افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد بھارت کی بدحواسی قابل دید ہے۔بھارت کے بعض میڈیا چینلز افغانستان میں پاکستانی افواج کے بارے میں ایسی گمراہ کن خبریں نشر کر رہے ہیں، جن سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور پاکستان ہی نے امریکہ کی شکست میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ پنج شیر کے معرکے میں پاکستانی افواج کی شرکت کی ایسی ویڈیوز نشر کی گئی ہیں، جن میں برطانیہ کے وہ جہاز دکھائے گئے ہیں، جو پاکستان کے پاس موجود ہی نہیں۔برطانیہ کے علاقے کو ہی پنج شیر کی وادی بنا دیا گیا ہے اور حد تو یہ ہے کہ کارٹون فلموں کی جنگ دکھا کر انہیں پاکستانی افواج قرار دے دیا گیا ہے۔بھارت کی ان خبروں کی تردید خود برطانوی میڈیا نے کی ہے اور بھارت کی خبروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔بھارتی میڈیا پر پاکستان کے خلاف آگ اگلنے والے ریٹائرڈ جنرل بخشی نے ایک پروگرام میں پاکستان کے کور کمانڈر اور کمانڈو بٹالین کے نام تک بتا دیے، جو پنج شیر کو فتح کرنے میں طالبان کے ساتھ شریک ہیں۔تاہم دنیا کے کسی باخبر ملک کے میڈیا نے بھارت کے دعوئوں کو درخور اعتنا نہیں جانا اور ان دعوئوں پر تبصرہ تک نہیں کیا۔بھارت کو افغانستان میں جس ذلت آمیز طریقے سے نکلنا پڑا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔اللہ کی شان ہے کہ جو بھارت ہر وقت پاکستان کے خلاف نفسیاتی جنگ میں برسر پیکار رہتا ہے ،آج خود بھارتی عوام کو یہ باور کروانے میں مصروف ہے کہ پاکستانی افواج کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے اور وہ جب چاہیں جہاں چاہیں قبضہ کر سکتے ہیں۔بھارت کی بدحواسی ذرا کم ہو گی، توشاید اسے احساس ہو کہ پاکستان کے بغض میں وہ خود اپنے پائوں پہ کلہاڑی چلا رہا ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک نے تو بھارت کی ہرزہ سرائی پہ یقین نہیں کیا لیکن محترمہ مریم نواز نے یہ مناسب سمجھا ہے کہ وہ بھارت دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ان کی بات پر یقین کر لیں۔اسی لئے عدالت میں حاضری کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی حکومت کو پرزور تلقین کی ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں اپنی مداخلت بند کرے اور افغانستان کے عوام کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت دے۔انہیں شاید اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ملک کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔جس بھارت کے پراپیگنڈہ سے وہ متاثر ہوئی ہیں، وہی ملک ان کے بیان کو افغانستان میں پاکستانی مداخلت کے ثبوت کے طور پر پیش کرے گا۔(ن) لیگ کے سمجھدار لوگوں کو انہیں متنبہ کرنا چاہیے کہ وہ ایسے معاملات میں مداخلت نہ کر کے اپنی پارٹی اور اپنے ملک پر رحم فرمائیں۔ بھارت اگرچہ افغانستان کا ہمسایہ ملک نہیں ہے لیکن اس خطے میں شاید وہ واحد ملک ہے جو امریکہ کی شکست میں ایک بڑا حصے دار ہے۔اسی لئے امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ بھارت اس خطے میں امریکی ایجنٹ کا کردار بحسن و خوبی انجام دے۔اسی لئے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جوزف جونز اور MI6کے ڈائریکٹر سب سے پہلے بھارت میں وارد ہوئے ہیں اور اپنے حلیف سے مشورہ کرنے کے بعد سی آئی اے چیف اب پاکستان میں موجود ہیں۔آرمی چیف سے ملاقات میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے افغان بحران میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے حلیفوں کو افغانستان سے نکلنے میں پاکستان نے جس طرح ان کی مدد کی ہے‘اس کے لئے شکریہ ادا کیا ہے۔پاکستان کی حکومت اور فوجی قیادت کے لئے ضروری ہے کہ امریکی قیادت سے بات چیت میں اپنے اہداف کو سامنے رکھے۔پاکستان کے کردار کی تعریف اور شکریہ کوئی معانی نہیں رکھتا۔یہ ہماری سفارت کاری کا امتحان ہے کہ ہم کس طرح اس بحران سے اپنے لئے نئے امکانات پیدا کرتے ہیں اور کس طرح امریکہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھارت کو لگام ڈالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔طالبان کی فتح سے ہمیں یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایمان مضبوط ہو تو امریکہ جیسے طاقتور ملک کو بھی شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ طالبان نے اپنی عبوری حکومت کا اعلان کر دیا ہے۔15اگست کو فتح حاصل کرنے کے بعد 7ستمبر تک طالبان نے نہ صرف پنج شیر میں بغاوت کو کچلا ہے بلکہ تین ہفتے کے مختصر عرصے میں عبوری حکومت بھی بنائی ہے۔امریکہ اور اس کے پٹھوافغانستان کی عبوری حکومت پر طرح طرح کے اعتراض کر رہے ہیں کسی کو اعتراض ہے کہ عہدوں کی تقسیم میں امریکہ کی Black listکو مدنظر نہیں رکھا گیا اور کسی کو اعتراض ہے کہ افغان خواتین کو نظرانداز کیا گیا ہے۔کسی کو خیال ہے کہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے لوگوں کو حکومت میں جگہ نہیں دی گئی۔ان لوگوں کے خیال میں وسیع البنیاد حکومت کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانوں کا خون بہانے والوں کو بھی حکومت میں حصہ دیا جائے۔طالبان کی یہ کیا کم مہربانی ہے کہ انہوں نے ایسے عناصر کو معاف کر دیا ہے جو جنگ میں امریکہ کے ساتھی تھے۔یہ عجیب و غریب منطق ہے کہ جنگ میں شکست فاش کھانے والے ممالک فتح حاصل کرنے والوںسے اپنی مرضی کی حکومت بنوانا چاہتے ہیں۔بھارت جیسے ملک بھی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں جو کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی جیل چلا رہے اور انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔جو علی گیلانی جیسے بہادر رہنمائوں سے موت کے بعد بھی انتقام لیتے ہیں اور ان کے جسد خاکی کو لواحقین سے چھین کر لے جاتے ہیں۔امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی اپنے اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔لاکھوں لوگوں کا خون بہانے اور غلاموں کے سب سے بڑے تاجر افغانستان کو انسانی حقوق کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی خاتون کو اغوا کرنے اور 87سال قید سنانے والا امریکہ کس منہ سے انسانی اور نسوانی حقوق کی بات کر سکتا ہے۔طالبان کو داد دینی چاہیے کہ بیس سال جنگ لڑنے کے بعد انہوں نے فتح مکہ کے اسوہ حسنیٰ پر عمل کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ افغانستان میں ایک موثر حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔طالبان نے تو ملا عمر کے دور میں بھی افغانستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا اور اپنے ملک کو منشیات سے پاک کر دیا تھا۔آج کے طالبان تو بہت بردبار سمجھدار اور تجربہ کار ہیں۔وہ امریکہ اور بھارت کی چالیں خوب سمجھتے ہیں۔پاکستان کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ نادانستگی میں ہم امریکہ کے آلہ کار نہ بن جائیں۔حکومت پاکستان نے برطانیہ کے جہاز کو لینڈ کرنے کی اجازت نہ دے کر ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے۔سفارت کاری میں Reciprocity اکثر اوقات بڑے اچھے نتائج دیتی ہے۔ہمیں بھی خوئے غلامی چھوڑنی ہو گی۔