لارڈ پامر سٹون کا عالمی تعلقات پر اپنی کتاب میں حاصل کلام جملہ ہے ’’عالمی تعلقات میں نہ تو مستقل دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی مستقل دشمن… بس مستقل مفادات ہوتے ہیں‘‘۔ مگر عمران خان کے دورئہ امریکہ میں عمران کی پرفارمنس کو انڈر مائنڈ کرنا انصاف کے ترازو کے خلاف ہوگا۔ عمران اور ٹرمپ کی ملاقات دیکھ کر بار بار برطانیہ کے عظیم رہنما ونسٹن چرچل کا جملہ یاد آتا ہے۔ وہ اپنی کتاب GREAT CONTEMPORARIES میں کہتا ہے ’’کسی بھی لیڈر کی عظمت کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں پر انمٹ اثرات چھوڑتا ہے‘‘۔ امریکی صدر نکسن کا بڑا موثر جملہ ہے ’’کامیاب لیڈر میں احمقوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہونا چاہیے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کی یہ ملاقات اپنے اندر امکانات کا ایک جہان ہے۔ اس ملاقات کا دیباچہ اور ابتدائیہ یہی تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پچھلے امریکی صدور کی نسبت کچھ ایسا کرکے دکھانا چاہتے ہیں جو تاریخی ہو۔ جیسے نکسن کا ویت نام سے افواج نکال لینا۔ مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ طالبان میں خاصا اثر و نفوذ رکھتی ہے۔ ہم افغانستان کی وجہ سے مسلسل حالت جنگ میں بھی رہے ہیں اور فرنٹ لائن سٹیٹ کا لیبل بھی لگواچکے۔ ٹرمپ آئندہ الیکشن میں ایک ٹھوس بریک تھرو کے ساتھ اترنا چاہتے ہیں۔ بتانا چاہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ نے فوجیں نکال لی ہیں اور ایسا ممکن ہوا ہے ان کی لیڈر شپ کی وجہ سے۔ سٹیٹس مین شپ کی وجہ سے۔ بارک اوبامہ اور بش کی طرح ان کو بھی مختلف حلقے اور لابیاں اپنے اپنے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ پینٹا گون کے جرنیل انہیں ’’عقابی‘‘ مشورے دیتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے بابو انہیں روایتی ’’اِن پٹ‘‘ سے آراستہ کرتے رہتے ہیں۔ سی آئی اے کے مشوروں اور فائلوں کو وہ سنتے اور پڑھتے ضرور ہیں مگر وہ ہمیشہ کسی آئوٹ آف باکس راستے کی تلاش کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کے متعلق امریکہ کے سنجیدہ لکھنے والوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن میں بیٹھے فیصلہ ساز حلقے اور لابیاں … امریکہ کے زمینی حقائق سے مکمل نابلد اور بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ عام امریکی کیا سوچتا ہے؟ امریکہ ایک گلوبل سپر پاور ہے۔ اس کا صدر مسلمانوں کے لیے ایک خاص نکتہ نظر رکھتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ کھٹی اور میٹھی … ایفائے عہد اور بے وفائیوں کی مگر عالمی تعلقات میں وفا نہیں ہوتی … ضرورتیں ہوتی ہیں۔ باہمی ضرورتیں۔ یہ جنم دیتی ہیں دو طرفہ تعلقات کو۔ یہ ضرورتیں اور مفادات بے لباس ہوتے ہیں مگر ان کو عملی شکل دیتے ہیں لیڈرز اور پھر اسے اپلائی کرتے ہیں سفارت کار۔ پاکستان میں عمران سے پہلے آصف زرداری اور میاں نواز شریف حکومت کررہے تھے۔ ان دونوں ادوار میں خارجہ اور سکیورٹی معاملات یہ دونوں نہیں دیکھتے تھے۔ ان دو امورکی اِن پٹ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونی تضادات نے بیرونی MESS کو جنم دیا۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب افغانستان کی تقدیر کا نیا باب لکھا جارہا ہے، پاکستان میں فیصلہ سازی اور پالیسی میکنگ کا پہلے جیسا کوئی تضاد موجود نہیں ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے مفادات اور مسائل کو جس طرح وائٹ ہائوس اور دیگر پلیٹ فارمز پر پیش کیا ہے وہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے۔ یہ بھی کہ ٹرمپ کو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم اس حقیقت کو سمجھتی ہے کہ عمران خان کو پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جنرل باجوہ کا عمران کے ساتھ ہونا ایک SYMBOLIC EFFECT بھی رکھتا ہے۔ اب تک عمران خان نے بطور پاکستانی وزیر اعظم جتنا بھی پرفارم کیا ہے ان کے جملے … ایکسپریشن… باڈی لینگوئج اور موقف اور مسائل … ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔ شاید بے نظیر بھی … مگر ان کا اپنا سیاسی LUGGAGE تھا جس میں شاید آصف زرداری کی کرپشن کا بوجھ بھی وہ اٹھائے ہوئے تھیں۔ عمران خان اپنی شخصیت کے تناظر میں ان COMPLEXES سے یکسر آزاد ہیں۔ آپ کے تصورات جتنے واضح ہوں آپ کا رویہ اتنا ہی متوازن ہوتا ہے۔ ٹرمپ … عمران ملاقات مشکل تھی … امتحان تھا عمران خان کا بھی اور پاکستانی سائیڈ کا بھی۔ عمران کی مغربی گرومنگ … ہینڈسم پرسنیلٹی اور پاکستانی سوچ … وہ بھی ذاتی مفاد سے بالا تر ۔ اس ملاقات کو کامیاب بنانے میں سب فیکٹرز نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ٹرمپ عمران سے متاثر بھی ہوئے اور عمران کی مسلسل تعریف بھی کرتے رہے۔ اس ملاقات کے پس منظر اور پیش منظر پر ابھی بہت سی پرتیں اور جہتیں سامنے آئیں گے مگر اس وقت دو حلقے بہت ڈسٹرب نظر آتے ہیں۔ بیرونی محاذ پر بھارت کے سیاسی اور سفارتی حلقے پلس ان کا میڈیا۔ ٹرمپ نے کشمیر پر مودی کی تجویز کا ذکر کیا کِیا … بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ نوحے بلند ہونے لگے۔ دوسرا حلقہ عمران خان کے سیاسی اور میڈیائی مخالفین عمران کے اپنے وطن میں موجود ہیں۔ یہاں ایسے میڈیا پنڈتوں کی ا چھی تعداد موجود ہے جو عمران اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ایک صفحے پر ہونا اور پھر امریکہ کا پاکستان کے ساتھ دوستانہ ٹریک پر آجانا ہضم نہیں کر پارہے۔ مسلم لیگ (ن) کو چیئرمین سینٹ ہٹانے کے غم سے نجات نہیں مل رہی کہ اسے امریکہ سے آنے والی خبروں نے مزید حواس باختہ کردیا ہے۔ مریم نواز کے ٹویٹ کچھ تھم گئے ہیں اور مریم اورنگ زیب کا چہرہ کچھ اتر گیا ہے۔ بلاول نے سمجھداری کا ثبوت دیا ہے۔ ان اینٹی عمران میڈیا پنڈتوں، مریم نوازوں اور مریم اورنگ زیبوں کو چھوڑیں۔ پاکستان کے لیے امریکہ کے دورے میں دو طرفہ ہی نہیں … کثیر طرفہ امکانات موجود ہیں۔ بھارت کے ماتم کی تو سمجھ آتی ہے … مگر ان میڈیا پنڈتوں اور عمران مخالف قوتوں کی مخالفت حکومت کے خلاف ہے یا ریاست پاکستان کے؟