سول ایوارڈ کچھ تو عطا ہوتے ہیں اور کچھ عطا کروائے جاتے ہیں یعنی کچھ ملتے ہیں اور کچھ ’’حاصل ‘‘ کئے جاتے ہیں۔ ایوارڈ ’’حاصل‘‘ کرنے کے لئے وہ تمام تر حربے استعمال کئے جاتے ہیں جو کسی بھی غیر قانونی عمل کو قانونی کروانے کے لئے بروئے کار لائے جاتے ہیں‘ یعنی سفارش‘ دوستی‘ تعلقات‘ سیاست اور تعلقات عامہ کے شعبہ سے ۔ ویسے تو ایوارڈ حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی صوبائی یا مرکزی وزیر کی خوشنودی حاصل کیجیے اور کچھ حاجت نہیں ہے کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ آپ کا نام تجویز کرے۔ کسی فائل کی ضرورت نہیں۔ وزیر صاحب کا متعلقہ حضرات سے یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اس بچے کا نام ایوارڈز کی فہرست میں شامل کر لیجیے۔ نہائت لائق بچہ ہے۔ یہ نہیں پتہ کہ ادیب شاعر ہے یا اداکار وغیرہ‘ کچھ نہ کچھ ہے۔ چنانچہ ایوارڈ آپ کی جھولی میں آ گرے گا۔ ایک زمانے میں کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے سول ایوارڈز کی سفارشات کے لئے لاہور سے مجھے اور انتظار حسین کو جج نامزد کیا گیا۔ ہر برس نامزدگان خواتین و حضرات کی حیات اور کارناموں کے پلندے آ جاتے اور ہم باقاعدہ پریشان ہو جاتے کہ یا اللہ یہ کیسے کیسے لوگوں کو نامزد کیا جا رہا ہے جن کی ادبی یا ثقافتی حیثیت کچھ بنی نہیں اور ہم ان کے ناموں سے بھی کم ہی واقف ہیں لیکن وہ مختلف سرکاری علمی اور ادبی اداروں کے سربراہان سے خوب واقف ہیں کہ ان کی چاپلوسی کر کے کچھ آئو بھگت کر کے اپنی نامزدگی کیبنٹ ڈویژن کو روانہ کر دی اور پھر سردھڑ کی بازی لگا دی۔ چونکہ مجھ میں میٹنگوں کے لئے اسلام آباد کے پھیرے لگانے کی سکت نہ تھی اس لئے میں نے شمولیت سے معذرت کر لی اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو کہیں بیٹھ کر جج کے فرائض انجام دیتے ہوئے آپ کو حقدار لوگوں کے نام خط کے ذریعے روانہ کر دوں اور میری درخواست قبول کر لی گئی۔ میرا خیال ہے کہ انتظار صاحب نے بھی یہی طریقہ واردات اپنایا تھا البتہ ہم اکثر آپس میں مشورہ کر لیا کرتے۔ جیسے ان دنوں بے نامی اکائونٹ ہوتے ہیں اسی طرح حکومت کی جانب سے جو بے نام نامزدگان فہرست میں شامل ہوتے وہ انتظار صاحب اور میرے لئے تفریح کا سامان بنتے کہ تارڑ ان لوگوں کو حیا نہیں آتی اپنی نامزدگیاں کرواتے ہوئے۔ بہر طور یہ سلسلہ دو تین برس چلا اور پھر میں نے معذرت کرلی کہ اکثر ہماری سفارشات پر عمل نہ کیا جاتا یعنی ہم صرف خانہ پری کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ اور ہاں اس دوران ایسے نامزدگان اپنے رسوخ سے جج حضرات کے نام حاصل کر کے فون پر ہماری جان کھا جاتے کہ تارڑ صاحب میں سمجھتا ہوں کہ پورے پاکستان میں آپ ہی تو ایک عظیم ادیب ہیں۔ جانے آپ کو اب تک نوبل انعام کیوں نہیں دیا گیا۔ براہ کرم میرا خیال رکھیے گا۔ نظر کرم کیجئے گا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ سفارشیں بھی چلی ہی آتیں۔ یہاں میں ایک بصیرت افروز قصہ بیان کرنا چاہوں گا۔ ایک روز کسی ڈی آئی جی صاحب کا فون آیا غالباً ان کا نام کچھ شاہد تھا کہ آپ سے ملاقات کا خواہش مند ہوں‘ آپ کو پڑھتا رہتا ہوں وغیرہ۔ میں نے کہا جی چلیے آئیے اور وہ چلے آئے۔ بہت نرم مزاج اوربھلے آدمی تھے اور ان کی بغل میں ایک فائل تھی جو انہوں نے ملاحظے کے لئے میرے سپرد کر دی۔ یاد رہے کہ انعام یافتگان کے بارے میں کچھ تفتیش وغیرہ بھی کی جاتی ہے کہ کہیں یہ ملک دشمن وغیرہ تو نہیں۔ حکومت وقت پر کچھ ناروا تنقید تو نہیں کرتے اور اللہ رحم کرے کہیں لبرل اور کمیونسٹ تو نہیں۔ وہ کہنے لگے ذرا دیکھیے کہ کیا یہ صاحب فلاں سول ایوارڈ کے لئے موزوں ہیں یا نہیں۔ میں نے گزارش کی کہ حضور یہ فیصلہ میں نہیں کر سکتا کہنے لگے‘ چلیے یہ بتا دیجیے کہ یہ کیسے ادیب ہیں تو میں نے خدا کو حاضر ناظر جان کر عرض کیا کہ بس یونہی سے ادیب ہیں۔ کہنے لگے میں بھی یہی سمجھتا ہوں لیکن یہ صاحب تگ و دو بہت کر رہے ہیں۔ بہرطور اس برس وہ صاحب ایوارڈ نہ ’’حاصل‘‘ کر سکے ۔ اگلے برس وہ ڈی آئی جی صرف ملاقات کی خاطر تشریف لائے۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔ جناب اس برس ان کو نہیں روکا جا سکتا۔ اوپر سے شروع ہو کر مجھ تک جتنے لوگوں کے پاس ان کی فائل فارورڈ ہونی تھی۔ سب کو نہ صرف سفارشی فون آ چکے ہیں بلکہ وہ خود ذاتی طور پر ہر شخص کی خدمت میں حاضر ہو کر ادب میں اپنے کارناموں پر تفصیلی روشنی ڈال چکے ہیں۔ قصہ مختصر اس برس ان کا نام ایوارڈ یافتگان میں شامل تھا انہوں نے اپنے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کروائی اور نہائت عاجزی سے تقریرکرتے ہوئے کہا۔ یہ انعام میرے لئے ایک سرپرائز تھا۔ قطعی طور پر غیر متوقع تھا کیونکہ مجھے تو کچھ خواہش نہ تھی۔ جانے یہ کیسے ہو گیا۔ سول ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے سب سے آسان اور تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ آپ ذاتی طور پر کسی علمی ‘ ثقافتی یا تحقیقی ادارے کے سربراہ ہوں اور بہ قلم خود اپنا نام تجویزکر دیں۔ پھر خود ہی کوایوارڈ کے لئے نامزد کر دیں۔ آزمائش شرط ہے۔ آپ ایوارڈ اور رقم کے ساتھ ریٹائرمنٹ پر باعزت طور پر رخصت ہوں گے۔ مثالیں دینا خطرے سے خالی نہیں ہے البتہ کوئی چپکے سے پوچھے تو سرگوشیوں میں بتا سکتا ہوں۔ ایک ایسے ہی ایوارڈ یافتہ صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو نہیں۔ میرے ایک ماتحت نے میرا نام تجویز کیا تھا اور جس کمیٹی نے فیصلہ کرنا تھا جب میرا نام زیر بحث آیا تو میں کچھ دیر کے لئے باہر چلا گیا تھا۔ شنید ہے کہ جب ایک ادیب نے اپنے سماجی اور سیاسی جوڑ توڑ سے تمام سول ایوارڈ حاصل کر لئے تو انہوں نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا تھا کہ آخر نشان حیدر حاصل کرنے کے لئے شہید ہونا کیوں ضروری ہے۔ اور پھر ایسے ادیب بھی تو ہیں جنہوں نے سول ایوارڈ لینے سے صریحاً انکار کر دیا جن میں الطاف فاطمہ ایسی نابغہ روزگار نثر نگار سرفہرست تھیں۔ می ان کی یادمیں لکھے گئے کالم میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ جب اکیڈمی ادبیات نے ان سے رابطہ کیا بلکہ درخواست کی کہ وہ ایوارڈ قبول کر لیں تو انہوں نے معذرت کر لی اگرچہ ایوارڈ کے ہمراہ ایک خطیر رقم بھی شامل تھی۔ کہنے لگیں کہ آپ مجھے ترجمہ کرنے کا کوئی پروجیکٹ عطا کر دیں تو میں ممنون ہوں گی کہ ان کے معاشی مسائل بہرحال تھے۔ عبداللہ حسین کو اگرچہ ’’اداس نسلیں‘‘ پر آدم جی پرائز مل چکا تھا لیکن اکیڈمی کی خواہش تھی کہ وہ سرکاری طور پر پرائڈ آف پرفارمنس بھی قبول کر لیں۔ ایک تو میں نے اس پیشکش کی بھرپور مخالفت کی اور عبداللہ سے کہا کہ خان صاحب یہ ایوارڈ تو ہر نتھو خیرے کے پاس ہے یہاں تک کہ ۔۔۔۔۔کے پاس بھی ہے۔ اگر حکومت نے آپ کو ایوارڈ عطا کرنا ہے تو ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ پیش کرے جو آپ کے مرتبے کے لائق ہو۔ البتہ عبداللہ حسین کے انکار کا جواز بہت دلچسپ اور قابل غور تھا۔ کہنے لگا۔’’تارڑ یار اس ایوارڈ کے ساتھ یا تو ادیب کو بھی فوجیوں کی مانند دو تین مربعے شربے زمین کے ملیں تاکہ وہ بقیہ زندگی آسائش سے بسرکرسکے ورنہ یہ تو بیکار ہے’’ میں نے کہا ’’خان یہ تو شائد ممکن نہیں’’تو عبداللہ نے اپنا ٹریڈ مارک قہقہہ لگا کر کہا تھا’’لو بھئی ہم بھی تو ادب کے جرنیل شرنیل ہیں۔ ہمیں مربعے کیوں الاٹ نہیں کئے جا سکتے اور ہمیں بھی دو چار، زیادہ نہیں’’چنانچہ عبداللہ نے بھی انکار کر دیا۔ (جاری ہے)