گزشتہ ہفتہ سے بلوچستان میںدہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہے۔ کابل انتظامیہ اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاںایک بار پھر ہم پر حملہ آور ہوئی ہیں۔ جمعہ کے روز ایک مسجد میں دھماکہ سے پندرہ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے کوئٹہ ہی میں فرنٹئیر کور کی ایک گاڑی کوموٹرسائیکل میں نصب کیے گئے بارودی مواد سے نشانہ بنایا گیا جس میںدو افراد جاں بحق اور چودہ زخمی ہوئے۔ داعش نے مسجد کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کی اورخُود کش حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی۔فرنٹئیر کور پر حملہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ تنظیم حزب الاحرار نے قبول کی تھی۔یاد رہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان سے الگ تنظیم ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے یہ واقعات ایک ایسے وقت میں ہوئے جب طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع ہونے جارہے ہیں۔ اُمید ہے کہ کچھ عرصہ پہلے امن معاہدہ کا جومسودہ طے پایا تھا لیکن اس پر دستخط ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اس بارپایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ دوسری طرف خطّہ میں ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ پورا مشرق وسطیٰ غیریقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ایسے موقع پر پاکستان میں دہشت گردی کا یکایک سر اُٹھانا معنی خیز ہے۔ کچھ ایسی قوتیںموجود ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرکے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ ٹی ٹی پی کو افغانستان اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ تنظیم پاکستان میں طویل عرصہ تک خُون کی ہولی کھیلتی رہی۔ اس کا سر کچلنے کے لیے متعدد فوجی آپریشن کرنے پڑے ‘ ہزاروں فوجی افسروں ‘ جوانوں ‘ رضاکاروں نے جان کی قربانیاں دیں۔ پچاس ہزار سے زیادہ شہری اس دہشت گرد تنظیم کی بھینٹ چڑھے۔ امریکی فوجوں کی افغانستان میںموجودہوتے ہوئے ٹی ٹی پی وہاں سرگرم رہی‘ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی۔ چند سال پہلے عراق اور شام میں وجود میں آنے والی دہشت گرد تنظیم داعش بھی افغانستان میں منظم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ چونکہ داعش میں وسط ایشیا کے لوگ بھی شامل ہورہے تھے اس لیے روس کو بھی اس تنظیم سے اپنی سلامتی کے خطرات لاحق ہیں۔طالبان اور داعش دو مخالف گروہ ہیں گو دونوں شدت پسندنظریہ کے علمبردار ہیں۔ چونکہ ایران نے داعش کو عراق اور شام میں شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے ایران کو بھی داعش کے افغانستان میں پاؤں جمانے پر تشویش تھی۔ ایران نے اسکے سد باب کے لیے افغانی طالبان سے روابط بڑھائے‘ ان کی مدد کی۔پاکستان کی سیکیورٹی فورسز داعش کے خلاف کارروائیاں کرتی آرہی ہیں لیکن یہ تنظیم ابھی تک افغانستان میں کہیں نہ کہیں موجود ہے اور وقفہ وقفہ سے دہشت گردی کی کاروائیاں کرتی رہتی ہے۔ سامراجی ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تمام مسلمان ملکوں کو انتشار اور خلفشار میں مبتلا رکھنے کے لئے لمبے‘ پیچیدہ جال بُنے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے ۔ ٹی ٹی پی اور داعش دونوں کو غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی مدد اور سرپرستی حاصل ہے۔ یہ تنظیمیں پاکستان کے خلاف اپنی کارروائیاں اس مالی اعانت اور ساز و سامان کے بغیر نہیں کرسکتیں جو ان کے سرپرست خفیہ ادارے انہیں فراہم کرتے ہیں۔ سب سے اہم بھارت ہے جو کشمیر یوں کی مزاحمت اور آزادی کی تحریک سے پریشان ہے۔ وہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان میں حالات خراب رکھنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو دنیا میں بدامنی کے مرکز کے طور پر پیش کرسکے‘ پاکستان کی معیشت کو دباؤ میںرکھ سکے۔بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے‘ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کی سرپرستی کررہا ہے۔دوسرے افغانستان کی خفیہ ایجنسی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔کابل میں پاکستان کا مخالف ایک بڑا طبقہ ہے جو بھارت کا حلیف ہے۔ یہ طبقہ نہیں چاہتاکہ امریکہ اور طالبان میں ایسا امن معاہدہ طے پاجائے جس سے کابل کا اقتداراُن کے ہاتھ سے نکل جائے حالانکہ افغانستان کے ساٹھ فیصد حصے پر طالبان ہی کا سکّہ چلتا ہے۔ اسی طبقہ نے پاکستان میں پختون تحفظ موومنٹ بنوائی جس کا مقصدپاکستان کے پختونوں میں بے چینی کو ہوا دینا اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ ایران سے تعلقات کی خرابی کے بعد امریکہ کا مفاد اس میں ہے کہ طالبان سے امن معاہدہ کرے ‘اپنی کچھ فوجیں اور جنگی سامان پُر امن طریقے سے افغانستان سے نکال کر لیجائے۔ موجودہ حالات میںایران کی کوشش ہوگی کہ طالبان کی مدد کرکے امریکہ کو مزا چکھائے ۔ افغانستان کے معاملہ پر ہی ایران کا تعاون حاصل کرنے کے لیے شاہ محمود قریشی تہران کے دورے پر جارہے ہیں۔ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ طالبان سے معاہدہ کرکے کابل میں اپنی حکومت بنائیں جسے دنیا تسلیم کرے ۔ طالبان کی حکومت اس طرح سے بھارت کی حلیف نہیں ہوگی جیسے موجودہ کابل انتظامیہ ہے۔ اُمید ہے کہ طالبان افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جب امریکی فوجیں افغانستان میں بہت کم رہ جائیں گی تو بھارت کو وہاں سے نکلنا پڑے گا۔ اپنے قونصل خانے بند کرنے پڑیں گے جو دراصل دہشت گردوںکی تربیت‘ پشت پناہی اور رہنمائی کے مراکز ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان چوبیس سو کلومیٹر طویل پہاڑی سرحد ہے۔ گو اس سرحد پر اکثر علاقوںمیں باڑ لگادی گئی ہے لیکن دو طرفہ نقل و حرکت کو پوری طرح روکنا ممکن نہیں۔ دونوں طرف کے پختون قبائل ایک دوسرے سے رشتہ داری میں منسلک ہیں۔ بیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ لوگ روزانہ افغانستان سے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔انسانی بنیادوں پر ان کی نقل و حرکت روکنا ممکن نہیں۔عام لوگوں کے بھیس میں کوئی دہشت گرد بھی پاکستان آجائے تو اس کی روک تھام مکمل طور پر نہیں کی جاسکتی۔ یہ دہشت گرد اپنے قبیلہ کے کسی فرد کے پاس مقیم ہوجائے اسے پکڑنا آسان نہیں۔ حفاظتی اقدامات سے دہشت گردی کم تو ہوئی ہے لیکن ختم نہیں ہوسکی۔ جب افغانستان میں امن قائم ہوگا تب ہی حالات میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ افغانستان میں امن اور ایک دوستانہ حکومت کا قیام پاکستان میں امن کے لیے بہت ضروری ہے۔ جب تک افغانستا ن میں بدامنی رہے گی پاکستان میں دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکتی۔ طالبان اور امریکہ کا معاہدہ جس قدر جلد ہوجائے اتنا ہمارے مفاد میں ہے۔