Common frontend top

’’علی ؑکی بیٹی سلام تم پر !‘‘

پیر 14 جنوری 2019ء





پرسوں (5 جمادی الاوّل کو) پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ملکوں میں ، مدینۃ اُلعلم ؐ کی نواسی اور بنت ِ باب اُلعلم ؑ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت منایا گیا۔ سانحہ کربلا کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے حُسنیت ؑکے پرچم صداقت کو بلند رکھا ۔10 محرم الحرام 61 ھ کو حضرت امام حُسین ؑ ، اُن کے ساتھیوں اور عقیدت مندوں کی شہادت کے بعد حضرت زینب نے ہی شہدائے کربلا کی بیوائوں اور یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ کوفہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تقریریں اُس کے بعد یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خُطبے اور برجستہ جوابات سے متعلق مُؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ گویا حضرت علی ؑ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارتی کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیرؔ سے تھااور اُنہوں نے ’’ نائب رسول ؐ الہند ، خواجہ غریب نواز، حضرت معین اُلدّین چشتی اجمیریؒ کے دست ِ مبارک پر اِسلام قبول کِیا تھا۔آپؒ نے ہندوستان میں اِسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے سانحہ کربلا کو ذریعہ بنایا اور فرمایا کہ … ’’ شاہ ہست حُسینؑ، پادشاہ ہست حُسین ؑ! دِیں ہست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؑ! سَرداد ، نَداد دست ، در دستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسین ؑ! یعنی۔ ’’ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسینؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔مَیں نے جب ہوش سنبھالا تو میرے والدین نے مجھے اہلِ بیت ؑ اور آئمہ اطہار ؑسے عقیدت کا سبق پڑھانا شروع کردِیا تھا۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا تو، پہلی نعت اردو میں لکھی جو، ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ پھر مَیں نے اردو اور پنجابی میں نعت گوئی اور منقبت گوئی کا سلسلہ جاری رکھا، ابھی تک جاری ہے ۔ فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزندِ اوّل عطا فرمایا تو مَیں نے اپنے والد صاحب ’’تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ‘‘ رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اُس کا نام ذوالفقار علی رکھا۔ میرے پانچوں بیٹوں کے نام حضرت علی ؑ کے نام پر ہیں اور پانچوں پوتوں کے نام بھی حضرت علی ؑ کے نام پر۔ 1973ء میں اپنے دو دوستوں اور ستمبر 1991ء میں صدر ِ پاکستان غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ جمہوریہ تُرکیہ کے دورے پر گیا تو استنبول کے "Topkapi Museum"میں حضور اکرم ؐ اور خُلفائے راشدینؓ کے تبرکات کے ساتھ ذوالفقار علی ؑ کی بھی زیارت کی۔اُسی دَورے میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ اِس سے قبل 1981ء کے اوائل میں خواجہ غریب نوازؒ خواب میں ، لاہور میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔میرے کمرے میں خوشبوئیں پھیل گئیں ۔ ستمبر 1983ء میں ، مَیں خواب میں دلدل میں دھنسا جا رہا تھا کہ اچانک میرے مُنہ سے ’’یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا۔ مجھے ایسا محسوس ہُوا کہ گویا مجھے کسی غیبی طاقت نے دلدل سے باہر نکال دِیا اور کہا کہ ’’ تم پر مولا مُشکل کُشا حضرت علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے! ‘‘۔ پھر مَیں نے مولا علی ؑ کی منقبت لِکھی ۔اُس کا مطلع اور ایک بند پیش خدمت ہے … نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑ مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں ،لُوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں ،خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! معزز قارئین!۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دَور میں میرا (حقیقی معنوں میں درویش) ’’ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے تعلق قائم ہُوا ، جنہوں نے وزیراعظم کی درخواست پر وزیراعظم ہائوس جا کر اُن سے ملاقات کرنے سے معذرت کرلی تھی اور جب اچانک وزیراعظم صاحبہ اپنے چند وزیروں کے ساتھ علی مسجد راولپنڈی تشریف لے گئیں تو ، آغا جی کے نائبین نے اُن کے ساتھی وزیروں کو بتایا کہ ’’ آغاجی خواتین سے ملاقات نہیں کرتے ، وزیراعظم صاحبہ مسجد سے ملحقہ آغا جی کے گھر اُن کی اہلیہ سے ملاقات کرلیں۔ آغا جی اُن کے لئے دُعا کردیں گے!‘‘۔ 2007ء کے آغاز میں آغا جی نے ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سیکرٹری اطلاعات قمر زیدی اور سیّد رضا کاظمی کے ساتھ ، دانشور، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کو اسلام آباد میں میرے گھر بھجوایا ۔ مَیں نے آغا جی فرمائش پر عباس کاظمی صاحب کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ ( جنّت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھ دِیا !۔ کتاب میں میرے پیش لفظ کے نیچے کاظمی صاحب نے لکھا کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنّت سے ہے لیکن آپ اہلِ بیت ؑ اور آئمہ اطہار ؑ کا بہت احترام کرتے ہیں !‘‘۔میری گذشتہ 20 سال میں آغا جی سے صرف تین ملاقاتیں ہوئی ہیں، اِس لئے کہ مجھے میرے والد صاحب نے ہدایت کی تھی کہ ’’ درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ! ‘‘۔ آخری ملاقات 19 جنوری 2016ء کو ہوئی ، میرا داماد معظم ریاض چودھری میرے ساتھ تھا ۔ وہاں سیّد قمر زیدی، سیّد عباس کاظمی ، کرنل (ر) سخاوت علی کاظمی ،شہاب مہدی رضوی اور آغا جی کے دونوں قانون دان بیٹے سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور سیّد علی رُوح العباس موسوی بھی تھے۔ آغا جی نے بتایا کہ ’’ مَیں چاہتا ہُوں کہ میرے دونوں بیٹے وکیل کی حیثیت سے علاّمہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کی طرح قوم کی خدمت کریں!‘‘۔ آغا حامد علی شاہ موسوی کی ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ایران کی حکومت سے امداد قبول نہیں کرتی۔ اُن کا مسلک ہے کہ ’’ کسی بھی مسلک کی مذہبی جماعت کو سیاسی جماعت کے طور پر کام نہیں کرنا چاہیے! ‘‘۔ معزز قارئین!۔ کئی سال ہُوئے ،میرے دو لہوری دوست ۔ سیّد یوسف جعفری اور سیّد شاہد رشید میرے گھر پر تھے ۔ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ۔ ’’ برادر اثر چوہان !۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’ سانحہ ٔ کربلا میں حضرت امام حسینؑ کے چند عقیدت مند ’’ہندو براہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے؟ ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جی ہاں!۔ مَیں نے یہ واقعہ کئی بار پڑھا ہے‘‘ لیکن مجھے دُکھ ہے کہ۔ اُس دَور میں ہندوستان کا کوئی راجپوت ؔ۔ امامِ عالی مقام ؑ کے ساتھ کیوں شہید نہیں ہُوا؟۔ پھر مَیں نے پنجابی زبان میں … ’’ جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا‘‘ کے عنوان سے امام حُسین ؑکے حضور ہدیہ عقیدت پیش کِیا ۔ اُس کے دو بند حاضر ہیں … تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا ! پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا! فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا! غازی عباسؑ دا ، بازُو بَن دا! حُر ؑدے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! 4 فروری 2018ء کومیرے کالم میں میری حسرت بھری منقبت ’’ جے کربل وِچ ّ مَیں وِی ہوندا ‘‘ کے عنوان سے بھی شامل ہُوئی تو ،آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی کی طرف سے مجھے سیّد عباس کاظمی نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ آغا جی کا اپنے تمام رُفقاء کے یہی فرمان / پیغام ہے کہ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو حسینی راجپوتؔ کہا جائے!‘‘تومعزز قارئین!۔ آپ آج سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کے حضور میں اِس ’’حسینی راجپوت ‘‘ کی منقبت کے تین بند ملاحظہ فرمائیں جو 2007ء میں لکھی تھی … خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر! رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر! بتُولؑ کا نُورِ تام، تُم پر! علیؓ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… مُلوکِیت جیسے ، غم کدہ، تھی! یزِیدیت ، زلزلہ زدہ ، تھی! ہے ختم، زورِ کلام تُم پر! علیؓ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے! وہاں جو ہوتے ،نِثار ہوتے! نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر! علیؓ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! 

 

 



آپ کیلئے تجویز کردہ خبریں










اہم خبریں