کیا آپ تصور کر سکتے ہیںکہ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں انصاف کی ایک ’قیمت‘ ہے، جو ادا کرتا ہے وہ اُسے حاصل کر لیتا ہے،۔جو ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے ،وہ انصاف سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ نہیں یقین تو آپ خود چیک کر لیں کہ شاہزیب قتل کیس میں طاقتور نے سارا نظام ہی خرید لیااور مجرم باعزت بری ہوگئے، ناظم جوکھیو قتل کیس میں بھی طاقتوروں نے ایک ساتھ ہی سارا نظام تلپٹ کر دیا اوربااثر مجرمان رہا بھی ہوگئے۔ کوئٹہ میں مجید اچکزئی کیس کا تو سب کو علم ہوگاجس میں رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی نے ٹریفک انسپکٹر عطاء اللہ کو روند ڈالا تھا، لیکن موصوف بھی رہا ہوگئے۔ سانحہ ساہیوال کو کون بھلا سکتا ہے؟ پھر سانحہ ماڈل ٹائون سے کون واقف نہیں، اُس کے بھی تمام ملزمان کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ پھر اسامہ ستی کیس میں بھی کسی ملزم کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی ، حد تو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے شرجیل میمن کے کمرے سے جب وہ دوران قید ہسپتال داخل تھے، شراب کی بوتلیں پکڑیں تو کچھ ہی دیر بعد وہ شہد کی بوتلوں میں تبدیل ہوگئیں! پھر رائو انوار کو آج تک کون بھول سکتا ہے، جس پر 4سو سے زائد افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارنے کا الزام ہے مگر وہ آج بھی شایان شان گھوم پھر رہا ہے۔ اور پھر دور نہ جائیں ارشد شریف کی ہی بات کر لیں، اُس کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، اُس کا تصور کرکے ہی روح کانپ جا تی ہے۔ لیکن یہ رول آف لاء کا معاملہ ہی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ ابھی تک ہم یہ پتہ نہیں لگا سکے کہ ارشد شریف پاکستان سے کیوں گیا؟ کس چیز اور خوف نے اُنہیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا؟ یقینا اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹھیک کام کرتے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں تھی کہ اُن کی جان بچ سکتی تھی! لیکن ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں ’’قانون‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں، اسی لیے تو دنیا ہمیں 192ممالک کی فہرست میں 138ویں نمبر پر رکھتی ہے۔ اور ہمارے بارے میں سوچتی ہے کہ یہاں ہر چیز کا ایک ’’ریٹ‘‘ مختص ہے ۔اور حد تو یہ ہے کہ ہم اس سیکٹر میں Improvementکے لیے کوئی کام بھی نہیں کرتے۔ اور نہلے پر دہلا یہ کہ ہم مزید کوتاہیاں کرتے اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ جیسے گزشتہ روز قانون کی نظر میں ایک مجرم کو ’’سفارتی پاسپورٹ‘‘ جاری کردیا ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا جیسے بقول بہادر شاہ ظفر اک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادماں کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں جی ہاں ! میں بات کر رہا ہوں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جنہیں ہماری عدالتوں نے سیاست کرنے پر تاحیات پابندی لگا رکھی ہے، اُنہیں حکومت نے ڈپلومیٹک پاسپورٹ جا ری کر دیا ہے۔حالانکہ یہ پاسپورٹ اُن شخصیات کو جاری کیا جاتا ہے جو سرکار ی امور سرانجام دینے کی غرض سے بیرون ملک سفر کریں۔ اور بادی النظر میں اگر سابق وزیر اعظم کا پاکستان آنا طے پا گیا ہے تو اُنہیں عام پاسپورٹ ہی جاری کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا ۔ لیکن اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم معذرت کے ساتھ ’’پاکستانی ‘‘ کیسے کہلوا سکتے ہیں؟ مطلب! یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہاں ہر معاملے میں قانون کے ساتھ مذاق کیوں کیا جاتا ہے؟ایک ایسا شخص جسے سپریم کورٹ نے ڈس کوالیفائی کر رکھا ہے، جسے سپریم کورٹ نے کوئی بھی سیاسی عہدہ لینے سے منع کیا ہوا ہے، ایک ایسا شخص جس پر گزشتہ کئی برسوںسے مقدمات چل رہے ہیں اور اُن پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں تو ایسے شخص کو سفارتی پاسپورٹ جاری کرنا ایسا ہی ہے کہ ہم دنیا کی نظروں میں مزید گر جائیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کمبوڈیا اس حوالے سے بدنام ترین ملک ہے ، یقین مانیں وہاں ایک بہت بڑے بزنس مین ایسے بھی تھے، جن کا نام ٹَینگ بْن ما تھا۔ انہیں ان کے ملک کی حکومت نے سفارتی پاسپورٹ جاری کر رکھا تھا حالانکہ ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات تھے اور امریکا میں تو ان کے داخلے پر بھی پابندی تھی۔لیکن وہ سفارتی پاسپورٹ لے کر دنیا بھر کا سفر کرتے تھے۔ مغربی ممالک میں تو ٹینگ بن ما کو ایک لطیفے کے طور پر یاد رکھا جاتا تھا۔ پھر اسی طرح قازقستان کے ایک جوڑے کو پاسپورٹ ویزہ جاری کیا گیا تھا ، وہ دونوں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں رہ رہے تھے، لیکن ان دونوں پر ان کے آبائی ملک قازقستان میں 300 ملین ڈالر (263 ملین یورو) کے برابر مالیاتی خوردبرد کے الزامات بھی تھے اور ان پر باقاعدہ فرد جرم بھی عائد کی جا چکی تھی۔پھر اسی طرح ایران نے 100سے زائد ایسی کاروباری شخصیات کو پاسپورٹ جاری کیے تھے ، ان میں سے کئی ایرانی باشندے ایسے بھی تھے جو مبینہ طور پر تہران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران پر عائد کردہ امریکی پابندیوں سے بچنے کے ایک بڑے اسکینڈل میں ملوث تھے۔ بہرکیف غلط یا غیر سفارتی استعمال کے لیے سفارتی پاسپورٹوں کا اجراء زیادہ تر ایسے ممالک میں دیکھنے میں آتا ہے،جہاں بہت زیادہ کرپشن پائی جاتی ہے۔ ایسے پاسپورٹوں کے حامل غیر مستحق افراد بعد ازاں انہیں منی لانڈرنگ، ناجائز مراعات اور منشیات سے لے کر ہتھیاروں تک کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔لہٰذاہمیں بطور پاکستانی ایسے رویوں پر خود ہی غور کرنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، کیا کرناچاہ رہے ہیں اور اس ملک کے ساتھ کیا کرتے آئے ہیں۔متعلقہ اداروں کو ا س کا سختی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے اوریہ Gestureدینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ایسا بالکل نہیں ہوتا کہ کسی کو اثرو رسوخ کی بنیاد پر سفارتی پاسپورٹ جاری کیا جائے ۔ کیوں کہ رول آف لاء ہے تو ہم ہیں، اگر یہ نہیں ہے تو ہمیں صومالیہ، روانڈا، شام یا سوڈان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا! اللہ اس ملک پر رحم فرمائے۔ (آمین)