کافی دنوں سے خبریں آ رہی ہیں کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور ایک ایسی شخصیت کو سفیر بنایا جا رہا ہے جو صدر ٹرمپ کے داماد کے دوست ہیں اور ایک پاکستانی بزنس خاندان کے اہم رکن ہیں حالانکہ ان کو شاہد خاقان عباس نے پہلی بار واشنگٹن میں سفیر لگایا تھا مگر عمران خان کے آتے ہی وہ ہٹ گئے ۔کچھ مہینوں کے لئے انہوں نے سفارت ضرور کی۔ ان کی یادمجھے اس لئے آ گئی کہ میڈیا کے مبصر کہہ رہے ہیں کہ علی جہانگیر صدیقی کو دوبارہ سفیر لگایا جا سکتا ہے۔ جب وزیر اعظم سرکاری دورے پر واشنگٹن آئے تھے تو علی صاحب ساتھ ساتھ تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ اس دورے میں بھی انہوں نے مدد کی۔ خاقان عباسی نے انہیں کیوں سفیر لگایا تھا یہ تو معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور سنا ہے کہ علی صاحب کے خاندان کے خاقان صاحب کی بلیو ایئر میں کچھ حصص ہیں۔ علی صدیقی صاحب ایک زبردست کاروباری دماغ رکھتے ہیں اور وہ سفیر بن کر کیا گل کھلائیں گے یہ تو بعد میں معلوم ہو گا، مگر ایک واقعہ سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ یہ واقعہ اس دن کا ہے جس دن عمران خان اپنا دورہ ختم کر کے واپس پاکستان روانہ ہو رہے تھے۔ سفیر پاکستان کے گھر جو میسا چوسٹ ایونیو پر واقع ہے ہم سب انتظار کر رہے تھے کہ وزیر اعظم آئیں اور ان سے ملاقات ہو۔ علی صدیقی صاحب وہاں موجود تھے اور اپنے مداحوں کے ایک گروپ کے ساتھ خوش خوش مصروف تھے میں بھی ایک کونے میں بیٹھا تھا وہ ایک ایسا واقعہ سنا رہے تھے جو ان کے دوران سفارت پیش آیا تھا۔ مجھے صاف آواز نہیں آ رہی تھی اور چند ہی منٹوں میں عمران خان آ گئے اور مجھے اوپر طلب کر لیا گیا۔ وہ واقعہ آیا گیا ہو گیا۔ بعد میں کچھ دوستوں نے مجھے بتایا تو میں سخت پریشان ہو گیا اور تصدیق کرنے کے لئے خود علی صدیقی صاحب کو فون کر دیا جو اب شاید دبئی پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے جب خود سارا قصہ سنایا تو واقعی میری پریشانی میں بہت اضافہ ہو گیا۔ کہنے لگے کہ سفیر کے طور پر میں نے وزارت خارجہ کو ایک تجویز بھیجی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں سفارت خانے کے خرچوں کے لئے کئی ملین ڈالر کما سکوں۔بڑا پلان یہ تھا کہ سفارت خانے کی پرانی عمارت کے باہر ایک چھوٹا سا گھاس کا ٹکڑا ہے وہاں ایک بڑا بنچ ہے جس پر دو حضرات بیٹھ سکیں، رکھوایا جائے۔ ایک کونے میں قائد اعظم کا ایک مجسمہ رکھا جائے اور وہ اس طرح بیٹھے ہوں جیسے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص سے گفتگو کر رہے ہیں۔ دوسرے کونے میں بنچ پر کون بیٹھے گا۔ یہاں علی صاحب نے لاکھوں ڈالر کمانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ سیٹ نیلام کرنی تھی اور جو بھی سب سے زیادہ ڈالر کی بولی لگاتا اس کا مجسمہ وہاں رکھا جاتا۔ میں نے علی صاحب سے پوچھا کہ وہ کتنی رقم ملنے کی امید کر رہے ہیں اور وہ کہاں خرچ ہو گی۔ کہنے لگے مجھے ایک کروڑ ڈالر تک کی آفر ہے اور یہ رقم پاکستانی سفارت خانے پر خرچ ہو گی۔تو کیا یہ دونوں مجسمے ہمیشہ رہیں گے یا بولی لگانے والے کا مجسمہ کچھ عرصے بعد بدل دیا جائے گا اور نئی بولی لگے گی۔ علی صاحب نے کہا ان کا خیال تو یہ تھا کہ دونوں ہمیشہ ہی رہیں گے لیکن پانچ سال بعد بدلا بھی جا سکتا ہے۔ یہ سب وزارت خارجہ میں طے ہونا تھا، مگر یہ ہو نہ سکا۔ علی صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارت میں کسی نے اس پلان کو سرد خانے میں ڈال دیا یہ کہہ کر کہ قائد اعظم کے نام کے ساتھ یہ نیلام گھر اچھا نہیں لگے گا۔ پھر یوں ہوا کہ عمران خان کی حکومت آ گئی اور علی صاحب نے نوکری چھوڑ دی۔ اب وہ دوبارہ کسی اہم عہدہ پر لگنے والے ہیں۔ اس ساری کہانی میں دو اہم اصولوں پر سمجھوتہ ہوتا نظر آیا۔ ایک تو یہ کہ کیا ہمارا سفارت خانہ یا کوئی حصہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بیچ دیا جائے۔ اب یہ کون دیکھے گا کہ خریدنے والے کے ڈالر کیا پاکستان سے چوری کر کے تو نہیں لائے گئے۔ کیا خریدنے والا خود کسی فراڈ یا چکر میں تو ملوث نہیں۔ کیا نیلام کے عمل میں کوئی چکر بازی تو نہیں ہو سکتی۔ دوسرا اہم اصول یہ کہ اس نیلام سے پاکستان کو اور خود قائد اعظم کے امیج کو کیا فائدہ ہوتا۔ کچھ پیسے ضرور بن جاتے مگر کیا اب ہم اس سطح پر آ گئے ہیں کہ خود بانی پاکستان کے ساتھ سیلفی کی قیمت لگا دیں۔ اگر یہ مان لیا جاتا یا اب بھی یہ تجویز مان لی جائے تو کیا ملک کے باقی لیڈروں کے ساتھ سیلفیوں یا مجسموں کی قیمت بھی دینی ہو گی۔ کیا پھر پاکستانی جھنڈا اٹھانے کی بھی بولی لگے گی۔ یہ سب تو ممکن نہیں مگر اچھی بات یہ نظر آئی کہ ہماری وزارت خارجہ میں ابھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جن کو صرف ڈالر کمانے کی فکر نہیں بلکہ یہ فکر بھی ہے کہ ہم ڈالر کس طرح کمانا چاہتے ہیں۔ اب علی جہانگیر صدیقی صاحب کی نیت تو بالکل صاف اور شفاف تھی اور وہ صرف پاکستانی سفارت خانے کے اخراجات کا بوجھ کم کرنے کا سوچ رہے تھے۔ مگر انہوں نے جو پلان بنایا وہ کچھ سیاسی اور سفارتی پختگی کا مظاہرہ نہیں تھا۔ شاید وہ یہ اب خود بھی محسوس کر رہے ہوں گے مگر اب ان کو سفیر یا اس سے بھی بڑے عہدے پر لگایا جاتا ہے تو انہیں اپنی سوچ بدلنے کی ٹریننگ لینی پڑے گی کہ ہر چیز کو ڈالر کی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ سبق تو وہ سیکھ ہی لیں گے کیونکہ اگر ان کا ایک پلان رک گیا تو دوسرا بنانے سے پہلے وہ کئی دفعہ سوچیں گے۔ مگر کیونکہ عمران خان کی حکومت میں کئی نوجوان اور کم تجربہ کار لوگ بڑے اہم عہدوں پر لگ گئے ہیں تو وزارت خارجہ کے سمجھدار بابے کی طرح ہر وزارت میں ایک ایسے ہی سفید بالوں والے بابے کی ضرورت پڑے گی۔ اس سے پہلے کہ اس طرح کی کوئی کچی پکی سکیم پاس ہو جائے اور ملک اور حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑے۔ واشنگٹن کے میسا چوسٹ ایونیو پر بے شمار سفارت خانے ہیں اور اکثر ملکوں نے اپنے بڑے لیڈروں کے مجسمے بھی لگائے ہوئے ہیں جیسے جنوبی افریقہ نے نیلسن منڈیلا کا‘ بھارت نے گاندھی کا اور برطانیہ نے چرچل کا۔ جناب علی صدیقی نے بھی یہ آئیڈیا وہیں سے لیا کہ بابائے قوم کا مجسمہ ہونا چاہیے مگر ان کے کاروباری دماغ اور تجربے نے اس میں ایسی اختراع پیدا کر دی کہ ان کا پلان رک گیا۔ یہ مجسمہ ضرور لگنا چاہیے اور قائد اعظم کو بھی باقی تمام دنیا کے بڑے لیڈروں کی صف میں نظر آنا چاہیے۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔ لوگوں کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اس مجسمہ کے ساتھ سیلفی لیں یا گروپ فوٹو بنوائیں۔چرچل کے مجسمے کے ساتھ بیشمار لوگوں کی تصویریں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے وزارت خارجہ کے اس بزرگ کو جس نے پاکستان کو اور بابائے قوم کو ایک بڑی شرمندی سے بچا لیا ضرور انعام دیں۔