بجلی مہنگی کرنے کا ایک فیصلہ ہفتہ بھر کے لئے موخر ہوا ہے، ایک نافذ بھی ہوگیا ہے۔ موخر کئے جانے والے فیصلے کے تحت بجلی دو روپے نہیں، چار روپے یونٹ تک مہنگی کی جائے گی اور جو نافذ ہوا ہے، وہ اگست میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے طور پر کیا گیا ہے اور فی یونٹ قیمت لگ بھگ ڈیڑھ روپے بڑھائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ کل 25 ستمبر کو ہوا لیکن وصولی اس کی پہلے ہی ہو گئی ہے۔ یعنی اگست کے بلوں میں جو 25 ستمبر سے دو تین روز پہلے جاری ہوئے۔ پچھلے پانچ برس سے ہر گرمیوں میں جن لوگوں کو اوسطاً بارہ ہزا روپے کا بل آ رہا تھا، اس بار ساڑھے سترہ ہزار اور اٹھارہ ہزار آیا ہے۔ کیا ڈیڑھ روپے یونٹ اضافے سے چھ ہزار روپے بل کے بڑھ جاتے ہیں؟ اور فیول ایڈجسٹمنٹ تیل مہنگا ہونے پر ہوتا ہے، پچھلے مہینے تو کوئی تیل مہنگا نہیں ہوا۔ پھر اس اضافے کو کوئی اور نام نہیں دینا چاہیے؟ نہیں، ڈکیتی تو بالکل نہیں کہہ سکتے، آرٹیکل 6 لگ سکتا ہے۔ کیا ’’چندہ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ ٭٭٭٭٭ جتنی اضافی رقم دینا پڑی گویا ماہانہ تنخواہ یا نئی بندھی آمدنی میں اتنی کم ہو گئی۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران جتنی اور جن چیزوں کی قیمت بڑھی ہے، کوئی ماہر معاشیات اس کا جدول بنائیں، تبھی پتہ چلے گا کہ اوسطاً آمدنی والوں کی ماہانہ تنخواہ میں کتنی کمی ہوئی؟ چالیس فیصد؟ یا اس سے کچھ کم؟ ٭٭٭٭٭ دو روز پہلے دو ٹکیہ صابن اور ایک ٹیوب ٹوتھ پیسٹ کی خریدی۔ پتہ چلا دام بڑھ گئے ہیں۔کس مد میں؟ جواب ملا منی بجٹ میں لگژری کاسمیٹکس پر ٹیکس لگے ہیں۔ پوچھا کیا ٹوتھ پیسٹ بھی لگژری آئٹم میں ہے، بولے، بالکل۔ پوچھا پھر نان لگژری آئٹم کون سی ہے۔ بتایا کہ مسواک۔ چاہے کیکر کی لے لو یا نیم کی، اس کے دام نہیں بڑھے، ہاں، زیتون کی مسواک کچھ مہنگی ہو گئی ہے۔ بہت سی چیزیں تو اس لیے مہنگی ہو گئی ہیں کہ وہ لگژری آئٹمز ہیں اور بہت سی دوسری اس لیے مہنگی کی گئی ہیں کہ وہ لگژری آئٹمز نہیں ہیں۔ مثئلاً آٹا، چینی، گھی وغیرہ۔ ٹماٹر اور دوسری ترکاری بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ ان کے بارے میں واضح نہیں ہے کہ وہ لگژری آئٹمز ہیں یا نان لگژری۔ گھی مل کے مالکان نے قیمت میں مزید پانچ روپے کلو بڑھانے کی ’’دھمکی‘‘ دی ہے۔ ’’گیس ایڈجسمنٹ‘‘ کی مد میں۔ ٭٭٭٭٭ ٹیکس امپورٹ کئے جانے والے دودھ پر لگا ہے لیکن مقامی ڈیری فارمز والوں نے اپنے پیکٹ مہنگے کر دیئے ہیں اور ایک صاحب ڈرا رہے تھے کہ یہ تو مہنگائی کا ’’تعارفی پیکیج‘‘ ہے۔ ریلے کے بعد ریلا تو گندم اور دوسری اجناس کی نئی فصل پر آئے گا جو بہت زیادہ مہنگی کھاد اور گیس وغیرہ میں اضافے کا نتیجہ ہوں گے۔ سرکار نے عندیہ دیا ہے کہ کسانوں پر آبیانے کی شرح بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ گویا صادق و امین نے جب کہا تھا کہ میں تمہیں رلائوں گا، تو یہ خالی خولی دھمکی نہیں تھی، ایک صادق و امین کا سچا وعدہ تھا جو پوری دیانت داری سے پورا کیا جارہا ہے اور پورا کیا جاتا رہے گا جب تک ان کی یا قوم کی مدت پوری نہیں ہو جاتی۔ ٭٭٭٭٭ ’’چندہ وصولی‘‘ بھی اسی آپریشن ضرب گریہ کا حصہ ہے۔ نئی نئی اقسام چندے کی سامنے آ رہی ہیں جن کا کبھی پہلے کسی نے سنا تھا نہ سوچا۔ تنخواہوں سے ’’چندہ‘‘ وصول کیا جارہا ہے، بن بتائے، بن پوچھے۔ خدمات پر چندہ ٹیکس لگ رہا ہے، ریل کے ٹکٹوں پر لگ رہا ہے اور اب ایک بالکل ہی انوکھی قسم سامنے آئی ہے۔ ’’چندہ چالان‘‘۔ ہر چندکہ چندہ چالان اس کا سرکاری نام نہیں ہے لیکن ٹریفک اہلکار جس شرح اور رفتار سے متحرک ہوگئے ہیں، وہ چندہ ڈاکٹرائن ہی کا کرشمہ لگتی ہے۔ چالان کی رقم اچانک ہی کئی گنا بڑھا دی گئی ہے اور لاہور میں ایک ایک دن میں 16، 16ہزار موٹرسائیکل سواروں کے چالان کئے جا رہے ہیں۔ اکثر حیران تھے کہ انہوں نے تو کوئی قاعدہ نہیں توڑا تھا۔ ایک نوجوان نے جب تکرار کی، حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا تو خوش اخلاق وارڈن نے کہا، میاں کوئی بات نہیں، قاعدہ نہیں توڑا تو کیا ہوا، چندہ سمجھ کے بھر دو۔ ایک افسر نے جو واقف کار ہے۔ بتایا کہ ہمیں حکم ہے، ہر صورت اتنے چالان کرنے ہیں۔ کوئی قاعدہ توڑتا ہے یا نہیں توڑتا ہے، اس سے کچھ غرض نہیں، جو ہدف دیا ہے، اسے ہر صورت پورا کرنا ہے۔ خان صاحب، یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ آپ رلائیں گے۔ لیکن اتنا رلائیں گے، اس کا اندازہ نہیں تھا، وہ تو اب ہورہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ کچھ عرصہ پہلے ایک اینکر پرسن نے خان صاحب پر دوستانہ قسم کی تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ارے، وہ تو بادشاہ آدمی ہیں۔ وقت نے بتایا کہ وہ غلط کہتے تھے۔ خان صاحب بادشاہ آدمی نہیں ہیں، شہنشاہ آدمی ہیں اور چیزوں کو چھوڑو، صرف ان کا پروٹوکول دیکھ لو۔ جب بھی لاہور آتے ہیں مال سے کہاں تک ٹریفک کا کنبھ میلہ لگ جاتا ہے۔ کوئی سڑک بحیرہ منجمد شمالی بن جاتی ہے تو کوئی بحیرہ منجمد جنوبی۔ کچھ پر غیر اعلانیہ کرفیو لگ جاتا ہے۔ کنبھ میلہ وقفے وقفے سے لگا رہتا ہے۔ ایسے میلے نوازشریف یا یوسف گیلاانی نے کب لگائے تھے؟ لوگوں کو لگتا ہے اس سے پہلے کوئی وزیراعظم تھا ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ شہنشاہ معظم ریاست انصافستان پچھلے دنوں ایک ٹی وی چینل کے مالک پر بہت خوش تھے۔ گزشتہ چار برسوں میں اس چینل نے شہنشاہ کی شہنشاہی لانے کے لیے بہت قابل قدر خدمات انجام دی تھیں۔ چینل کے مالک شہنشاہ کے حضور پیش ہوئے اور اپنی خدمات گنوائیں۔ شہنشاہ نے خدمات سنیں اور خوش ہوئے۔ فرمایا، مانگو، کیا مانگتے ہو۔ چینل مالک نے کہا، حضور فیض گنجور، ریڈیو انصافستان کی دارالخلافے والی بلڈنگ عنایت ہو جائے تو میں آپ کو، میرے بیوی بچے آپ کے بیوی بچوں کو عمر بھر دعائیں دیں گے۔ شہنشاہ انصافستان نے فرمایا ’’دی‘‘۔ فوراً ہی فرمان شاہی پر عمل شروع ہوا۔ اربوں روپے مالیت کی تو محض زمین تھی، پھر اس پر اربوں روپے کی عمارت۔ آلو چاٹ کے بھائو ’’لیز‘‘ پر دینے کے کاغذات تیار ہوئے لیکن بیج میں ایک غیر متوقع سا ’’رولا‘‘ پڑ گیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ عنایت خسروانہ کی کڑھی میں مکھی پڑ گئی ہے۔ کوئی بات نہیں۔ معاملہ کھٹائی میں ہے تو کتنے دن کے لیے۔ آخر مکھی نکال پھینکی جائے گی۔ لیز ہو کر رہے گی، آلو چاٹ کے بھائو نہ سہی، حلوہ پوری کے بھائو ہی سہی۔ جب کہہ دیا کہ دی، تو بس دی۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ’’ہم‘‘ نے تو کبھی 200 ارب ڈالر باہر سے لانے کی بات نہیں کی۔ درست فرماتے ہیں اگر ’’ہم‘‘ سے مراد وہ اکیلے ہیں۔ لیکن اگر یہ ’’ہم‘‘ میں خان صاحب اور تحریک کے دوسرے صغاروکبار بھی شامل ہیں تو پھر یہ اعلان بریت درست نہیں ہے۔ 200 ارب ڈالر باہر سے لانے کی بات خان صاحب نے ایک ہزار بار سے زیادہ اور دو ہزار سے کم کی گنتی میں کی۔ یکے از صغار نے تو ٹائم ٹیبل بھی دے دیا تھا۔ فرمایا تھا، خان صاحب جس روز حلف لیں گے، اس سے اگلے روز یہ 200 ارب لوٹے ہوئے ڈالر پاکستان لے کرآئیں گے۔ سو ارب ڈالر دنیا کے منہ پر ماریں گے کہ یہ لو اپنا قرضہ اور باقی سو ارب ڈالر عوام کی فلاح پر خرچ کریں گے۔ اب وزیر خزانہ کے اعلان بریت سے پتہ چلا کہ لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر کا باہر کہیں سراغ ہی نہیں ہے۔ ایسے اعلان تو بہت سے ہوتے رہے، جو اعلان نہیں ہوا وہ یہ تھا کہ خان صاحب حلف اٹھانے کے اگلے روز ’’چندہ‘‘ نافذ کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ چلئے، یوں اب ان 200 ارب ڈالر کا ذکر بھی خیال و خواب کا قصہ بن گیا۔ کچھ اور باتیں بھی اب حذف ہو چکی ہیں۔ مثلاً چوری کئے گئے تین ہزار کروڑ کی رقم کاذکر بھی اب کہیں سننے میں نہیں آتا۔ ایک صاحب کلبھوشن یادو نام کے تھے جن کے ذکر سے صبح شروع ہوتی تھی اور جن کے ذکر سے رات آباد ہوتی تھی، کوئی بھولے سے بھی ان کا نام نہیں لیتا۔ اور تو اور چیئرمین نیب بھی ان اربوں ڈالر کا ذکر نہیں کرتے جو نواشریف نے بذریعہ منی آرڈر بھارت ارسال کئے تھے۔ کتنے حروف تھے جو حکایت بن گئے۔