’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ علامہ محمد اسد کی شہرئہ آفاق کتاب ہے ،جس کو علمی ،ادبی اور تہذیبی حوالے سے معتبر مقام میسر ہے ۔ علامہ صاحب صرف یہودی النسل ہی نہ تھے، بلکہ یہودیوں میں دینی اہمیت کے حامل …ایک اعلیٰ خاندان کے فرد بھی تھے ،وہ جولائی1900ء میں ، یوکرین کے شہر ’’لیویو‘‘ میں پیدا ہوئے ،ان کا نام ’’لیوپولڈویز‘‘ تھا ۔26سال کی عمر میں برلن کے سب وے پر ، اَپر کلاس میں سفر کے دوران ، اپنے اردگرد بیٹھے ---بظاہر آسودہ اور خوشحال… مگر مضطرب اوراُداس ہمسفروں کی کیفیت نے لیو پولڈویز کو گہری سوچ اور غوروفکر میں مبتلا کردیا ، وہ ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ میں لکھتے ہیں، ہم تمام لوگ وہ تھے، جن کے پاس دنیا کے نام پر سب کچھ تھا ۔کھانے کے لیے رنگ برنگی خوراکیں …پہننے کے لیے نو بنو پوشاکیں …سواری کے لیے کار اور طیارے اور سفر کے لیے ریل اور سیارے …مگر ہمارے پاس اگر کوئی چیز کم تھی …تو سچی خوشی اور دل کا اطمینان …وہ لکھتے ہیں مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سبھی لوگ عذاب جہنم میں مبتلا ہیں ۔ وہ اسی اداسی اور گہری سوچ میں غرقاب اپنے گھر پہنچے ،اوراپنے زیر مطالعہ قرآن پاک کو سنبھال کررکھنے کی غرض سے اُٹھایا، جو اُن کے مطالعہ کی میز پر تھا ، اتفاق سے اُس وقت قرآن پاک کا جو ورق ان کے سامنے تھا، اس میںیہ آیات ثبت تھیں : اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُo حَتّّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرُo یعنی’’ تمہیں حصولِ کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا ،یہاں تک کہ تم قبروںتک جا پہنچے ۔‘‘ وہ کہتے ہیں ،میںلرز گیا ، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ پڑھو…کیا یہ سب کچھ وہی نہیں ہے …جس کے مناظر ہم نے سفر کے دوران ملاحظہ کئے ----؟ یہودیوں کے اس ’’ رَبِی‘‘ یعنی عالم دین کی قسمت بدل گئی اوروہ برلن کی مسجد کے امام کے ہاتھ پر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے ،اور پھر محمداسد سے موسوم ہو کر، بیسیویں صدی میں اُمّتِ مسلمہ کے علمی اُفق پر ایک تابناک علمی ستارے کے طور پرضوفشاں ہوئے ۔ یروشلم میں اپنے چچا کے ہاں قیام کے دوران انہوں نے یہودیو ں کے طرزِ عمل اور فلسطین میںایک ’’یہودی ریاست‘‘ کے تصّور کا تنقیدی جائزہ لیا اور اس منصوبہ کو نہایت غیر منطقی اور ظالمانہ قرار دیا ،تاہم مذہبی بنیادوں پر یہودی ریاست کے مخالف محمداسد نے ، برصغیر میں اسلامی ریاست کے خواب کو پسند کیا ۔پاکستان بننے پر انہیں پاکستانی شہریت عطاہوئی ، اور ’’پاکستان محکمہ اسلامی تعمیرِ نو‘‘کے سربراہ مقرر ہوئے ۔ "The Road to Macca" میں وہ سارے تصورات و نظریات موجود ہیں ،جن کو اساس اور بنیاد بنا کر اس خطّے کو ’’ریاستِ مدینہ ‘‘ میں ڈھالا جاسکے ۔ مغرب کی تعقل پسند ی اور اندازِ حیات سے بیگانگی اور اسلام اور اسوئہ رسول ﷺ کے لیے ایک گہری پسندیدگی و مضبوط وابستگی اور دین اسلام کی دائمی صداقتوں کی خوشبوا ن کی اس کتاب میں نہایت مؤثر پیرائے میں نظر آتی ہے اور یہی وزیراعظم پاکستان کا بیانیہ ہے ۔بہر حال … اس وقت ’’روڈ ٹومکہ ‘‘سے ہماری مرادعلامہ محمد اسد کی کتاب یاان کا شخصی خاکہ نہ ہے بلکہ …اس سے مراد سعودی حکومت اور بالخصوص شہزادہ محمدبن سلیمان کا وہ اہم منصوبہ ہے ،جس کے تحت پاکستانی حجاج کی امیگریشن ، پاکستانی ایئر پورٹس پر ہی ہوا کرے گی ،جس کا اعلان وزیر اعظم پاکستان کی خصوصی درخواست پر ، 18فروری2019ء کو اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر سعودی ولی عہد نے کیا تھا ،جس پر پاکستانی حاجیوںکوبھی ’’روڈ ٹومکہ‘‘پروگرام کے تحت خصوصی حج سہولتوں سے مستفیدہونے کا موقع میسر آ گیاہے۔ اس سے پہلے ملائیشا ،انڈونیشا اور تیونس اس خصوصی سہولت سے استفادہ کررہے ہیں ۔ ’’روڈ ٹو مکہ ‘‘پراجیکٹ کے تحت ،پاکستانی حجاج کی کسٹم چیکنگ اور امیگریشن پاکستان ہی میں ہو جائے گی ، جس کے لیے قبل ازیں جدہ ایئر پورٹ اور حج ٹرمینل پر پاکستانی حجاج کو بہت زیادہ دشواری کا سامنا اور لمبی قطاروں اورانتظار کی صعوبت سے گزرنا پڑتا تھا، پاکستان اور سعودی عرب دوستی اور اسلامی بھائی چارے کے جس لازوال رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، اس کو سعودی حکومت کا یہ خصوصی پراجیکٹ مزید پختہ کرے گا۔ ’’روڈ ٹو مکہ ‘‘ پراجیکٹ کے تحت ابتدائی طور پر اسلام آباداور کراچی ایئر پورٹس پر سپیشل کائونٹرز کی تنصیب کے ساتھ ہی آزمائشی منصوبہ کاآغاز، دو د ن پہلے اسلام آباد سے ہوچکا ہے ۔ سعودی عرب کی ایک نہایت مستعد امیگریشن ٹیم نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے فرائض سنبھال لیے ہیں ۔ امیگریشن کے بعد پاکستانی حاجیوں کا سامان سعودی ایئر پورٹ سے براہِ راست ان کی رہائش گاہ میں پہنچا یا جائے گا۔گذشتہ ہفتے سعودی ڈی جی امیگریشن میجر جنرل سلمان الیحی کی قیادت میں 14رکنی وفد نے ’’روڈ ٹو مکہ ‘‘پراجیکٹ پر تفصیلی بریفنگ دی، جس میں وفاقی وزارتِ مذہبی امور ،وزارتِ خارجہ ،سول ایوی ایشن ،انٹی نار کوٹیکس، کسٹم ، ایف آئی اے ،امیگریشن اور ایئر لائنز کے نمائندے بھی شامل تھے۔ اس موقع پر مذکورہ پراجیکٹ کے مختلف پہلوئوں پر سوال وجواب کا اہتمام بھی ہوا۔ سرکاری سکیم کے تحت اس سال ایک لاکھ 23ہزار 316عازمین ،حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کریں گے ۔اس سال( 2019ء ) کی تیسری قرعہ اندازی گذشتہ ہفتے پایۂ تکمیل کوپہنچی ۔جس کے تحت 6ہزار 316مزید پاکستانیو ں کو اس سرکاری سکیم سے استفاد ہ کاموقع میسر آسکے گا۔ سعودی عرب میں حج انتظامات کومعیاری بنانے کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزاد پیر نور الحق قادری ذاتی طور پر امور کو مانیٹر کررہے ہیں ، جبکہ وزیر اعظم پاکستان حج آپریشن 2019ء میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔اس سال وزیر اعظم کی درخواست پر پاکستان کے لیے 16ہزارا ضافی حج کوٹہ منظور ہوا ہے ،جس کے تحت پاکستانی حاجیوں کا کوٹہ جوکہ قبل ازیں ایک لاکھ ، 84ہزار ،210تھا، کو بڑھا کر،2لاکھ کردیا گیا ہے۔اس سال حج اخراجات میں اضافہ ،یقینا ایک تشویشناک امر ہے ،تاہم اس کی ایک اہم وجہ سعودی حکومت کا بعض بنیادی اخراجات میں اضافہ اور پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ،ڈالر اورریال کی قیمت کا بڑھ جانا بھی ہے ،جس کا اثر عام حاجی پر پڑنا فطری بات ہے ۔ سعودی عرب کی جانب سے ’’کمبا ئنڈ حج ڈیوز‘‘کی مد میں فی حاجی/= 1210ریال وصول کیے جاتے تھے ،جو اب بڑھ کر 1756ریا ل ہوگئے ہیں ، اسی طرح حاجیوں کے قیام وطعام پر بھی دس فیصد ٹیکس عائد ہوگیا ہے ۔ہوٹل کے اخراجات ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور پانچ فیصد میونسپلٹی ٹیکس لگا دیا گیا ہے ،جس کا لا محالہ اثربھی بہر حال ---حاجی پر ہی پڑنا ہے ۔ اس سلسلے میں سفارت کاری ہی ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے عازمین حج کے لیے رعایت ممکن ہوسکتی ہے ،اسی طرح سعودی عرب میں وہ انتظامات جو ہماری وزارت حج نے کیے ہیں ، اس میں بھی ایسی مدات ہیں، جن میں عازمین حج کے لیے رعایت اور سہولت کے امکانات پیدا کرنے کی کوشش ہونی چاہیے،جیسے مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ میں رہائش گاہوں کا حصول، ٹرانسپورٹ کا انتظام وغیرہ ، اسی طرح حج آپریشن سے کثیر فائدہ حاصل کرنے والی ایئر لائنز سے بھی انہی خطوط پر بات چیت ہونی چاہیے ۔