عام صورت حال میں، کوئی احمق ہی اس پارٹی کو ووٹ دے گا جو واضح طور پر ووٹرز کو بتائے کہ اگر وہ جیت گئی تو وہ پارلیمنٹ میں نہیں جائیگی۔ لیکن غیر معمولی حالات میں، لوگ غیر متوقع طور پر عجیب فیصلے کر سکتے ہیں۔ غور کیجئے،اتوار 16 اکتوبر کو پاکستانیوں نے ایک ایسا عجوبہ دیکھا جو ملک کی انتخابی تاریخ میں اور نہ ہی شاید عالمی سطح پر کبھی نہیں ہوا۔ ٹی وی اینکرز کا شکریہ کہ انہوں نے اس غیر معمولی صورتحال کی تردید کرکے ناظرین کو حیرت کے اثرات سے محروم کردیا۔ میرا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی صلاحیت ہے کہ میں اتوار کے عجوبے کے بارے میں ہائپ پیدا کروں، لیکن آنے والے دنوں میں اس کی وجوہات اور ممکنہ اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ آئیے پہلے اس عجیب واقعہ کے تصور پر بات کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر کائی اینڈرسن بارکر نے اپنی کتاب ’عجائب کا سیاسی نظریہ: جدید سیاسی فکر میں ترتیب کے احساسات‘ میں وضاحت کی ہے کہ ' تھامس ہابز، ایمانوئل کانٹ، حنہ آرینٹ اور خاص طور پر کارل مارکس کی تحریریں مناسب تصور پر زیر موضوع بحث کو ظاہر کرتی ہیں اور جب جادو کے احساس کا لاکھوں افراد بیک وقت تجربہ کرتے ہیں تو سیاسی حیرت کا امکان ظاہر ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی مبصرین جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں عمران خان میں کچھ اچھا نہیں لگتا، اب کھلے عام تسلیم کرتے ہیں کہ خان کی مقبولیت میں اپریل سے اضافہ ہوا ہے اور اگر جلد انتخابات ہوئے تو وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم، ان میں سے کچھ اب بھی سمجھتے ہیں کہ قبل از وقت عام انتخابات سے ملک میں کوئی سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ وہ شاید چاہتے ہیں کہ حکمران اتحاد اس حکمرانی سے لطف اندوز ہوتا رہے کیونکہ عدم استحکام نے ان کے غلط کاموں پرکافی حد تک پردہ ڈال دیا ہے۔ نیب قوانین میں ترامیم، منی لانڈرنگ کیسز میں بریت وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ 26اکتوبرا توارکے اس عجوبے کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان میں عام طور پر ضمنی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے۔ اتوار بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ لیکن ووٹروں کی ایک بڑی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی نے آٹھ نشستیں حاصل کیں، جبکہ 13 پارٹیوںبشمول دو پارٹیوں کا حکمران اتحاد صرف تین نشستیں جیت سکا۔ 2018ء کے عام انتخابات سے لے کر اب تک پولنگ ووٹوں میں پی ٹی آئی کو 14 فیصد کا فائدہ ہوا، جب کہ حکمران اتحاد نے اپنا حصہ 52 فیصد کھو دیا۔ مزید یہ کہ عمران خان نے سات حلقوں سے الیکشن لڑا تھا اور چھ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ رائے دہندگان نے یہ جاننے کے باوجود بھی کہ عمران خان کو صرف ایک نشست کے علاوہ باقی جیتی ہو ئی نشتیں خالی کرنا ہوں گی،لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ حکمران اتحاد کے عمائدین اور ماہرین نے بہت مشاورت اور حکمران جماعتوں کی ماضی کی مشترکہ کارکردگی کے تجزیے کے بعد ضمنی انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں کا انتخاب کیا تھا۔ تخمینہ بھی تیار کیا ہے۔ الیکشن 2018ء کے ای سی پی کے ڈیٹا سیٹس سے پتہ چلتا ہے کہ قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں سے ایک کو چھوڑ کر حکمران جماعتوں کا مشترکہ ووٹ بینک پی ٹی آئی سے کہیں زیادہ تھا۔ مثال کے طور پر، 2018ء میں PDM پارٹیوں نے PTI سے 233,300 زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ نتائج کا حلقہ وار تجزیہ بھی اس رجحان کو ظاہر کرتا ہے لیکن ووٹرز نے حکمرانوں کے منصوبے کوناکام کر کے انہیں شکست کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیںکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ارکان اسمبلی کے آٹھ استعفوں کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے کیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ خان صاحب پارلیمنٹ میںنہیں بیٹھیں گے اور ایک بار پھر ضمنی انتخاب ہو سکتا ہے، ووٹرز نے پی ٹی آئی کا انتخاب کیا۔ تو آئیے انتخابی تاریخ کے اس انوکھے عجوبے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس وائی قریشی، سابق چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا نے اس راقم کو اپنی کتاب اس وقت تحفے میں دی جب وہ 2018ء میں یہاں کامن ویلتھ الیکشن آبزرویشن مشن کے رکن کے طور پر موجودآئے تھے۔ ان کی کتاب کا عنوان بہت دلچسپ ہے 'An Undocumented Wonder - The Making of Great Indian Elections ڈاکٹر قریشی نے واضح طور پر ہندوستانی انتخابات کے درجنوں عجائبات کا ذکر کیا ہے جن میں ووٹ خریدنے کے 40 ذرائع بھی شامل ہیں۔ جہاں تک پری پول دھاندلی کا تعلق ہے ہم بہت سے معاملات پر بھارت سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ لیکن، ہندوستان کے الیکشن کمیشن کے برعکس جس کی دیانتداری، غیر جانبداری اور افادیت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے، ہم ان صفتوں کو اپنے الیکشن کمشن سے منسوب نہیں کر سکتے۔ ای سی پی کے حالیہ فیصلے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اس کو نہ صرف ہمارے بیلٹ کے تقدس بلکہ اس کی اپنی غیر جانبداری اور آزادی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے،موثر پیشہ ور افسران کی بھی کمی ہے۔بعض سیاسی گروپوں اور انتخابی عہدیداروں کے درمیان مبینہ تعاون کے باوجود، 16 اکتوبر کو خان کی جیت اس حیرت کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔ ضمنی انتخابات کے تناظر میں اصل مسئلہ جس پر بحث ہونی چاہئے تھی وہ یہ ہے کہ رائے دہندگان نے ایسی پارٹی کو ووٹ کیوں دیا جس نے عوامی طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ جیت کر بھی پارلیمنٹ میں نہیں جائے گی۔ میرے نزدیک ووٹرز نے اس ڈرامے کو مسترد کر دیا جو بدعنوان اشرافیہ استحصال کی صورت میں عوام سے روا رکھے ہوئے ہے۔ خان کو فاتح بنا کر انہوں نے نہ صرف ان کے ایجنڈے کے لیے ووٹ دیا بلکہ ان کی حکمت عملی کی بھرپور حمایت کی۔ تاہم، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر کسی مقصد یا پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی، کچھ لوگوں نے خوراک، بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکمران اتحاد کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کرنے کے لیے ووٹ دیا ہوگا۔ کچھ لوگوں نے مسٹر خان سے وفاداری اور پی ٹی آئی کے نظریے کی وجہ سے ووٹ دیا ہوگا۔ کچھ لوگوں نے قبل از وقت عام انتخابات کے مسٹر خان کے مطالبے کو مضبوط کرنے کا سوچا ہوگااور بہت سے لوگوں نے ماضی میں اس کی جماعتوں کی خراب کارکردگی کی وجہ سے حکمران اتحاد کے خلاف ووٹ دیا ہو گا۔پتن نے پولنگ سے دو دن قبل ایک رائے شماری کرائی۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا آپ قبل از وقت عام انتخابات کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت؟ 11 حلقوںمیں تقریباً دو تہائی جواب دہندگان نے قبل از وقت عام انتخابات کی حمایت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے کہا کہ وہ حکمران جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے، ان میں سے 52 فیصد قبل از وقت انتخابات کے حق میں بھی نظر آئے۔ اس لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت قبل از وقت انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے اور شاید وہ سمجھتی ہے کہ قبل از وقت انتخابات سیاسی استحکام لائیں گے جس کے نتیجے میں معاشی ترقی ہوگی۔ دیوار پر لکھی تحریر پڑھیں۔ اگر ہم قبل از وقت انتخابات کرانے میں ناکام رہے تو ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔