معزز قارئین!۔ 19 ستمبر 1960ء کو کراچی میں بھارت کے پہلے (آنجہانی ) وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور فیلڈ مارشل صدر ِ پاکستان محمد ایوب خان نے ’’سندھ طاس معاہدے ‘‘ (Indus Water Treaty)پر دستخط کئے تھے ، جس کی رُوح سے تین مشرقی دریا۔ ’’بیاس ، راوی اور ستلج ‘‘بھارت کے حصّے میں آئے تھے اور مغربی دریا سندھ ، چناب اور جہلم پاکستان کے حصّے میں ۔ پاکستان کے حصّے کے دریا ۔ سندھ ، چناب، اور جہلم مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں اور بھارت جب چاہتا ہے پاکستان کو اِن دریائوں کے پانی سے محروم کردیتا ہے اور جب چاہتاہے وہ ہماری ضرورت سے زیادہ اُن دریائوں کا پانی چھوڑ کر ہمارے شہروں اور دیہات کو ڈبو دیتا ہے ۔ 10 /11 مارچ کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اِس طرح کی خبریں تشویش ناک ہیں کہ ’’ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا جنگی جنون عروج پر ہوگیا ہے ، اُنہوں نے 5 سال میں پہلی بار کسی فوجی تقریب میں شرکت کی۔ اُس نے مشرقی دریائوں ( بیاس ، راوی اور ستلج ) سے اب تک 53 لاکھ ایکڑ فٹ پانی روک دِیا ہے ۔ بھارت کے وزیر مملکت برائے آبی وسائل کا نام ہے ارجن رام میگھ وال ۔معروف برطانوی مصنف "E. D. Macelignan"نے اپنی معروف تالیف "A Glossary of the Tribes and Castes of Punjab and NWFP" میںلکھا ہے کہ ’’ ہندوئوں میں ’’میگھ وال ‘‘۔چماروں کو کہتے ہیں جو مردہ جانوروں کا گوشت بھی کھاتے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ ’’مودی ‘‘ قوم کے بارے میں مَیں پہلے ہی آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہُوں کہ ’’ ویش ‘‘ (بنیوں) کو مودی کہتے ہیں۔ اِس لحاظ سے شری نریندر مودی جی نے سوچ سمجھ کر ہی ( پاکستان کے لئے ) مشرقی دریائوں ، بیاس ، راوی اور ستلج کا پانی روکنے کے لئے ہی میگھ وال جی کو وزیر مملکت برائے آبی وسائل کا محکمہ سپرد کر رکھا ہے ۔ انگریزی زبان کی ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ "A man is Known by the Company he Keeps"۔ اہل فارس نے اِس ضرب اُلمِثل کو یوں بیان کِیا ہے کہ ’’ کُند ہم جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر ، باز با باز‘‘۔ برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف کے 7 مارچ کے اپنے کالم ’’ طلوع‘‘ کا عنوان تھا ۔ ’’ بندر کے ہاتھ میں ماچس‘‘ ۔ سیّد عارف نے اِس امر پر تشویش کا اظہار کِیا تھا کہ ’’ بڑے ملک (بھارت) کے منصب پر فائز ، چھوٹے ذہن کا یہ شخص (نریندر مودی ) کہیں برصغیر میں آگ ہی نہ لگا دے ۔ بندر کے ہاتھ میں ماچس ہو تو یہ کھٹکا فطری ہے ۔ خواہ اُس آگ میں بندر خُود ہی کیوں نہ جل مرے ۔ ہوش مند ریاست کے طور پر پاکستان بندر کے ہاتھ سے ماچس چھیننے میں مشغول ہے ۔ پاکستان کی حکومت ، اپوزیشن ، فوج اور میڈیا کی ہوش مندی کا اعتراف دُنیا کر رہی ہے ، کاش ماچس چھیننے میں ہماری مدد بھی کرے‘‘۔ معزز قارئین!۔ ہندو دیو مالا کے مطابق بھگوان رام ؔکے ایک بندر جیسی شکل کے بھگت بندر / بانر/ وانر یا وانریندر (Warrender) کی بھی پوجا کی جاتی ہے ۔ جسے عرف عام میں ’’ہنو مان ‘ ‘(Hanuman) کہا جاتا ہے ۔ ہنو مان جی کی ایک بہت بڑی پونچھ (Tail) تھی ۔ رام جی کی کہانی (رامائن ؔ)کے مطابق جب، رام جی اپنی سوتیلی والدہ مہارانی ’’کیکئی ‘‘ سے کئے گئے اپنے پِتا جی ( ایودھیا کے مہاراجا دشرتھؔ )کا وعدہ پورا کرنے کے لئے 14 سال کے لئے بن باس ؔ (جنگل میں رہائش پذیر ) تھے تو، اُس دَور کے لنکا کے راجا راون ؔنے ، رام جی کی پتنی (اہلیہ) سِیتا جی کو اغواء کرلِیا تھا اور کئی سال تک اپنے ایک باغ میں قید رکھا تھا۔ کہانی کے مطابق ’’ ہنو مان جی یعنی۔ وَانریندرجی ؔ نے اپنے قبیلے (بندروں کی) فوج لے کر لنکا پر چڑھائی کردِی تھی اور اپنی پونچھ ( دُم) سے سارے لنکا میں آگ لگا دِی تھی۔ پھر رام جی ، راون کو شکست دے کر ، سِیتا جی اور اپنے چھوٹے بھائی لکشمن کو ایک ’’ وِمان ‘‘ ( Viman) یعنی۔ ’’ اُڑنے والے تخت (یا اُڑن کھٹولے ) پر بٹھا کر ایودھیا ؔ لے آئے تھے۔ شری رام کشتری (راجپوت ) تھے ۔ ہنو مان جی نہیں اور نہ ہی بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی راجپوت ہیں ۔ بنیا خواہ گاندھی جی ہوں یا مودی جی ، اُن کے بارے میں ایک ضرب اُلمِثل مشہور ہے کہ ’’ بنیے کے گون ؔ( تھیلے) میں نو من کا دھوکا‘‘ ۔ 1947ء میں آزادی کے بعد ، گاندھی جی نے اقلیتوں سے جو کچھ کِیا ، وہ سب کچھ مودی جی کرنے جا رہے ہیں۔ ہندو قوم کے عقیدے کے مطابق ’’ راجا رامؔ ’’چکرورتی راجا ‘‘ ( یعنی۔ ساری دُنیا کے بادشاہ ) تھے اور جب اُنہوں نے ’’چکرورتی راجا ‘‘ کا منصب سنبھالنے ’’اَشومیدھ یگیہ ‘‘ یعنی۔ ( بقول ہندوئوں کے ) ساری دُنیا کے راجائوں کو مدّعو کر کے جشن منایا تھا تو، سیتا جی کو اپنے ساتھ بٹھایا تھا لیکن 26 مئی 2014ء کو جب شری نریندر مودی نے وزارتِ عظمیٰ اُٹھاتے وقت اپنی پتنی ( اہلیہ ) ’’یشودھا بَین ‘‘ (Jashodaben) کو اپنے سے دور رکھا ۔ ابھی تک بہت دُور ہیں ۔ کئی سال ہُوئے مَیں نے ایک بھارتی فلم میں ’’ ہندوئوں کی مقدس ندی ؔ(دریائے گنگا) کے کنارے شری رامؔ جی کو مخاطب کرتے ہُوئے ہندوئوں لڑکیوں اور لڑکوںکو گاتے اور ناچتے ہُوئے ایک گیت گاتے سُنا جس کا ’’مُکھڑا ‘‘( مطلع ) تھا … رام تیری گنگا میلی ہو گئی! پاپیوںکے پاپ دھوتے دھوتے! …O… یعنی۔ ’’ اے شری رام !۔ گُنہگار اپنے گُناہ دھونے کے لئے گنگا میںنہانے آتے ہیں لیکن اُن کے گُناہ دھوتے دھوتے گنگا ۔(ندی )۔خودمیلی ہوگئی !‘‘۔معزز قارئین! ۔ قدیم ہندوستان میں کشتری ( راجپوت ) یا کہیں کہیں براہمن قوم کے لوگ راجا ہوتے تھے لیکن 1947ء کے بعد بھارت کے صدر ، وزیراعظم ، گورنرز ، وزرائے اعلیٰ اور دوسرے بڑے عہدوں پر ہر ذات کے ہندوستانیوں کو فائز کردِیا گیا ہے ۔ اب مودی جی ، وزیراعظم کی حیثیت سے کم از کم اشوکِ اعظم (Ashoka the Great) کی حیثیت اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ ’’ یہ مُنہ اور مسور کی دال‘‘ ؟۔ 2011ء میںبرطانیہ کے سائنسی جریدہ ۔ ’’The Nature‘‘ نے لکھا تھا کہ ۔ ’’ اگر بھارت نے پاکستان کے ساتھ ۔’’Indus Waters Treaty‘‘ (سندھ طاس معاہدے ) کے تحت پاکستان کے حِصّے میں آنے والے دریائوں ۔سندھ ، چناب اور جہلم پر’’Dams‘‘ ( پانی کے بہائو کو روکنے اور ذخیرہ کرنے کے لئے باندھے جانے والے بندوںؔ) کی تعمیر جاری رکھی تو پاکستان 2020ء تک ریگستان بن جائے گا‘‘۔ اُس سے پہلے امریکی خلائی ادارہ ۔’’N.A.S.A‘‘ ۔ (The National Aeronautics and Space Administration)۔ نے پیش گوئی کی تھی کہ ۔ ’’ پاکستان اور بھارت میں آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی!‘‘۔ معزز قارئین!۔ بھارت کی آبی جارحیت سے نجات پانے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ ’’پاکستان بہت عرصہ پہلے ہی کالا باغ ڈیم بنا دیتا‘‘۔ جن ، جن لیڈروںنے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کی ، اب اُنہیں کیا کہا جائے ۔ مَیں نے تو، یکم دسمبر 2012ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ’’ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کبھی ہمارے دریائوں کا پانی روک کر ہماری زمینوں کو بنجر بنا دیتا ہے اور کبھی ہماری طرف اتنا پانی چھوڑ دیتا ہے کہ سیلاب آ جاتا ہے ۔ ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ کی تعمیر کو اب مزید طول نہ دیں ۔ نہ ہی اِس پر سپریم کورٹ میں لے جائیں اور نہ ہی پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کریں ۔ بہتر ہے کہ ’’پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کو براۂ راست فیصلہ کرنے دیں یعنی۔ ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ پر ۔ ریفرنڈم کرالیں!‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’ اپنی گنگا کو مَیلی کرنے والے اور مَیلے ؔدِل والے مودی جی تو، چلے جائیں گے لیکن اُس کے بعد بھی تو، وہاں مَیلے ؔدِل والا ہی کوئی وزیراعظم بنے گا ؟۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی سازش میں شریک بھارت ۔ قائداعظمؒ کے پاکستان کو کب تک برداشت کرے گا ؟۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو مل کر سوچنا ہوگا؟۔