معزز قارئین!۔ شریعت کے مطابق مسلمان ، ایّام ِحج کے علاوہ سال بھر میں کسی بھی دِن عُمرہ کرسکتے ہیں ۔ بعض لوگ عُمرہ کو حج اصغر بھی کہتے ہیں ۔ ماہِ رمضان میں تو عُمرہ کا ثواب بہت زیادہ ملتا ہے ، اِس لئے ہر مُلک کے مسلمان ماہِ رمضان میں عُمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان میں بھی ۔ مجھے بھی زندگی میں صِرف ایک بار ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے ، اُن کے ساتھ عُمرہ ادا کرنے کا موقع ملااور خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت بھی حاصل ہوئی( ظاہر ہے کہ سرکاری خرچ پر؟) ۔ 1437ھ میں یکم رمضان ،7 جون 2016ء کو تھا۔ 11 جون (5 رمضان ) کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ بار بار عُمرہ ۔ اِفادَیت کم / ختم؟‘‘۔ میرے اِس کالم کی بنیاد ( اُن دِنوں ) سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبداُلعزیز الشیخ صاحب کا وہ بیان (فتویٰ) تھا جو، 10 جون کو ہمارے قومی اخبارات میں شائع ہُوا تھا ۔ اپنے بیان ( فتوے) میں مفتی اعظم سعودی عرب نے فرمایا تھا کہ ’’ عُمرہ کی بار بار ادائیگی سے اُس کی افادیت ( اِفادت ) کم یا ختم ہونے کا گمان ( شک ، وہم ، خیال ) ہوسکتا ہے کیونکہ متعدد بار عُمرہ کی ادائیگی دوسرے مسلمانوں کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں ‘‘۔ 10 جون 2016ء ہی کو قومی اخبارات میں دو خبریں اور شائع ہُوئی تھیں ۔ پہلی یہ کہ ’’ چیئرمین کشمیر کمیٹی ، ’’امیر جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ) عُمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب پہنچ چکے ہیں ، اُن کی "Family"اور اُن کا ترجمان (Interpreter) بھی اُن کے ساتھ ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ فضل اُلرحمن صاحب کے ترجمان ؔ کے بارے میں پڑھ کر مَیں حیران ہُوا ۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ’’ مولانا ؔکہلانے والے مفتی محمود (مرحوم) کے فرزند کیا سعودی عرب میں اپنے میزبانوں سے عربی زبان میں گفتگو کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں ہیں ؟‘‘۔ دوسری خبر یہ تھی کہ ’’ جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ ( فضل اُلرحمن گروپ) کے ایک راہنما ( ڈپٹی چیئرمین سینٹ ) عبدالغفور حیدری صاحب بھی عُمرہ کی ادائیگی کے لئے اپنی "Family"کے ساتھ سعودی عرب پہنچ گئے ہیں ‘‘ لیکن، خبر میں حیدری صاحب کے ترجمان ؔ کا تذکرہ نہیں تھا۔ مَیں نے سوچا کہ ’’ شاید موصوف عربی زبان بولنے پر قدرت رکھتے ہیں ؟‘‘۔ معزز قارئین! ۔ جب کبھی مجھے فضل اُلرحمن صاحب اور عبدالغفور حیدری صاحب کا نام اِکٹھا لکھا دِکھائی دے تو، مجھے (مرحوم) امیر جماعت ِ اسلامی ، قاضی حسین احمد بھی یاد آ جاتے ہیں؟۔ واقعہ یوں ہے کہ ’’ 6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب ( سرکاری ملازم) مولوی عبداُلعزیز نے ’’امیراُلمومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے اور نائب خطیب (سرکاری ملازم) اپنے چھوٹے بھائی غازی عبداُلرشید کو ’’ نائبِ امیراُلمومنین‘‘ مقرر کر کے سارے پاکستان میں اپنی شریعت نافذ اور لال مسجد میں شرعی عدالت قائم کر کے ( صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کی ) وفاقی حکومت کو "Warning"دے دِی تھی کہ ’’اگر اُس نے نفاذِ شریعت میں رُکاوٹ ڈالنے ، لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ ،طلبہ اور طالبات کے خلاف کسی کارروائی کی کوشش کی تو پورے پاکستان میں ’’فدائی ( دہشت گردانہ ) حملے ‘‘ ہوں گے ! ‘‘۔ اُن دِنوں حکومت میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے 12 اپریل 2017ء کو میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مولوی عبد اُلعزیز اور غازی عبداُلرشید کے میرے اور اتحادی جماعتوں کے مذاکرات اِس لئے ناکام ہُوئے کہ ، دونوں بھائی اِس بات پر اڑے ہُوئے تھے کہ صدر جنرل پرویز مشرف ملک میں (اُن کی خواہش کے مطابق ) نظامِ شریعت نافذ کردیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ لال مسجد کے خطیب اور نائب خطیب کی ہٹ دھرمی کے باعث پاک فوج کو 3 جولائی 2007ء کو "Operation Sunrise" کرنا پڑا۔ مولوی عبداُلعزیز برقع پہن کر فرار ہوگئے تھے ۔ غازی عبداُلرشید اور اُن کی والدہ سمیت لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں پناہ گزین 103 دہشت گرد ہلاک ہُوئے۔ پاک فوج کے بھی 11 افسران اور جوان شہید ہُوئے۔ 12 جولائی 2007ء کو اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے (اُن دِنوں )متحدہ مجلس عمل کے صدر ، قاضی حسین احمد ، سیکرٹری جنرل فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کی جمعیت عُلماء اسلام کے عبداُلغفور حیدری صاحب نے کہا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید ؔ نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ قاضی حسین احمد صاحب تو ، خیر اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن، پاک فوج کے شہیدوں کو ، تسلیم نہ کرنے والے فضل اُلرحمن صاحب اور عبداُلغفور حیدری صاحب کی ابھی تک کسی نے گرفت نہیں کی؟۔ 27مئی 2017ء کو یکم رمضان سے لے کر 17مئی 2018ء کے یکم رمضان اور وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دَور میں مذہبی / سیاسی جماعتوں کے کون کون سے اکابرین اپنی ،اپنی "Families"اور "Interpreters"کو ساتھ لے کر سرکاری خرچ پر عُمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے گئے ؟… کوئی بتلائے کہ ہم ، بتلائیں کیا؟ معزز قارئین!۔ 18 اگست 2018ء کو جنابِ عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا۔ 22 اگست کو ’’ سرکاری خرچ پر ، حُجّاج ۔ کون کون ، خوش نصیب ؟‘‘ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہُوا۔ جس پر مَیں نے 10 جون 2016ء کے (اُن دِنوں) سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبداُلعزیز الشیخ کے اُس بیان کا حوالہ سے جنابِ وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ ’’ یکم جون 2018ء سے 18 اگست 2018ء تک نگران وزیراعظم (سابق چیف جسٹس ، ناصر اُلملک صاحب ) کے دَور میں کم از کم اِتنا تو پتہ چلا ہی لیں کہ ’’ سرکاری خرچ پر کِس کِس مذہبی / سیاسی شخصیت نے عُمرہ یا حج کی سعادت حاصل کی؟ ‘‘ ۔ صدر عارف اُلرحمن علوی اور وزیراعظم عمران خان کے دَور میں 7 مئی 2019ء کو ماہِ رمضان شروع ہو چکا تھا ۔ماہِ رمضان کے 28یا 29دِنوں میںاور عید اُلفطر کے بعد بھی کس کس مذہبی / سیاسی شخصیت نے سرکاری خرچ پر عُمرہ ( حجِ اصغر) کی سعادت حاصل کی؟۔ اُسے صِیغہ راز میں نہ رکھا جائے تو،بہتر ہوگا۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے تو، عید اُلاضحی کی تاریخ بھی 12 اگست مقرر کردِی ہے۔ کیا عید اُلاضحی منانے کے لئے بھی مذہبی / سیاسی شخصیات کو سرکاری خرچ پر سعودی عرب بھجوایا جائے گا ؟۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور اُلحق قادری صاحب (غوث اُلاعظم حضرت شیخ عبداُلقادر جیلانی / گیلانی ؒکے سلسلہ ٔ قادریہ ) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ موصوف ماہِ رمضان میں سعودی عرب میں تھے یا پاکستان میں ؟۔ مجھے نہیں معلوم۔ البتہ مَیں قارئین! کی خدمت میں حضرت غوث اُلاعظم ؒ کا یہ شعر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہُوں ۔ فرماتے ہیں کہ … تُرا یک حج بود سالے دلے دَر کُوئے یار ما! گزارد ہر زماں حجے کسے کو عاشق زار ست! یعنی۔ ’’ اے بندے ! تیرے لئے تو سال میں صِرف ایک حج ہوتا ہے لیکن، جو عاشق زؔار ہے اُس کے لئے تو ہمارے یار کی گلی میں ہر لمحہ حج ہوتا رہتا ہے ‘‘۔ قادریہ سلسلہ کے پنجابی کے شاعر حضرت سُلطان باھوؒ (1630ئ۔ 1691ئ) نے فرمایا کہ … مُرشد دا ، دِیدار اے باھُو ، جیویں لَکھ کروڑاں حجّاں ھُو! قادریہ سلسلہ ہی کے بابا بُلھّے شاہ (1680ئ۔ 1757ئ) نے فرمایا کہ … حاجی لوک مکّے نُوں جاندے، تے میرا رانجھا ماہی مکّہ! چیئرمین رویت ہلال کمیٹی ، مفتی منیب اُلرحمن ، مسجد قاسم علی خان کے امام مفتی شہاب اُلدّین پوپل زؔئی کے علاوہ پاکستان میں ہزاروں مفتیان ؔہوں گے ؟۔ میرا تو ، اُن سے یہی ایک سوال ہے کہ ’’ کیا سرکاری خرچ پر عُمرہ کرنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے ۔ اُستاد شاعر سحر لکھنویؔ نے نہ جانے کِس "Mood" میں کہا تھا کہ … چاہِ زقن میں ، لاکھوں ، یوسفؔ گِرے پڑے ہیں! اچھا ثواب ؔلُوٹا ، جس نے ،کنواںؔ بنایا !