بھارتی وزیراعظم نریندر مودی3جنوری اتوار کو جب سری نگرپہنچے توپہلے ہی کی طرح اہل کشمیرکی طرف سے ان کااستقبال ہڑتال اور احتجاجی مظاہروںسے ہوا۔دوسری طرف کشمیری مجاہدین کی طرف مودی کے فوجی حصارپرکسی بھی امکانی حملے کے پیش نظرمودی کے دورے کے دوران سارا سرینگر مکمل طور فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکاتھا۔ زمین سے فضاء حتیٰ کہ جھیل ڈل کے پانیوں تک سخت ترین سیکورٹی کے پہرے بٹھادیئے گئے تھے۔ مودی کے دورہ کشمیرکامقصدکئی جھوٹے وعدوں سے اہل کشمیر کو جُل دینا تھا لیکن مودی اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہاہے وہ زمانہ گیاکہ جب قومیں دھوکہ کھا جاتی تھیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈیڑھ کروڑکشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے تعین کا مسئلہ بتاکر استصواب کے ذریعے اپنی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل چاہتے ہیںاورانکا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اور ان وعدوں کا وفا چاہتے ہیں جو مودی کے پیشروئوں نے دہلی میں نہیں بلکہ کشمیر آکر سرینگر کے تاریخی لالچوک میں کشمیر کے عوام سے کئے ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ جب تک نہ مسئلہ کشمیر کی حقیقت تسلیم کرلی جائے تب تک اٹھایاجانے والا کوئی بھی عارضی اقدام نتیجہ خیز ثابت ہوگااورنہ ہی مصنوعی اقدامات۔ بھارت کے حکمران سنجیدہ ہیں تو پہلے جموںوکشمیر سے فوجی انخلاء کے ساتھ ساتھ تمام کالے قوانین ،(AFSPAاورPSA)کے خاتمے کا عمل شروع کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جہاں مسئلہ کشمیر سے جڑے، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان ایک بامعنی (Process) شروع ہو تب جاکریہ عمل آگے بڑھے گا۔ وقت آگیا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے عارضی اور مصنوعی نوعیت کے اقدامات کے بجائے اس مسئلہ کو کشمیری عوام کے جذبا ت اور احساسات کے مطابق حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس امرپرغوروفکر کی ضرورت ہے کہ جن عظیم مقاصدکے لئے کشمیری عوام عظیم قربانیوںپیش کرکے اپنے مشن کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں اور کل کی طرح آج بھی کشمیر کے گبرووجوان اپنا گھربار، عزیز و اقرباء اورکیریئر چھوڑ کرکازکے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہوئے جڑے ہوئے ہیں وہ اس بات کا غمازہے کہ بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر کی سیاسی حیثیت اور حساسیت کو سمجھ کر اس مسئلہ کے ضمن میں عارضی نوعیت کے اقدامات اٹھانے کے بجائے اس کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے بامعنی اقدامات اٹھائے جائیں۔ واضح رہے کہ اپنے پانچ سالہ دوراقتدارکے دوران نریندر مودی کئی مرتبہ کشمیرکادورہ کرچکاہے اور کئی تعمیری اوربجلی پروجیکٹس کا سنگ بنیادرکھ دیا ہے، لیکن ہرباروہ کشمیری نوجوانوں کونمرودی لہجے میں پیغام دیتارہا ہے کہ انہیں ہتھیارڈالناپڑیں گے بصور ت دیگر انہیں تاریک مستقبل کا سامنا رہے گا۔اہل کشمیر یہ سوال اٹھارہے ہیںکہ کشمیرپرجارحانہ طور پر قابض ہوکرکچھ پروجیکٹس بناکربھارت نے کشمیریوں پرکوئی احسان کیاتوپھرانگریزسے آزادی کی جنگ کیوں لڑی،اورپھربرطانوی سامراج کے خلاف(QUIT INDIA) کی تحریک کیوں چلائی ، تمہیں پھرانگریزکارہین منت رہناچاہئے تھااوراسکے سامنے گردن خم کرکے اطاعت شعاربن جاناچاہئے تھا۔19مئی ہفتے کی تقریرکالب ولباب بھی یہی تھا۔ سچائی یہ ہے کہ انگریزسامراج نے ہندوستان پرغاصبانہ قبضہ کیاتھااوراس کے باوجودکہ برطانیہ نے ہندوستان میں بہت سارے تعلیمی اورتعمیری کام کئے ہندوستان کے عوام اپناحق آزادی حاصل کرنے کے لئے اس وقت تک مسلسل برسرجدوجہدرہے جب تک برطانوی راج کاخاتمہ کرکے ہندوستان کوبرطانوی سامراج سے نجات اور آزادی نہ دلادی گئی۔علیٰ ھذالقیاس اہل کشمیردلیل، برہان اورتاریخی حوالوں کے ساتھ کشمیرکیس لڑرہے ہیں اوران تمام مبرہن اوردوٹوک حوالہ جات کے مطابق ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ اورحل طلب مسئلہ ہے اورریاست کے عوام کوگذشتہ سات عشروں سے ان کاپیدائشی حق ،حق خودارادیت نہیں ملا۔جب تک ریاست جموں وکشمیرکے عوام کوان کابنیادی اورپیدائشی حق نہیں مل جاتا۔ تب تک کشمیرکاعارضی انتظام چلانے والا بھارت بھی اس امرکے مکلف ہے کہ وہ جبریت کے حالات میں جینے والے کشمیریوں کوتعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرے اورریاست میں بنیادی اسٹرکچرکی تعمیرکرے۔اس امرکوثابت کرنے لئے ہمیں متحدہ ہندوستان پرانگریزکی سامراجیت کی تاریخ کھنگال لینی پڑیگی تاکہ نریندرمودیوں کویہ بات سمجھائی جاسکے کہ اگربرطانوی سامراج نے اپنے دورسامراجیت میں متحدہ ہندوستان کے عوام کے لئے تعلیم اورروزگارکے مواقع فراہم کئے اوربنیادی اسٹریکچر تعمیر کیا تو اگر بھارت بھی کشمیریوں کی سہولیات کے لئے کوئی چیزبناکردیتاہے تواخلاقی طور پر وہ اس کا پابند ہے۔ اس لئے کشمیری عوام کومرعوب نہیں کیا جا سکتاکہ ہم ہیں جواپناپیٹ کرتمہارے لئے انفاسٹریچکر بنارہے ہیں۔ اس سارے منظرنامے کوسامنے رکھتے ہوئے اگر وزیراعظم نریندر مودی کا پیمانہ لگادیا جائے تو برطانوی سامراج کو ایسی تعمیر و ترقی کے بعد بھارت کو کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑنا چاہئے تھا ،نا ہی گاندھی،نہرو، سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ اور آزاد کو برطانیہ سے آزادی مانگنی چاہئے تھی اور اپنی آزادی کیلئے تحریک چلانی چاہئے تھی۔کشمیری مسلمانوںکا مودی کو وہی جواب ہے جو گاندھی نے ایک برطانوی آفیسر جس نے ان سے کچھ اسی قسم کا سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ بھارت آزاد ہوجائے گا تو کیونکر زندہ رہے گا کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک کمزور و ناتوان اور نالائق آزادی کو طاقت ور، لائق اور مال دار غلامی اور بیرونی تسلط پر ترجیح دیں گے۔ ایسے لوگ کہ جن کی تربیت ایک ایسی ذہنیت اور نظریے کے تحت ہوئی ہے کہ جس نے بھارت کی قومی تحریک آزادی کے دوران آزادی پسندوں کے بجائے برطانوی سامراج کا ساتھ دیا تھا کیونکر اور کیسے آزادی اور عزت کے اقدار اور آزادی پسندوں کی سوچ و معیار کو سمجھ سکتے ہیں۔ نریندرمودی کو طاقت کی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے بلکہ تدبر وتفکر اور ملائمت سے ان کے ا صل جذبات کو سمجھنے کی کوشش کر نی چاہیے ۔ کشمیریوںنے سول کرفیو اور عام ہڑتال مناکر مودی جی کو بزبان حال بتلادیاکہ کشمیر گجرات یااترپردیش نہیں بلکہ یہ کشمیرہے اورایک متنازعہ اوریہ حل طلب مسئلہ ہے ،اس لئے سہولیات کی نمائشیں کر کے کشمیری عوام کے دل جیت نہیں سکتا۔کشمیری عوام رائے شماری اورحق خودارادیت کے بغیرکسی لولی پاپ پرہرگزراضی نہیں۔