۔سنہ 2005 ء میں اس وقت کی حکومت نے ملک میں کام کرنے والے منی ایکسچینجز کو قانونی درجہ دے کر سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کردیا گیا جس سے سٹیٹ بینک کو مزید استحکام ملا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہر سال وزیر خزانہ کے ہمراہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر 05 مئی 2019 ء سے آئندہ تین سال کے لیے اس عہدے پر فائز ہیں۔ اپنے چارٹرکے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان مارکیٹ میں روپے کی ترسیل، مضبوط معاشی نظام کو یقینی بنانے، قواعد و ضوابط کی پاسداری کرانے اور دیگر بینکوں کے مالیاتی امور کی نگرانی کرنے ، بین الاقوامی مارکیٹ سے ایکسچینج ریٹ طے کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو درپیش بڑے مسائل کا تعلق مالیات اور معیشت سے ہے۔ مالیاتی معاملات میں عدم شفافیت نے گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی تباہ کی۔ سٹیٹ بینک کو عام طور پر بینکنگ نظام کے ریگولیٹر کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ شرح سود کا تعین کرنا‘ نئے نوٹ چھاپنے یا نہ چھاپنے کا فیصلہ ‘ بینکوں کو کم وسائل والے طبقات کے لیے آسان شرطوں پر قرضے جاری کرنے کا پابند بنانا‘ بینکوں کے خلاف شکایات کا ازالہ اور وقفے وقفے سے مہنگائی‘ ترسیلات زر اور بینکنگ سیکٹر کے متعلق رپورٹس جاری کرنا سٹیٹ بینک کی ذمہ داری رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ کیا تو پاکستان کو سٹیٹ بینک اور اس کے سربراہ کو حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد رکھنے کی شرط ماننا پڑی۔ پاکستان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے حکومتی مداخلت نہیں ہوگی بلکہ ڈالر کے نرخ مارکیٹ طے کرے گی۔ سٹیٹ بینک ایف اے ٹی ایف کی متعدد سفارشات پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ بعض حلقوں نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے مطالبہ پر لایا جارہا ہے اس لیے پاکستان سے زیادہ ان ترامیم کا فائدہ عالمی مالیاتی اداروں کو ہونے کا خدشہ ہے۔ زیر بحث بل کے متعلق دو اہم کام توجہ طلب ہے۔ سٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنانا جمہوری بالادستی کی طرف ایک بڑی پیش قدمی ہے۔ یہ مالیاتی کنٹرول اور نگرانی کا اختیار ہی ہوتا ہے جو آج کی دنیا میں کسی عہدیدار یا ادارے کو مضبوط بناتا ہے۔ دوسرا مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کو اختیار دینا ہے۔ سٹیٹ بینک مہنگائی کس طرح کنٹرول کرے گا‘ کیا یہ کام پالیسی کی سطح پر ہو گا یا انتظامی اختیارات بھی دیئے جائیں گے۔ یہ وضاحت تاحال سامنے نہیں آئی تاہم ایک امید بندھی ہے کہ سیاسی گورننس اہم اور تیکنیکی شعبوں تک رسائی پا رہی ہے ۔