تین اپریل 2022 سے بروز اتوار سے 10 اپریل 2022 تک کا ہفتہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ سسپنس والا ہفتہ تھا اس پورے ہفتہ میں پاکستان کی تاریخ میں وہ کچھ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔تین اپریل کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گنتی ہونا تھی۔اپوزیشن کے پاس پورے بندے تھے کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ایوان میں یہ کچھ ہوگا۔وفاق وزیر چوہدری فواد حسین پوائنٹ آف ارٓڈر پر کھڑے ہوئے اور تحریک کی ریجیکشن کی درخواست کی۔ڈپٹی سپیکر نے جتنی برق رفتاری سے رولنگ دی سب حواس باختہ تھے۔ 30 سیکنڈ سے کم عرصہ میں سپیکر نے تحریک کو رد کردیا اور اپنی سیٹ سے اٹھ گئے۔اپوزیشن سپیکر کی اس رولنگ کے خلاف عدالت میں چلی گئی۔اتوار کا دن تھا چھٹی تھی ۔ لیکن کچھ ایسا ہونا تھا جو پہلے نہیں ہوا۔ چھٹی والے دن سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔عدالت کھل گئی عملہ بھی آگیا اور اور پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کر دی۔ آج تک پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہو ا کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ عدالت نے رد کیا ہو۔ اس بار ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تاریخ میں جگہ بنائی اور عدالت نے سپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دی اور پارلیمنٹ کو پہلی دفعہ پابند کیا کہ اجلاس وہاں سے شروع ہو جہاں سے ختم ہوا تھا۔عدالت نے وزیر اعظم اور صدر کے اقدامات کو بھی رد کر دیا جس کے تحت اسمبلی توڑی گئی تھی۔ عدلیہ نے اسمبلی بحال کر دی۔دنیا نے پہلی بار دیکھا حکومت اپنی حکومت بحال ہونے پر رنجیدہ تھی اور اپوزیشن والے حکومت کی بحالی پر مٹھائی بانٹ رہے تھے۔عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بنا دیا گیا۔پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی کا اجلاس سپریم کورٹ نے طلب کیا۔9 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ طلب ہوا۔ صبح دس بجے سے لیکر رات 12 بجے تک 14 گھنٹے پوری قوم اس انتظار میں رہی کہ کیا ہوتا ہے۔ اس دن حکومت کے اراکین نے لمبی لمبی تقریریں کئی۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیریں مزاری سب نے اپوزیشن کو آڑے ہا تھوں لیا۔ ڈرامہ پورے عروج پر تھا کئی بار اجلاس روکا گیا کبھی ایک نماز کے لئے کبھی دوسری نماز کے لئے۔بارہ بجنے کے قریب تھے اس وقت پاکستان کے عوام نے کچھ نیا دیکھا ۔ پونے بارہ بجے سپیکر اسد قیصر نے استعفی دے دیا اور مسلم لیگ کے ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کی اور یوں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ اسمبلی سے چلے گئے۔تحریک انصاف کا صرف ایک ممبر ایسا تھا جو اپنی سیٹ پر موجود رہا وہ تھا وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان۔ اس دن جو تقریر علی محمد نے کی وہ آنے والے کئی سالوں میں یاد رکھی جائی گی اور آنے والے الیکشن میں سب سے زیادہ سنے جانے والی تقریر بھی ہو گی۔ پاکستان تحریک انصاف اس تقریر کو اپنی الیکشن مہم کا حصہ بنائے گی۔ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ پورے ایوان میں ایک آدمی ایک طرف تھا اور پورا ایوان دوسری طرف۔جب یہ کالم شائع ہوگا کافی نئے ریکارڈ بن چکے ہونگے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو بھائی وزیر اعظم کے منصب تک پہنچے۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے شہباز شریف پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے ۔ کسی ایک خاندان میں وزارت عظمیٰ کا اعزاز چار بار آئے گا۔ اس سے پہلے بھٹو خاندان میں ذوالفقار علی بھٹو دو بار اور بے نظیر بھٹو دو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ بھٹو خاندان اور شریف خاندان چار بار وزارت عظمی تک پہنچے ہیں۔ جس دن حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلی بن جائیں گے اس دن پہلی بار ایسا ہو گا کہ باپ وزیر اعظم اور بیٹا وزیر اعلی۔ یوں لگتا کہ ہم کسی پرانے دور میں ہیں جہاں پہلے ایک بھائی بادشاہ تھا اب دوسرا بھائی بادشاہ ہے بادشاہ کا بیٹا ملک کے سب سے بڑے صوبہ کا حاکم ہے۔ابھی بہت کچھ پردے کے پیچھے ہے 10 اپریل کی رات کو جومنظر پاکستان میں ہوا وہ بھی پہلی بار ہوا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی نے پہلی بار سارے ملک میں اپنی پاور کو شو کیا ہے اور وہ بھی کسی قیادت کے بغیر۔ پہلے حکومت جاتی تھی تو ایک دن کا کھیل ہوتا تھا دوسرے دن سب کچھ نارمل ہو جاتا تھا ،میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اس بار کچھ الگ ہونے والا ہے۔ بہت سارے لوگ اس بات کو سمجھ نہیں سکے کہ 9 اپریل 2022 کو پاکستان تحریک انصاف نے حاصل کیا کیا۔ سارا دن ضائع کیا اور شام کو وہی کچھ ہوا جو اجلاس کے آدھ گھنٹے بعد ہو سکتا تھا۔پاکستان تحریک انصاف نے اس دن اپوزیشن کو جتنا ذلیل کرنا تھا کر لیا۔سوشل میڈیا پر کیا کچھ نہیں ہوا اور کون کون لوگ تھے جو اس حکومت کے جانے پر خوش تھے ان میں وہ بھی تھا جو فرانس میں گستاخ کارٹون کی اشاعت کے مقابلے کراتا ہے۔کچھ ایسے کارٹون بھی شائع ہوئے جنہوں نے بطور قوم پاکستانیوں کا سرشرم سے جھکا دیا۔ پاکستان کی اکانومی تو شاید ٹھیک ہو جائے مگر ہمارا امیج شاید کبھی ٹھیک نہ ہو سکے۔ اس تحریک نے جو کامیابی حاصل کی وہ آنے والی تاریخ میں بہت اہم مقام پائے گی۔ اب شہباز شریف ہمارے وزیر اعظم ہونگے اور صد ر کے منصب پر کون بیٹھتا ہے یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔ ویسے تو ہندوستان کی تاریخ میں کوئی محمد شاہ رنگیلا بھی رہا ہے جس نے چالیس سال سے زیادہ حکومت کی اور واجد علی شاہ جیسے نواب رہے ہیں جنہوں نے عورتوں کی فوج کی پلٹن بنائی تھی۔ میرے خیال میں بہتر تھا اپوزیشن ایک سال انتظار کرتی۔ عمران خان نے تو بزدار کے وزن کے نیچے مر جانا تھا۔ اب اس تحریک نے عمران خان کو حکومت سے اتار دیا اور لوگوں کو دلوں میں بٹھا دیا۔ لگتا ہے غلطی ہو گئی ہے اس بار زرداری سے بھی۔