کسی مذہبی جماعت کے مرکزی رہنما کے بیٹے کا کینیڈا کی یونورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنا میرے نزدیک کوئی غیر مناسب نہیں بلکہ قابل فخر بات ہے۔ لیکن مذکورہ رہنما کو ٹویٹر پرمبارک باد دے کر ابھی میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ میری نظر ان کے ٹویٹ پر کچھ کمنٹس پر پڑ گئی۔ ان کمنٹس نے مجھے جھنجوڑ کر تبریک و تحسین کی وادی سے نکال کر حسرت و ملال کی گھاٹی میں لا کھڑا کیا۔حسرت اس بات کی کہ کاش ہمارے سیاسی و مذہبی رہنما عوام کے بچوں کے لئے وہ ہی چاہیں جو وہ اپنے بچوں کے لئے پسند کرتے ہیں اور ملال اس بات کا کہ ہمارے ملک میں مذہب کو ذاتی مفادات اور سیاسی مقاصد کے لئے کتنی بے دردی سے استعمال کیا گیا اور لوگ کس قدر شدت سے ایک اچھی خبر پر منفی ردعمل دیتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر یہ خوشی کی خبر سانجھی کی کہ ان کے بیٹے نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کامیابی سے مکمل کی ہے تو فورا دل کو خوشی اور فرحت محسوس ہوئی اور ان کے اس ٹویٹ پران کو مبارکباد دی کیونکہ کہ علم کے میدان میں اعلی کارکردگی کا حصول ایک قابل فخر بات ہے۔ والدین کے لیے اولادکے اعلی تعلیمی اعزاز حاصل کرنے سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ علم کا حصول کہیں سے بھی ہو اچھا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ آپ کو چین جانا پڑے اور ظاہر ہے آج سے چودہ سو سال پہلے۔ یہ بھی فرمایا کہ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل مومن کی یہ میراث مغربی اقوام نے اپنا لی ہے۔ اسی بات کو اقبال نے ان الفاظ میں حسرت سے بیان کیا تھا۔۔ مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا لہذا علم تو کہیں سے بھی حاصل کرنا اچھی بات ہے۔ ایک مذہبی جماعت کے رہنما کے بیٹے کی کسی مغربی ملک سے پی ایچ ڈی پر وہ کیسے کمنٹس تھے جنہوں نے مجھے حسرت و ملال کی گھاٹی میں جا پھینکا،اس بات کی وضاحت کے لیے صرف دو تبصرے بطور نمونہ نقل کر رہا ہوں۔ ایک ناقد نے مذکورہ رہنما کے ایک بیان کا تراشہ شیئر کر دیا جس میں ان کا ارشاد تھا کہ "مغربی تعلیم ،سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی انسانیت کی فلاح کے بجائے مشکلات اور بربادی کا ذریعہ بن رہی ہے"۔ ایک طرف ان کے مغرب کی تعلیم کے بارے یہ خیالات اور دوسری طرف اپنے بیٹے کونہ صرف مغربی ملک کی یونورسٹی سے پی ایچ ڈی کروانا بلکہ اس پر اظہار مسرت و تفاخر کرنا ناقد کو پسند نہ آیا۔ دوسرے تبصرے میںمتذکرہ رہنما کوقلبی مبارکباددینے کے ساتھ ہی ان نوجوانوں کے والدین سے اظہار افسوس بھی کیا گیا جن کو جہاد کے نام پر افغانستان اور کشمیر میں لے جا کر شہادت کا موقع فراہم کروایا گیا۔یہ تبصرے پڑھنے کے دوران پچھلے دنوں ایک دوست کا ذاتی واقعہ یاد آ گیاکہ اس کے پیر صاحب کس طرح اس سے اس بات پر بہت ناراض ہوئے کہ اس نے اپنے بچوں کو مغربی یونورسٹیز سے گریجویشن کے لئے داخل کرو ایاہے اور متنبہ کیا کہ جو بچے ان یونورسٹیز میں جاتے ہیں ان کا دین اور ایمان برباد ہو جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جب اس کی بیٹی کو پیر صاحب کی اس ناراضگی کا علم ہوا تواس نے پوچھا ابو جی حضرت صاحب کے اپنے بچے تو مغربی ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا ایمان خطرے میں نہیں تو ہمارا کیسے ہے؟۔ حسرت و ملال کی اسی گھاٹی میں بیٹھے پھر میری نظر سے گزشتہ کئی دہائیاں گزر گئیںکہ کیسے کالجز اور یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم کے لیے بھجوائے گئے نوجوان مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی نما ئندہ طلبا تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ کوئی ان کو سوشلزم کا چورن بیچ کر اپنی طرف راغب کرتا رہا تو کوئی ان کو جمہوریت کے سنہرے باغ دکھا کر متوجہ کرتا ہے۔ کوئی جہاد کا جذبہ زندہ کر کے ان معصوم طلبہ کو جہادی بناتا رہا تو کوئی اسلامی انقلاب کے سہانے خواب دیکھا کر انقلابی بناتا رہا۔ آج سے کچھ برس قبل گورڈن کالج راولپنڈی میں منعقدہ ایک تقریب میں ایک طلبہ تنظیم کے رہنما کی وہ تقریر مجھے یاد آگئی جس نے مجھ سمیت ہال میں بیٹھے ہر نوجوان کو رلا دیا تھا کیونکہ اس نے تخلیق پاکستان کا نقشہ چند واقعات بیان کر کے ایسے کھینچا تھا کہ کوئی پتھر دل ہی اس پر چشم نم کئے بغیر رہ سکتا تھا۔ ہر سیاسی و مذہبی جماعت کی نظر ان نوجوانوں پر ہوتی ہے کیونکہ اس عمر میں ان کے جذبے سچے ہوتے ہیں، وہ مخلص ہوتے ہیں۔زندگی کی ذمہ داریوں سے ایک حد تک ابھی بے پرواہ ہوتے ہیں۔معاشی نا ہمواریوںپر دکھی ہوتے ہیں۔ حالات کو بدلنے کا نعرہ ان کو متوجہ کرتا ہے اور ان کی یہی کمزوری ان کو ان لیڈروں کی پرجوش تقریروں پر یقین کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ جن میں وہ غریبوں کے دن بدلنے کے عزم کا ارادہ کر رہے ہوتے یا اسلام کو دنیا بھر پر غالب کرنے کے لئے اپنے خون کے آخری قطرے تک غیر مصالحانہ جدو جہد کی قسمیں کھا رہے ہوتے ہیں- معصوم الذہن نوجوان ان کی تقریروں سے متاثر ہو کر دنیا بدلنے کے جذبے سے سرشار ہوجاتے ہیں، وہ وقت جو کلاس روم میں سبق پڑھنے کا ہوتا ہے وہ ان تنظیموں کی میٹنگز کی نذر ہوجاتا ہے۔ جو وقت لائبریریوں میں بیٹھ کر تحقیق کرنے کا ہوتا وہ سڑکوں پر ریلیوں اور جلوسوں میں صرف ہوجاتا ہے۔ حالانکہ دنیا کو بدلنے کے لئے پہلے دنیا میں کوئی مقام پیدا کرنا پڑتا ہے اور مقام کا حصول علم سے ممکن ہے یا معاش کی محنت سے- کسی کو ان لیڈروں سے شاید اتنا شکوہ نہ ہوتا اگر ان کی اپنی اولادیں بھی یہ ہی سب کچھ کر رہی ہوتییں لیکن ان کے اپنے بچے تو مغربی دنیا کی اعلی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لیتے رہیں اور عام لوگوں کے بچے ان کی جماعتوں کی طلبا تنظیموں کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنا مستقبل برباد کرتے رہیں تو پھر ان بچوں کے والدین سے اظہار ہمدردی پر کسی کا ناراض ہونا نہیں بنتا۔