افغانستان کی صورتحال اب تک سلجھنے کے مراحل طے کر رہی ہے۔ 15 اگست سے آج تک جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں وہ ایک نئی تاریخ تشکیل کرتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان اہلیان مغرب کے لیے الجھا ہوا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ مگر جو افغانستان سے اچھی طرح آگاہ ہیں؛ ان کو معلوم ہے کہ یہ ملک جتنی شدت سے محبت کرتا ہے؛ اتنی شدت سے نفرت بھی کرتا ہے ۔ افغانستان مکمل طور پر ایک پشتون ملک نہیں ہے مگر اس ملک کے مزاج میں انتہا پرستی ازل سے موجود ہے۔ اگر افغان دوستی نبھانے پر آتے ہیں تو جان بھی قربان کردیتے ہیں اور اگر وہ دشمنی کریں تو پھران کے لیے جان لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ افغانستان کی تاریخ پر جس کی نظر رہی ہے وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ یہاں کے لوگ شروع سے آزادی پسند ہے۔ انہیں غلامی کسی صورت بھی قبول نہیں۔ خواہ اس غلامی کی زنجیر سونے اور چاندی کی کیوں نہ ہو۔ افغان آزاد مزاج قوم ہیں۔ وہ آزادی کے لیے کس حد تک قربانی دینے جا سکتے ہیں؟ اس کا ایک منظر اس پشتو ٹپے میں موجود ہے؛ جس مطلب ہے: ’’اے وطن اگر تمہاری آزادی کے لیے تمہارے بیٹے آگے نہیں آئے تو پھر تمہاری بیٹیاں میدان میں آئیں گی‘‘ ابھی تک افغانستان پر وہ وقت نہیں آیا کہ وطن کی حفاظت کے لیے اس سرزمیں کی بیٹیاں میدان میں اتریں مگرافغان قوم اس کے لیے بھی تیار ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں افغانوں کے بارے اشعار پڑھتے ہوئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ افغان عورت اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کرتی ہے کہ اسے آزادی سے محبت ہو اور غلامی سے نفرت ہو۔ اس لیے افغانستان صدیوں کے سفر میں کبھی مفتوح ملک نہیں رہا۔ اس ملک پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ قبضے بھی ہوتے رہے ہیں۔ مگر غلامی کے خلاف افغانوں کی مزاحمت ان کی تاریخی پہچان رہی ہے۔ اس لیے افغان دشمن کو نہیں بلکہ دشمنی کو دیکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے دشمنوں کو دیکھا ہوتا تو سپر پاورز کے خلاف وہ ہتھیار اٹھاتے ہوئے ذرا سوچئے۔ وہ انگریزوں سے لڑے؛ روسیوں سے لڑے؛ امریکیوں سے لڑے اور وہ لڑائی کے لیے اب بھی تیار ہیں۔ آج بھی ان کی منزل اقتدار نہیں بلکہ آزادی ہے۔ اس بات سے نہ صرف امریکہ بلکہ پورا مغرب ڈرتا ہے۔ ہم افغان قوم سے اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی مخصوص سوچ اور اپنے مزاج پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ سقوط کابل کے سلسلے میں بہت سارے ممالک کے حکمرانوں نے بیانات دیے ہیں؛گو وہ سارے بیانات تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ افغانستان کے بارے میں گذشتہ دنوں کو بیان روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے دیا وہ تاریخ کی اہم گواہی ہے۔ اس گواہی کو تاریخ اپنے سینے میں سمانے کے لیے تیار ہے۔ روسی صدر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم افغانستان کو جانتے ہیں۔ اس ملک پر اجنبی خیالات مسلط کرنا نقصاندہ ہو سکتا ہے‘‘ یہ بیان اس شخص کا نہیں ہے جو اس وقت روس کا حکمران ہے۔ یہ بیان اس شخص کا ہے جو حکمران بننے سے قبل سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی(KGB) کا سربراہ رہ چکا ہے۔ اس کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ افغان قوم جبر سے کبھی جھک نہیں سکتی۔ افغانستان کے ہر باغی کے دل میں ایک پہاڑ ہوتا ہے۔ اس پہاڑ پر بم برسائے جا سکتے ہیں۔ ا س پہاڑ کو زخمی بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس پہاڑ کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ ’’تورا بورا‘‘ نامی جس پہاڑ پر ڈیزی کٹر بم برسائے گئے وہ تورا بورا آج بھی افغانستان میں موجود ہے مگر وہ امریکی نہیں ہیں جنہوں نے کارپیٹ بمباری کی تھی۔ وہ امریکی جو جدید جہازوں اور کوبرا ہیلی کاپٹرز پر آئے آج وہ کابل کے ایئرپورٹ پر حفاظت کے ساتھ نکلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ افغانستان دہائیوں سے میدان جنگ بنا ہوا ہے مگر اس مل نے ایک دن کے لیے بھی ہار نہیں مانی۔ افغان پیدائشی جنگجو ہیں۔ وہ بھرپور حملہ کرنے کے لیے منتشر ہوکرپیچھے چلے جاتے ہیں اور پھر منظم ہوکر آگے بڑھتے ہیں۔ افغانستان مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کرنے والا ملک ہے۔ وہ ملک جس کے باغیوں نے کلاشنکوف سے سپر پاور کو شکست دی۔ حالانکہ اس بار ان کے پاس اسٹنگر میزائل جیسی کوئی قوت نہیں تھی۔ مگر ان کے پاس حوصلہ تھا۔ وہ حوصلہ ان کے پاس آج بھی ہے۔ آج بھی وہ بشمول کابل اپنے ملک کے صوبائی دارالحکومتوں میں اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں جیسے وہ یہاں سے کبھی گئے ہی نہ تھے اور اس طرح موجود ہیں کہ اگر انہیں پھر سے پہاڑوں پر جانا پڑے تو انہیں چھوڑنے کے لیے کوئی مال و دولت نہیں۔ وہ علامہ اقبال کی شاعری کا عملی نمونہ ہیں۔ اب تو مغرب بھی اس حقیقت کو مان چکا ہے کہ افغانوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ وہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اقبال نے لکھا تھا: ’’الہی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا وہ دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی‘‘ آج افغانستان پوری دنیا کے لیے مثال ہے۔ پوری دنیا افغانستان سے سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ افسوس کہ ہم ان سے اب تک وہ ہنر نہیں سیکھ پائے جو مزاحمت کے لیے قدیم سے قدیم اور جدید سے جدید ہے۔ اگر ایک سیاستدان کی دماغ سے دیکھا جائے تو افغانستان شاید سمجھ میں نہ آئے مگر ایک شاعر اور ایک اہل دل کی نظر سے دیکھا جائے تو افغان آج بھی پہاڑوں پر جلتا ہوا چراغ ہیں۔ وہ چراغ جس کو کوئی طوفان نہیں بجھا سکا۔ کیوں کہ اس چراغ میں جو تیل ہے وہ غیرت کا ہے۔ افسوس کہ ہم اس چراغ کے تلے رہتے ہیں۔ ہم جو ایک جمہوریت کی جال میں پھنسی ہوئی مچھلیوں کی طرح اقتدار کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ہم افغانستان کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ افغانستان کو سمجھنے کے لیے خوف اور لالچ سے دور جانا ضروری ہے۔ افغانستان کے لیے کاندھے پر کلاشنکوف رکھ کر پہاڑوں میں بسیرا کرنا لازمی شرط ہے۔ شیخ ایاز نے کیا خوب کہا ہے: ’’اب تو سورج ڈھل رہا ہے پربتوں میں شل ہوئے ہیں پاؤں تھک کر پھر بھی کوئی چل رہا ہے پربتوں میں‘‘ افغانستان کا سفر آزادی کا سفر ہے۔ وہ سفر جس میں لالچ اور خوف کے بہت سارے موڑ آتے ہیں مگر کسی موڑ پر تھک پر یا ڈر کر ڈیرا نہیں ڈالنا اور مسلسل چلتے رہنا۔ ایک چراغ کے مانند جلتے رہنا۔ آزادی کا تمنائی بن کر۔ افغانستان نے ہمیں غلامی سے نجات کا جو پیغام دیا ہے وہ پیغام ’’پیام مشرق‘‘ سے کم نہیں۔ آزادی کا راستہ جتنا دشوار ہوتا ہے؛ اتنا دلکش ہوا کرتا ہے۔ مگر ہم جو چراغ نہیں۔ ہم جو چراغ کے تلے جیتے ہیں۔ ہم اس پشتو ٹپے کی حقیقت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ جس پشتو ٹپے میں بتایا گیا ہے: ’’آزادی کی محبوبہ کہتی ہے میں غلام یار کو بوسہ نہیں دونگی‘‘