نو دسمبر کرپشن کی روک تھام کا عالمی دن تھا‘اس موقع پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ایک سروے جاری کیا ‘اس سروے میں پاکستانیوں نے چار محکموں پر نہ صرف شدید تنقید کی بلکہ ان محکموں پہ عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔اس سروے کی رپورٹ انتہائی افسوس ناک بھی ہے اور دلچسپ بھی،یعنی وہ محکمے جن سے ہم سب کو واسطہ پڑتا ہے‘وہ کرپشن میں سرفہرست کھڑے ہیں‘ایسا کیوں ہے؟شاید ہم نے آج تک سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ہم ہر سال کرپشن کے عالمی دن کے موقع پر کرپشن رپورٹ بھی جاری کرتے ہیں اور کرپٹ افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں مگر جنھوں نے کرپٹ افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا ہے‘عوام کا ان پہ بھی اعتمادنہیں۔انسان جائے تو کدھر جائے‘کسے اپنی بپتا سنائے اور کس سے انصاف مانگے‘ہم سب عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہیں۔آواز اٹھاتے ہیں تو غدار قرارپاتے ہیں اور خاموش ہوتے ہیں تو منافق۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے تازہ ترین عوامی سروے کے مطابق پولیس کا محکمہ کرپشن میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ ٹینڈرنگ کا شعبہ دوسرے‘عدلیہ تیسرے اور شعبہ تعلیم کرپشن میں چوتھے نمبر پرہے۔ تازہ ترین سروے میں تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کی جانب سے اس قدر غم و غصے کا اظہارکیا گیا اور اس بے بس عوام نے مذکورہ چاروں محکموں سے درجنوں تلخ سوالات کیے‘عوام کا کہنا ہے کہ جرائم کی روک تھام میں پولیس مکمل طور پر ناکام ہو چکی‘صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عوام نے اسٹریٹ کرائم سمیت درجنوں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح میں اضافے کی وجہ محکمہ پولیس میں موجود چند کالی بھیڑوں کو قرار دیا۔عوام کا کہنا تھا کہ اگر پولیس اپنے کام میں ایمان داری کا مظاہرہ کرے اور ’چائے پانی‘پر زور دینے کی بجائے جرائم پیشہ گروہوں کو پکڑنے پر زور دے تو کئی اہم جرائم روکے جا سکتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے‘جو صورت حال ایک زمانے میں کراچی کی تھی‘وہی گھمبیرصورت حال پاکستان کے دیگر شہروں کی بھی ہو چکی۔محکمہ پولیس کی کارگردی دیکھنی ہو تو چھوٹے شہروں میں موجود تھانوں کا دورہ کریں‘وہ موجود فائلز اٹھا کر دیکھیں اور سائلین سے ملیں‘آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ پولیس سے مایوس عوام ‘اب تھانوں کچہریوں میں جانے کی بجائے اپنی عدالت خودلگا رہے ہیں‘آج ہمیں گلی گلی پستول کی عدالت مل رہی ہے‘خودکشی کے واقعات میں شدید اضافہ‘چوری سے لے ڈکیتی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات‘اس سب کے پیچھے کون ہے؟ ۔ پولیس پہلے نمبر ہے تو ٹینڈرنگ کے شعبے میں کرپشن کی کہانیاں بھی ہوش ربا ہے‘کوئی ایسا ٹھیکہ نہیں جس میں’ زیرو سے ہیرو‘تک اپنا حصہ نہ رکھتا ہو۔ہمارے ہاں تو ٹینڈر اس وقت تک پاس ہی نہیں ہوتے جب تک ضلعی بیوروکریسی سے صوبائی بیوروکریسی تک اپنا’چائے پانی‘الگ نہ کرلے،یہی وجہ ہے کہ اس عوامی سروے میں ٹینڈرنگ کے شعبے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔تیسرے نمبر پر انصاف کے شعبے پر عدم اعتماد کا ظہار دیکھنے میں آیا ‘ہماری معزز عدالتیں انصاف کے معاملے میں ہمیشہ سست روی کا شکار رہیں۔کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ سائل انصاف کا دروازہ بجاتے بجاتے خدا کی عدالت میں پیش ہو گیا اور ایک آدھ کیسز تو ایسے بھی سامنے آئے ہماری معزز عدالت نے فیصلہ سنایا‘ ملزم بری کر دیا جائے ‘ملزم کی تلاش پر پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنے برس قبل ہی جیل سے قبر میں منتقل ہو چکا یعنی ہماری عدالتوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ جیل جانے والا لحد میں بھی جا چکا۔ایک طرف انصاف کا یہ معیار کہ ہماری معزز عدلیہ انصاف کے معاملے میں دنیابھر میں ایک سو چوبیسویں نمبر پر ہے جبکہ ججز صاحبان کی مراعات میں ہم دنیا کے ٹاپ ٹین ملکوں میں آتے ہیں۔ہمارا عدالتی نظام اس قدر تکلیف دہ کیوں ہے اور ہم نے اس سسٹم کو ایڈوانس بنانے میں آج تک کتنا کردار ادا کیا ہے‘عوام کو ساری تفصیل بتانی چاہیے تاکہ اس اہم ترین شعبے پہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ کرپشن کی رپورٹ میں شعبہ تعلیم کو چوتھے نمبر پر دیکھا گیا یعنی وہ اہم ترین شعبہ جس پر قوموں کا مستقبل کھڑا ہوتا ہے‘وہ بھی کرپٹ نکلا۔آپ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ہمارا تعلیم کا میدان بھی بنجر نکلا‘ہم نہ تو بڑا استاد پیدا کر رہے ہیں اور نہ ہی قابل فخر طالب علم،جس ملک میں اساتذہ کرام کی بھرتیاں بھی چور دروازوں سے کی جاتی ہوں‘جہاں محکمہ تعلیم کا کلرک بھی پیسے دے کر بھرتی ہوتا ہو‘جہاں استاد بھی ترقی پانے کے لیے منت ترلے اور خوشامدیں کرتا ہو‘وہاں کوئی بڑا ذہن کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ایسی قوموں میں بنجر ذہن ہی جم لیتے ہیں اور ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم اتنے برسوں میں کوئی عظیم سائنس دان‘کوئی عظیم مذہبی اسکالر‘کوئی عظیم مصور‘کوئی بڑا فنکار اور کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں کر سکے ۔ہم صدیوں سے اس ملک کو پستی کی جانب جاتا دیکھ رہے ہیں اور اس کی واضح مثال تازہ عوامی سروے ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا تازہ سروے پڑھ کر بالکل بھی حیران نہیں ہوتی کیونکہ یہ سروے پچھلے کئی سالو ں سے ایسا ہی آ رہا ہے۔پچھلے کئی سالوں سے مذکورہ شعبے اسی طرح تنقید کی زد میں ہیں اور اس دفعہ نیب سمیت انسداد کرپشن کے اداروں پر بھی عوام نے سوال اٹھائے‘اس سروے میں عوام کی جانب سے یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ اگر سیاست دانوں کے اثاثے ظاہر کیے جا سکتے ہیں تو پاکستان کے دیگر اداروں میں موجود اہم شخصیات کو اپنے اثاثے ظاہر کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ قارئین!ایسے ہی درجنوں سوالات اس سروے میں پڑھے جا سکتے ہیں،اسی لیے میں نے شروع میں کہا کہ ایسا کھلا اور تلخ سروے شاید اس سے پہلے کبھی سامنے نہ آیا ہو۔ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا‘سیاست دان جو ہمیشہ ’چور دروازوں‘ سے بچ نکلتے ہیں‘انھیں اس عوامی سروے کو سنجیدہ لینا ہوگا۔پولیس‘ٹنڈرنگ ‘عدلیہ اور تعلیم،ہمیں ان چاروں شعبوں کو شفاف بنانا ہوگا۔کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار تعلیم‘صحت اور انصاف کے شعبوں پر ہوتا ہے اور افسوس ہمارے یہ تینوں شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے‘ہمیں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ورنہ خدا نخواستہ ’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔