صوفی تبسم نے کیا خوب کہا تھا: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو اس وقت میں صوفی صاحب کے مشہور ملی نغمے ’’پتر ہٹا ںتے نئیں وکدے‘‘ پر بات کرنے جارہا ہوں۔ آغا شاہد اور فوزیہ تبسم نے بہت محبت سے مدعو کیا کہ ان کی ہدایت کاری میں تیار کیا گیا یہ ڈرامہ میں دیکھوں۔ جمعہ کے روز آغا قیصر نے مجھے طارق عزیز شو میں بطور جج مدعو کر رکھا تھا کہ وہ اکثر یہ ذمہ داری مجھے سونپ دیتے ہیں اور یوں محترم طارق عزیز سے ملاقات کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اب کے میں اس ہال نمبر 1 میں پہنچا تو پتہ چلا کہ الحمرا کے اس ہال میں تو ڈرامہ چل رہا ہے۔ آغا شاہد نے میرا بازو پکڑا اور اندر لے آئے۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آغا شاہد کی مسز فوزیہ تبسم صوفی تبسم کی پوتی ہیں اور صوفی گلزار احمد کی بیٹی ہیں۔ صوفی گلزار پروفیسر تھے اور نفسیات پر ان کی گرانقدر کتب بھی ہیں۔ ان دونوں میاں بیوی نے ٹوٹ بٹوٹ اکیڈمی بھی بنا رکھی ہے۔ یقینا ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی۔ ہم سب کے بچپن کی یادوں میں ہے۔ یہ دونوں واقعتاً بڑے فعال ہیں اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’ایک اور ایک گیارہ‘‘ ان پر صادق آتا ہے۔ صوفی تبسم آرٹ اکیڈمی بھی ان کی ہے۔ سب سے بڑی بات جو میں نے ان میں دیکھی وہ اپنے ڈرامے میں پروفیشنل اداکار نہیں لیتے۔ ڈرامہ دیکھ کرمیں نے انہیں کہا کہ اگر وہ مشہور اور جانے پہچانے اداکاروں کے ساتھ ڈرامہ کرتے تو یہ جھوٹ نظر آتا۔ وہ بھولپن اور معصومیت ختم ہو جاتی۔ جب دنیا کے سب سے بڑے ہدایت کار نے اپنی فلم کے لیے اناڑی ہیروئن لی تو صحافیوں نے اس رسک لینے کی وجہ پوچھی تو اس ہدایت کار نے کہا کہ مجھے پڑی ہوئی گانٹھیں نہیں کھولنا پڑیں گے۔ مقصد یہ سیکھا ہوا بھلانا نہیں پڑے گا۔ فوزیہ تبسم بتانے لگیں کہ صوفی تبسم نے جب 65ء کی جنگ میں قومی نغمے لکھے تو انہیں جہاں تمغہ امتیاز ملا وہیں انہیں سندھ میں زمینوں کی پیشکش ہوئی۔ صوفی صاحب نے کہا کہ وہ زمیندار نہیں۔ میں نے کہا کہ صوفی صاحب کو کہنا چاہیے تھا کہ ان کی شاعری میں کئی زمینیں ہیں اور وہاں سے شعروں کی کئی فصلیں اٹھائی گئی ہیں۔ متذکرہ ڈرامے کا پس منظر اور پیش منظر دونوں اہم ہیں۔ چونڈہ اور سیالکوٹ کے محاذوں پر جنگ جاری تھی تو لوگ جذبہ ایمانی سے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ ایسا منظر آسمان نے پہلے کب دیکھا تھا۔ 65ء کی تاریخ جاں فروشوں نے اپنے خون سے لکھی۔ یہ خبریں صوفی تبسم تک پہنچیں تو وہ آبدیدہ ہوئے۔ پھر انہوں نے کیا کیا نغمے لکھے۔ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تو ہر زبان پر تھا۔ یہ حقیقت محترم اسلم کمال نے بتائی کہ جب یہ نغمہ ریکارڈ ہونے جا رہا تھا۔ انجم رومانی کے کمرے میں میڈم نور جہاں اس نغمے کے بول گنگنا رہی تھی۔ صوفی صاحب موجود تھے۔ اتنے میں ایئر ریڈ ہوا اور افراتفری مچ گئی۔ لوگ مورچے کی طرف بھاگنے لگے۔ میڈم بیٹھی رہیں۔ کسی نے میڈم سے کہا کہ وہ بھی بچائو کریں۔ میڈم نے کہا کہ وہ یہ ملی نغمہ گاتے ہوئے شہید ہونا چاہتی ہیں۔ اس ڈرامے کے پیش منظر میں وہی فضا پیدا کرنا ہے کہ جو ہمارے نوجوانوں میں وطن کے لیے بے پناہ جذبے ابھارے اور انہیں آزادی کی قدر کرنا سکھائے۔ سب سے اہم سوال جو احسان فراموش اور خود غرض لوگ کرتے ہیں کہ پاکستان نے انہیں کیا دیا۔ اس ڈرامے سے انہیں جواب ملے گا کہ پاکستان نے انہیں دنیا میں شناخت اور پہچان دی۔ انہیں آزادی سے سانس لینے کا موقع دیا۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین اور کشمیر کے لوگوں سے آزادی کی قدر پوچھیں جو صبر کے شکنجے میں ہیں اور بدترین تشدد میں نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ کس طرح آزادی کے متوالے وہاں شہید کئے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم ایک کانفرنس میں آزادکشمیر گئے تو وہاں بھی ایک ڈرامہ ہمیں دکھایا گیا کہ کس طرح مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا معیار زندگی تنگ کر دیا گیا ہے اور شہادتیں روٹین بن گئی ہیں۔ فلسفہ شہادت تو یہی ہے کہ ’’شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے‘‘ ویسے تو شہید زندہ ہے اور اس کو اس کا رزق پہنچتا ہے اور ہم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے میں تحریر فوزیہ تبسم کی تھی اور ہدایات آغا شاہد خان کی۔ قرشی والوں نے سپانسر کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے بامقصد کھیل ہوتے رہنے چاہئیں۔ نوجوان نسل کو قومی ذمہ داری سے باخبر رکھنے کے لیے، حب الوطنی کے جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے اور زندگی کے ارفع مقاصد کو سمجھنے کے لیے۔ اس میں کچھ فوجی نوجوانوں نے بھی حصہ لیا جو شہید کا تابوت لاتے اور لے جاتے ہیں تو ان کی پرفارمنس نیچرل تھی۔ وہ شہیدوں کی دو مائیں بھی بہت اچھی پرفارمنس دے رہی تھیں۔ فوزیہ نے بتایا کہ روشنی خان تو اردو سپیکنگ ہے اسے پنجابی سکھائی گئی۔ مجھے خیال آیا کہ مصطفی قریشی بھی سندھی ہیں انہیں پنجابی میں عروج ملا اور شبنم بنگالن تھیں اور انہوں نے اردو میں نام کمایا۔ بعض اوقات بے ہنری بھی ہنر بن جاتی ہے۔ اس ڈرامے میں میجر شہزاد نے بہت مدد فراہم کی۔ لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں بنگش، محمد رضا نازی (کونسل جنرل آف ایران)، اسلم کمال، تسنیم منٹو، تسنیم کوثر، اسما عباس اور عذرا عباس تو چاروں دن اس ڈرامے کو دیکھنے آتے رہے۔ عارف چوہدری، لیفٹیننٹ ممتاز انور شہید ستارہ جرأت کی بیوہ اور ان کے بھائی تشریف لائے۔ مطلب یہ کہ اس ڈرامے کو بہت ذوق و شوق سے دیکھا گیا۔ تسنیم تو باقاعدہ فوزیہ تبسم کو چوم کر داد دے رہی تھیں۔ میں یہ بھی بتادوں کہ یہ پیشکش لاہور آرٹس کونسل اور صوفی تبسم آرٹ اکیڈمی کے اشتراک سے تھی۔ کیوں نہ ڈرامہ کی کاسٹ کا ذکر کردیں کہ ان کی پذیرائی ضروری ہے۔ ان میں سے اکثر نے تو پہلی دفعہ پرفارمنس دی۔ نسیم خان (اکبر شہید کی ماں)، روشنی خان (حیدر شہید کی ماں)، علی شان (اکبر شہید)، سعدی خان (حیدر شہید)، تحسین خان (اکبر کی منگیتر)، زین علی (پٹھان)، حفظہ طاہر (ملازمہ)، پونم ناز (پڑوسن لڑکی)، فرحان افضل (چاچا کرمو) حسن کمال (چاچا شرفو)، محمد وہاج (پھتو)، میاں احمد (کوچوان)، سبحان (جھلا بچہ)، سپاہی عبدالحفیظ، نائیک محمد عامر، سپاہی منہاس اور سپاہی معاذ عبداللہ۔