محشرستان فلسطین کی خبریں کچھ یوں آئی ہیں۔ بمباری کا آٹھواں روز‘ مرنے والوں کی تعداد سواسو ہو گئی‘ ساٹھ بچے بھی شہداء میں شامل۔ یعنی جو بھی مرا اس نے گنتی کے کل سکور میں اضافے کے لیے ایک سکور بنایا۔ خبر یہ بھی تھی کہ بمباری سے تمام گھر والے شہید‘ دس کے دس مارے گئے۔ مطلب ایک چھکا اور ایک چوکا بھی آ گیا‘ سکور ایک دم بڑھ گیا۔ جو مر گیا‘ وہ یہ احتجاج بھی نہیں کرسکتا کہ میری ذات کی ہستی‘ میرے وجود کی نفی کر کے مجھے ایک نمبر کیوں بنا دیا گیا ہے۔ مرنے والے کسی ’’عدد‘‘ کی ماں سے پوچھو‘ وہ ایک عدد اس کی کائنات تھا۔ کسی اور عدد کے بچے سے پوچھو جس کا زخمی بچپن ایک دم سے بڑھاپے میں تبدیل ہو کر بے رحم دھوپ میں آ کھڑا ہوا۔ دل ہلا دینے والی کئی وڈیوز اور تصویریں فلسطین میں شہید ہونے والے بچوں کی سب نے دیکھی ہوں گی۔ کسی کا آدھا چہرہ نہیں ہے تو کسی کا آدھا جسم غائب ہے۔ ایک دل ہلانے والی وڈیو میں نے ذرا الگ قسم کی دیکھی۔ اس میں کوئی مرا نہ زخمی ہوا پھر بھی دل ہلا کر رکھ دیا۔ فلسطینی باپ اپنے گھر میں صوفے پر بیٹھا ہے۔ ایک بچی دائیں طرف موبائل فون دیکھ رہی ہے‘ ایک بچہ بائیں طرف کوئی کتاب دیکھ رہا ہے۔ اچانک دور سے گولہ گرنے کی آواز آتی ہے۔ پانچ چھ سال کی بچی سہم کر اچھلتی ہے۔ موبائل فون اس کے ہاتھ سے گر پڑتا ہے۔ ایک لفظ اس کے منہ سے نکلتا ہے۔ ’’بابا‘‘ پھر وہ دوڑ کر دوسرے صوفے پر چلی جاتی ہے‘ اس کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ جاتی ہے اور تکیے سے خود کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ بابا کا لفظ ایک چیخ تھا اور فریاد کہ مجھے بچالو یا بے بسی کا اعتراف کہ’’ بابا اب تم بھی مجھے نہیں‘‘ کا تھا بچہ اتنا زیادہ سہم جاتا ہے کہ اپنی جگہ پر ساکت ہو کر رہ جاتا ہے۔ باپ ایک ثانیے بعد کہتا ہے‘ ڈرو نہیں بم دور کہیں گرا ہے۔ آواز دور سے آئی ہے۔ ہم محفوظ ہیں۔ اس کے بعد وہ دعائیہ کلمات پڑھنے لگتا ہے اور وڈیو کلپ ختم ہو جاتا ہے۔ بچی نے ’’بابا‘‘ کہا تو دل دہل گیا۔ بچی نے تکیے میں خود کو چھپانے کی کوشش کی تو دل لرز گیا۔ بابا نے کہا بم دور گڑا ہے‘ بچوں کا خوف پھر بھی کم نہیں ہوا‘ نہ ہی دیکھنے والوں کے دلوں کو اس سے تسلی ہوئی۔ یہ گرنے والا بم دور سے گرا‘ آواز بھی دور سے آئی نہ جانے اگلا بم دور نہ گرے‘ آواز بھی کہیں قریب سے آئے۔ یہ وڈیو ’’بابا‘‘ نے شیئر کردی‘ اگلی وڈیو شیر کر سکے یا نہ کر سکے کون جانے۔ جن بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے‘ آواز سن کر انہوں نے بھی بابا کہا ہوگا لیکن تکیے کے شیلٹر میں پناہ لینے کا موقع ہی نہ ملا ہو گا۔ کتنے بابا ایسے ہوں گے جنہیں یہ تسلی دینے کا موقع ملا ہو گا کہ ڈرو مت‘ بم دور گرا ہے۔ ٭٭٭٭٭ قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ فلسطینیوں کو اس لیے سزا دی جا رہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ سچ ہے۔ لیکن جو سچ کے ساتھ ایک ’’لیکن‘‘ بھی جڑا ہوتا ہے۔ فلسطینی مسلمان نہ ہوتے‘ عیسائی ہوتے تب بھی پسندیدہ نہ ہوتے کیونکہ فلسطینیوں اور یہودیوں کی جنگ چار پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ یہودا کی سلطنت اسرائیل کی سلطنت‘ فلسطی سلطنت۔ زیادہ واضح سچ یہ ہے کہ یہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے اور اس جنگ میں مظلوم فلسطینی ہیں۔ یہودی ہزار سال پہلے فلسطین چھوڑ کر یورپ اور دوسرے علاقوں میں چلے گئے تھے۔ فلسطی‘ یہودا اور اسرائیل کی تینوں سلطنتوں کے رقبے میں فلسطینی آباد ہو گئے جبکہ یہودیوں کی خاصی تعداد بھی یہیں موجود رہی۔ یہودی اہل کتاب تھے‘ فلسطی کافر‘ ظہور اسلام کے بعد یہودی یہودی ہی ہے اور فلسطی مسلمان ہو کر عرب اور اسلامی دنیا کا حصہ بن گئے۔ 1948ء میں برطانیہ نے یہودیوں کی ریاست بنائی اور فلسطین کا نصف سے کچھ زیادہ اسرائیل بنا دیا۔ بعد میں یہودیوں نے سارا فلسطین ہتھیا لیا اور یوں ظالم مظلوم کی جنگ چھڑ گئی۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ چند دہائیوں کا سب سے بڑا قتل عام افریقہ کے ننھے منے ملک رواڈا میں ہوا۔ یہاں ہوتو HUTU نسل کی اکثریت ہے اور توتسی TUTSI اقلیت میں ہیں۔ دونوں کا مذہب ایک ہی ہے یعنی عیسائیت۔ لیکن توتسی معاشی طور پر خوشحال تھے۔ ہوتووں نے بغاوت کی اور ان کا تختہ الٹ دیا۔ پھر مختلف مراحل سے ہوتی ہوئی تاریخ 1994ء میں پہنچی اور اپریل جون جولائی کے سو دنوں میں (کچھ دن آگے پیچھے کے مہینوں کے) ہوتووں نے دس لاکھ سے زیادہ توتسی۔ دس لاکھ۔ یعنی ہزار‘ دس ہزار کے حساب سے،توتسیوں کو ان کے گھروں سمیت نذر آتش کردیا گیا۔ جو گھروں سے بھاگ کر جنگلوں میں چھپ گئے‘ انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا گیا اور دنیا دیکھتی رہی۔ ۔ لاکھوں لاشیں ہفتوں تک کھیتوں میں پڑی رہیں۔ دریائوں میں خون کا سیلاب آ گیا۔ سوا کروڑ کی آزادی والے ملک میں توتسیوں کی کل تعداد 14 فیصد یعنی لگ بھگ سترہ اٹھارہ لاکھ کی تھی۔ جب خدشہ ہوا کہ توتسی نسل ختم ہو کر رہ جائے گی۔ ایک Specie معدوم ہو جائے گی اور آثار قدیمہ کے حوالے سے بڑا نقصان ہوگا تو امریکہ اور بااثر عالمی برادری حرکت میں آئی اور باقی ماندہ توتسیوں کو بچا لیا گیا۔ شام میں دس سال سے قتل عام جاری ہے‘ دس لاکھ مارے جا چکے‘ ایک کروڑ اب بھی باقی ہیں۔ یہی کچھ بوسنیا میں ہوا۔ سربوں نے ایک لاکھ بوسنی مسلمان مار ڈالے۔ نسل ختم ہونے کا خطرہ ہوا تو امریکہ حرکت میں آیا۔ مسلمان تسلی رکھیں۔ امریکہ فلسطینیوں کی ’’اینڈیجرڈ سپیشی‘‘ کو معدوم ہونے نہیں دے گا۔ جب یہ اندیشہ ہوا کہ فلسطینی نسل ختم ہونے والی ہے‘ وہ فوراً حرکت میں آئے گا۔ آثار قدیمہ کی حفاظت امریکہ نہیں کرے گا تو کون کرے گا۔