بجٹ اجلاس کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کا پیغام کیا ہے؟ جرم اور سیاست کے ملاپ کو زمینی حقیقت اور جمہوری تقاضہ سمجھنے والوں جو اب ہو گا نیب کی ناعاقبت اندیشی اور انتقامی ذہنیت‘ میاں شہباز شریف اور مریم نواز شریف ایسے آصف علی زرداری کے تازہ خیر خواہوں بلکہ مداحوں کے نقطہ نظر سے عمران خان کی بوکھلاہٹ اور منہ کھائے آنکھ شرمائے پر ایمان لانے والے دانشوروں‘ تجزیہ نگاروں اور قلمکاروں کے نزدیک غیر جمہوری‘ غیر سیاسی اقدام مگر جنہیں شخصیات اور مفاد پرست گروہوں سے زیادہ ملک اور معاشرہ عزیز ے‘ ان سے پوچھئے تو قانون کی بالادستی اور حکمرانی کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔ریاست نے انگڑائی لی ہے اور وہ سیاست اور جرم کے ملاپ سے وجود میں آنے والے عوام دشمن سیاسی‘ سماجی اور مالیاتی ڈھانچے کو تہہ و بالا کرنے کے لئے کمر بستہ ہے۔ چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور سابق بریگیڈیئر کو ملنے والی عبرت ناک سزائوں کی توثیق کی یہ ملک میں بلا امتیاز احتساب کا مطالبہ کرنے والوں کے لئے پیغام تھا کہ فوج تو تیار ہی نہیں‘ اعلیٰ ترین سطح پر بلا تفریق احتساب کے ابدی اصول پر عمل پیرا بھی ہے ‘کیا سیاستدان‘ جج‘ وکیل‘ صحافی اور تاجر و صنعت کار بھی آمادہ ہیں؟ وکیلوں اور سیاستدانوں کی طرف سے فوری جواب آ گیا’’نہیں جناب‘ کسی سیاستدان کو قتل‘ منی لانڈرنگ‘ جعلی اکائونٹس‘ کرپشن حتیٰ کہ فوجی چوکی پر حملہ کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا تو جمہورویت خطرے میں پڑ جائے گی اور کسی جج کے اہل خانہ کی بیرون ملک کروڑوں کی جائیدادوں کے حوالے سے باز پرس ہوئی تو یہ آزاد عدلیہ پر حملہ ہو گا‘‘ محسن داوڑ‘ آصف علی زرداری اور علی وزیر کی گرفتاری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ‘ جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس پر ہمارے پارلیمانی ناخدائوں اور وکیلوں کا ردعمل دیکھ کر کوئی بھی ذی شعوریہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ بلا تفریق احتساب کی روایت کبھی پروان چڑھ سکتی ہے اور ہندوئوں کی طرح اونچ نیچ کا شکار یہ معاشرہ کبھی سدھر سکتا ہے؟۔ جنرل راحیل شریف اورجنرل قمرجاوید باجوہ کے دورمیں لیفٹیننٹ جنرل سطح کے کئی افسروں کو بدعنوانی‘ اختیارات سے تجاوز‘ بے ضابطگی اور قومی مفادات سے بے وفائی پر کڑی سزائیں ملیں مگر اعتراض ہمیشہ یہی سامنے آیا کہ صرف سویلین پکڑے جاتے ہیں خاکی مقدس گائے ہیں‘ حالانکہ اس ملک میں سیاستدانوں کا کرپٹ ٹولہ وہ مقدس گائے ہے جو قتل جیسے مکروہ اور سنگین جرم پر پکڑا جائے یا قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزام میں سزا پائے کبھی شرماتا ہے نہ اس کے اہالی موالی اور درباری مان کر دیتے ہیں۔ ایک خوددارریٹائرڈ بریگیڈیئر اسد منیر تو کرپشن کا الزام لگنے پر خودکشی کر لیتا ہے مگر منتخب سیاستدان عدالتوں سے سزا یافتہ ہو کر بھی ضمیر کی خلش محسوس کرتا ہے نہ عوام سے معافی مانگتا ہے کہ وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوا‘ عوام کے مینڈٹ کو ذاتی اورخاندانی بنک بیلنس‘ بیرون ملک اثاثوں میں اضافے اور چاپلوسی درباریوں میں بندر بانٹ کے لئے استعمال کرتا رہا۔ڈھٹائی کی حد ہے۔ زرداری کی گرفتاری کے بعد یہ تاثر ختم ہوا کہ نیب اور اسٹیبلشمنٹ پارلیمنٹ میں شور شرابے‘ احتجاجی تحریک کی دھمکیوں اورکرپٹ ٹولے کے اتحاد سے گھبرا کر بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ احتساب کا عمل سست روی کا شکار ہو گیا ہے اور عدلیہ کو چھیڑ کرحکومت نے شریف خاندان اور زرداری خاندان کے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں شریف خاندان کے مقابلے میں زرداری ٹولے یہ کوسہولت حاصل ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی کے جیالے مراد علی شاہ کی پولیس و انتظامیہ کے بل بوتے پر شہر شہر‘ گائوں گائوں ہنگامہ کر سکتے ہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ ہنگامہ آرائی آصف علی زرداری کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے البتہ معاملے کو بگاڑ کر مراد علی شاہ اپنی حکومت کا کریا کرم کر سکتے ہیں کہ احتساب کا تیز رفتار پہیہ رک نہیں سکتا‘ رکاوٹ خواہ صوبائی حکومت کی شکل میں ہو یا لسانی و نسلی تعصب کی صورت میں ہر رکاوٹ کو روندتاچلا جائے گا۔ زرداری کی گرفتاری آغاز ہے اور بہت سی گرفتاریوں کا نقطہ آغاز‘ بیوروکریٹس‘ صنعت کاراور بیرونی کھونٹے پر ناچنے والے قوم پرست سب احتساب کی زد میں آئیں گے اور اب یہ برسوں نہیں مہینوں کی بات ہے۔آصف علی زرداری مگر میاں نواز شریف رہیں نہ بلاول بھٹو ‘ مریم نواز کہ چمڑی جائے پردمڑی نہ جائے کے دیرینہ مقولے پر عمل پیرا ہوں‘ گماں مجھے یہی ہے کہ جس طرح 2007ء میں آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کو پاکستان بھیج کر خود دبئی میں مقیم اور سیاست سے کنارہ کش رہنے پر راضی ہو گئے تھے اب بھی بلاول بھٹو کی سیاست اور اپنے خاندانی کاروبار کو بچانے کے لئے کچھ لو‘ کچھ دو کا فارمولا اپنائیں گے مگر اتنی جلد اور آسانی سے نہیں۔ پہلے وہ سندھ میں پیدا کردہ عصبیت ‘سادہ لوح سندھی عوام کی پسماندگی اور حکومتی وسائل کو آزمائیں گے‘ شاید 2007ء کی طرح سندھ میں توڑ پھوڑ کے واقعات بھی ہوں مگر ریاست اگر نیب اور عدلیہ کے پیچھے ڈٹ کر کھڑی رہی اور عمران خان و اسٹیبلشمنٹ کے پائوں نہ ڈگمگائے تو معاملہ مالیاتی افہام و تفہیم پرمنتج ہو گا۔ آصف علی زرداری کو گرفتار کر کے نیب نے بڑا چیلنج قبول کیا ہے‘ بہت سے مقدمات میں نیب کو کمزور تفتیش کی بنا پر ندامت اٹھانی پڑی اور بڑے بڑے مجرموں کے قلمی و زبانی کارندوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ نیب بغیر ثبوتوں کے گرفتار کر لیتی ہے ‘عدالتوں میں دفاع نہیں کر پاتی۔ میاں شہباز شریف کو ضمانت ملنے پر یہ بیانیہ شدت سے آگے بڑھایا گیا اب کم از کم نیب نعیم بخاری جیسے بلند پایہ وکیلوں کا بندوبست کرے تاکہ فاروق ایچ نائیک‘ لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن جیسے نامور قانون دانوں کے مدمقابل کھڑے ہو کر جعلی اکائونٹس اور منی لانڈری کیسز کو پایہ ثبوت تک پہنچا سکیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی گرفتاری پر عمران خان اور حکومت کو ہدف تنقید بنا کر ایک لحاظ سے اپنی کم مائیگی کا ثبوت دیا ہے سب جانتے ہیں کہ نیب پر عمران خان کا زور چلتا ہے نہ یہ مقدمات موجودہ حکومت نے بنائے‘ اپوزیشن کی تنقید سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ احتساب کے عمل کے سامنے وہ بے بس ہے اور قانونی طور پر اپنا دفاع کرنے کے بجائے صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ وطیرہ ماضی میں‘ ثمر بار رہا مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں شائد ممکن نہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی پہلے کی طرح محدود نہیں کہ چند اداروں اور افراد کے ضمیر‘ قلم اورمائیک خرید کر اپنا الو سیدھا کیا جا سکے جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی ماضی سے سبق سیکھا ہے غلام اسحق خان ‘ سردار فاروق لغاری پرویز مشرف نے دھوکے کھائے مگر موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو سبق دے گئے کہ کرپٹ ٹولہ خواہ سندھ کا ہو یا پنجاب کا اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آنا ‘خودکشی کے مترادف ہے ‘شائد اسی باعث میاں شہباز شریف کا کوئی حربہ کارگر ثابت ہو رہا ہے نہ مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری کا بس چل رہاہے۔ یہ مکافات عمل ہے یا دنوں کا الٹ پھیر کہ احتساب کی چکی چل رہی ہے اور گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا ہے۔ چند سال قبل ذوالفقار مرزا نے انور مجید اور آصف علی زرداری یعنی اومنی گروپ اور زرداری گروپ کے ملاپ کا پردہ چاک کیا تھا‘ کسی نے یقین نہ کیا ‘مگر اب یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے لطیف کھوسہ اور فاروق ایچ نائیک جیسے نامور وکیل نہیں جھٹلا پائے۔ پیغام واضح ہے ‘ جو سمجھ گئے‘ فائدے میں رہیں گے‘ نہ سمجھنے والوں کو زمانہ خود سمجھا دے گا۔