نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے بدعنوانی کے تین ریفرنسز دائر کرنے اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر عائد کرپشن کے الزامات کی تحقیقات سمیت آٹھ انکوائریوں کی منظوری دی ہے۔ بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ اور ملکی ترقی و خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ماضی کی حکومتیں شفافیت کے حوالے سے نہ صرف مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی رہیں بلکہ متعدد معاملات میں بیوروکریٹس سیاستدانوں کی پشت پناہی کے باعث ہی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں۔ سینئر افسران فواد حسن فواد اور احد چیمہ کا بدعنوانی کے الزامات میں ملوث پایا جانا اس کا ثبوت ہے۔ بد قسمتی سے ماضی میں بدعنوانی کے انسداد کے ذمہ دار ادارے بجائے کرپٹ عناصر کا محاسبہ کرنے کے پلی بارگین کی صورت میں اربوں کی کرپشن کو کروڑوں روپے وصول کر کے ملزمان کو کلین چٹ دیتے رہے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو نیب کے بارے میں ’’کرپشن کی لانڈری‘‘ ایسے ریمارکس دینا پڑے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ خدا کو پاکستان پر رحم آ گیا ہے کہ نیب اور عدالتیں قومی دولت لوٹنے والوں کے احتساب میں یکسو ہیں۔ اپوزیشن کے سیاسی انتقام کا واویلا اس لیے بھی بلا جواز ہے کیونکہ نیب سیاست دانوں کے ساتھ افسر شاہی کے خلاف درجنوں مقدمات کی انکوائریوں میں بھی مصروف ہے۔ بہتر ہو گا حکومت کرپٹ عناصر کے احتساب میں مصروف قومی اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کے مؤثرتوڑ پر توجہ دے تا کہ بدعنوان عناصر کی احتساب کے عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔