بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک رزق حلال کماتے،کھاتے اور کھلاتے رہیں گے آپ حق وسچ کی بات کرتے رہیں گے اور تھوڑی سی اس عارضی دنیا اور زندگی میں کامیابی بھی حاصل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی شامل حال رہے گئی۔ جب یہ سب کچھ چھوڑ دیں گے تو آپ کی دنیا اور آخرت نہ صرف خراب اور برباد ہوگئی بلکہ آپ کی نسلیں بھی برباد ہو جائیں گئیں۔ حرام کھانے والی اولاد آپ کے لئے درد سر بھی بنے گئی اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرے گئی اگر آپ حلال کھانا چھوڑ دیں گے پھر آپ کو کوئی بات بْری نہیں لگے گئی۔ برطانیہ جیسے ملک میں جہاں ایک دیہاڑی دار مزدور اپنی فیملی کو باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا سہارا بن سکتا ہے وہاں کیا ضرورت ہے کسی کا سہولت کار بنا جائے یہی ناں تھوڑی دنیاوی مالی منفعت یا جھوٹی شہرت حاصل ہو ۔ میری طرح کے جو لوگ غریب پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ماں باپ نے انتہائی غربت میں بھی خود فاقے کاٹ کر ہماری پرورش کی ہمیں پڑھایا لکھایا اب تو ہماری کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ ہم کوئی ایسا کام بالکل نہ کریں جس سے ہمارے ماں باپ کو قبر میں عزاب ہو اور ہمارے اعمال سے ہمارے ملک پاکستان اور غریب لوگوں کا نقصان ہو جتنی اسلامی دینی تعلیمات میری سمجھ میں آتی ہیں اس کے مطابق جرم کرنے والا اس کی معاونت کرنے والا اور اس کی تشہیر یا پبلسٹی کرنے والا برابر کا گناہ گار ہے۔ صحافت بڑا ذمہ دار اور با عزت پیشہ ہے لیکن برطانیہ جیسے ملک میں بھی ہماری حرکات و سکنات نے اس پیشے کو بدنام اور داغدار کردیا ہے اور ہماری یہاں سیاست نے صحافت کو تقسیم اور انتشارکی گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے جس سے یہ پیشہ بدنام ہو رہا ہے ۔ سلام ہو جنرل مشرف کی عظمت کو کہ وہ ہر صحافی کے تلخ سے تلخ سوال کا بھی جراتمندی سے جواب دیتے تھے میں بھارتی وزیراعظم نریند رمودی کی بھی تعریف کرتا ہوں جس نے ویمبلے سٹیڈیم میں جاکر اپنی عوام سے خطاب کیا حالانکہ اس کے خلاف ہزاروں لوگوں نے یہاں ہر جگہ مظاہرے کئے لیکن وہ صحیح یا غلط اپنا موقف بیان کرتا رہا میں اس کو لیڈر نہیں مانتا جو بند کمروں میں دو چار صحافی بْلاوا کر من پسند تقریر جھاڑتا ہے۔ سچائی اور صاف گوئی ہو تو عوام کے ساتھ جینے والے کو لیڈر کہتے ہیں آپ اقتدار کے ایوانوں میں مہم جوئی کرکے غریب لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر میڈیا ہاوسزز خرید کر یا ساز باز کرکے پہنچ سکتے ہیں لیکن آپ لیڈر نہیں ہوسکتے ۔ لیڈر تو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں پاکستان کی سیاست پاکستان میں ہونی چاہیئے یا پھر اگر اپنے بیانیے کی پزیرائی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا یہ پرکھنا چاہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں میں آپ کتنے مقبول ہیں تو یہاں برمنگھم، لوٹن بریڈفورڈ مانچسٹر یا برطانیہ کے کسی شہر میں عوام میں جائیں اورپاکستان کے بلا تنخواہ سفیروں کی بات سْنیں اور اپنا سچا یا جھوٹا بیانیہ پاکستانیوں کو سنائیں ۔ سیلاب زدگان کے لئے دو چار ارب روپیہ آپ سب سے پہلے دیں گے پاکستان کی مدد کریں گے جس ملک نے آپ کو اتنا کچھ دیا آپ بھی کچھ واپس اس ملک کو لوٹائیں گئے آپ اگر یہاں بھی عوام میں جانے سے گھبراتے ہیں تو یہاں پاکستانی نژاد ممبران آف پارلیمنٹ سے ایک نشست کرلیں یہاں پاکستانی کونسلروں کو اکٹھا کرکے ایک ملاقات کر لیں ان سے سن لیں پاکستانی یہاں آپ کی سیاست کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ بائوجی دل لوگوں کے دل جیتیں دوست بنائیں دشمن نہیں تاکہ ہمیشہ کے لئے عزت پائیں یہ کیا کررہے ہیں۔ جرنلسٹس کتنے آپ ملازم رکھیں گئے آپ تو پاکستانیوں کو یہاں بھی تقسیم کر رہے ہیں ان کے غم و غصے میں اضافہ کررہے ہیں۔لوگ آپ کے ایون فیلڈ ہاؤس کے باہر تماشا لگائیں باہم دست و گریبان ہوں گالم گلوچ ہو ایون فیلڈ ہائوس کے باہر ہلڑ بازی مظاہرے کرنے والے اوورسیز پاکستانی ہیں۔ ضروری نہیں یہ سارے عمران خان کے سپورٹر ہوں ان مظاہروں اور گالم گلوچ سے میرے ملک پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے اور پاکستانیوں کو لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہم نفرت کی علامت بن رہے ہیں لیکن قصور آپ کا ہے آپ نے لوگوں پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں ایک بد اعتمادی کا ماحول ہے میاں صاحب آپ کے ساتھ 1999ء میں زیادتی ہوئی تھی تو پھر آپ معاہدہ کرکے ملک سے باہر نہ جاتے مقابلہ کرتے سات سال تک آپ عوام سے دور رہے پھر جنرل مشرف سے آپ نے این آر او لیا اقتدار دوبارہ مل گیا تو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بنایا پھر آپ انٹرنیشنل پانامہ سیکنڈل کی زد میں آئے اور نااہل ہوئے تو آپ نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف ایک بیانیہ بنایا ووٹ کو عزت دو ۔ اسی پر قائم رہتے لیکن شہبازشریف نے مفاہمت کے ساتھ آپ کا مزاحمت کا بیانیہ دفن کردیا اپ کو آن بورڈ رکھا گیا آپ نے این آر او 2 لے لیا ابھی آپ پھر اپنے مزاحمتی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں لیکن بہت دیر ہوچکی ہے آپ کی اصل لڑائی اداروں کے ساتھ ہے جو آپ پاکستان جاکر لڑیں برطانیہ سے صرف ایک اچھی بات لے کر جائیں اپنے اداروں کو سیاست سے پاک کریں ادارے آزاد اور مضبوط کریں۔ اداروں کواپنی مرضی سے نہ چلائیں عمران خان کو برا بھلا کہنے سے عوام آپ کے ساتھ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی عوام آپ کی اس طرح بات سنیں گے طریقہ کار ہی غلط ہے۔ آخر میں اتنا کہ قوم منافقانہ اور مخصامانہ سیاست کی متحمل نہیں ہوسکتی چونکہ ہمارے سامنے کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے دنیا کے ممالک ایک نئی صف بندی کررہے ہیں اور ہماری ضرورت یہ ہے کہ ایک مضبوط اور قابل قبول بیانیہ تشکیل پائے جس سے ہم اپنی اقتصادی حالت مستحکم کر سکیں اس کے لئے سیاسی اور معاشی استحکام انتہائی ضروری ہے عوامی مینڈیٹ سے تشکیل پانے والی قومی حکومت ان مسائل کو حل کرسکتی ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے : افلاک میں گھاڑیں گئے ہم اپنے ملک کا پرچم ڈھیلی زرا یہ ذہن کی زنجیر کیجئے