بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی خود کو مہاتما گاندھی اور اندرا گاندھی سے بھی بڑا لیڈر سمجھتے رہے ہیں‘ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ امید ہے وہ اپنے بارے میں اپنی رائے میں کچھ ترمیم کریں گے۔ ان کے اس خواب کو بھی شکست کا سامنا ہے جو آنے والے مہینوں میں وہ نیا قومی الیکشن جیت کر ہٹلر بننے کے بارے میں دیکھ رہے تھے۔ ان کے حامیوں کو یقین تھا کہ ہندو دیو مالا کے سبھی‘ دیوی دیوتائوں کا سایہ ان کے سر پر ہے۔ اب اس سائے میں پرانے چھید سبھی دیکھ رہے ہیں۔ الیکشن جن ریاستوں میں ہوئے‘ ان میں جنوب کاتلنگانہ‘ شمال مشرق کی خوردبینی ریاست میزو رام‘ ہندی بیلٹ کے تین صوبے چھتیس گڑھ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان شامل ہیں۔ اول الذکر دونوں ریاستوں کے الیکشن وہاں کی علاقائی جماعتوں نے جیتے‘ بی جے پی اور کانگرس دوسرے نمبر پر آئیں‘ بی جے پی یعنی رنراپ بھی نہ بن سکی۔ لیکن تمام تر اہمیت ہندی بیلٹ کے تین صوبوں کی ہے۔ انہی کے نتائج نے آنے والے الیکشن کا رخ متعین کرنا ہے۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش بھارت کی سات بڑی ریاستوں میں شامل ہیں۔ راجستھان کی آبادی سات کروڑ‘ مدھیہ کی ساڑھے سات کروڑ ہے۔ راجستھان میں کانگریس نے واضح اکثریت حاصل کی اور اس وقت تک وہ ایک سو دس سیٹیں جیتنے کے قریب ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اگرچہ آگے ہے لیکن اس کی اکثریت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وہ 114سیٹوں پر آگے ہے تو کانگریس بھی زیادہ پیچھے نہیں‘108سیٹوں پر برتری ہے۔مدھیہ پردیش میں بی جے پی پندرہ برس سے حکمران ہے جبکہ راجستھان میں اسے حکومت کرتے پانچ ہی سال ہوئے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں کانگرس نے بھاری اکثریت لے لی ہے۔ گویا تینوں ریاستوں میں‘ درجہ بدرجہ‘ بی جے پی کے قدم اکھڑے ہیں۔ راجستھان کا معاملہ ایک لحاظ سے معمول کی واپسی ہے۔ یہ روادار صوبہ ماضی میں کبھی مذہبی نفرت کا شکارنہیں رہا، یہاں مسلمان آبادی دس فیصد ہے اور زیادہ تر بڑے شہروں میں مرتکز ہے۔ مسلمان صوفیا کے بہت سے مزار اور خانقاہیں اس صوبے میں ہیں اور وہاں آنے والوں میں ہندو بھی ہوتے ہیں۔ اس صوبے کے بڑے شہر تمام کے تمام تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے معروف ہیں۔ جے پور‘ جودھپور’ جیسلمیر ‘ بیکانیر‘ اجمیر شریف‘ ناگور‘ الور شریف‘ چتوڑ گڑھ‘ ھنومان گڑھ‘ بارا نیر وغیرہ ان تمام شہروں میں مسلمان مشاہیر ‘ شاعر اور علماء پیدا ہوئے۔ راجستھان میں ہمیشہ سیکولر قوتیں الیکشن جیتا کرتی تھیں‘ چنانچہ گزشتہ الیکشن میں یہاں سے بی جے پی جیتی تو بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوئی۔ راجستھان گجرات کا پڑوسی ہونے کے باوجود ہندو توا کی لہر سے محفوظ تھا لیکن گزشتہ الیکشن میں اس ہوا نے اس روادار صوبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اسے انوکھا ماجرا سمجھا گیا۔ بی جے پی کی حکومت میں یہاں بھی مسلمان قتل کئے جانے لگے۔ ایک مسلمان کو جنگل لے جا کر زندہ جلائے جانے کی ویڈیونے ساری ریاست میں خوف پھیلا دیا۔ چنانچہ حالیہ شکست کا مطلب یہ ہے کہ راجستھان اپنی روایت کی طرف واپس آ گیا ہے‘ ایک غلط موڑ سے اس نے یوٹرن لے لیا ہے۔ راجستھان کا بڑا حصہ صحرائی ہے‘ نیم صحرائی‘ نیم جنگلی علاقہ ہے اس کا مغربی علاقہ اپنی ثقافت اور تمدن میں سندھ سے بہت مشابہ ہے۔ پوری ریاست کی زبان ہندی ہے لیکن مغربی حصے کی ہندی سنیں تو پتہ نہیں چلتا کہ ہندی بولی جا رہی ہے یا سندھی۔ بلکہ دونوں کی آمیزش ہے۔ جودھپور ‘ بیکانیر‘ جیسلمیر اور ناگور کے شہر مغربی راجستھان ہیں۔ پورا صوبہ پرانے قلعوں اور آثار قدیمہ سے اٹا پڑا ہے۔ جنگلی حیات کے اعتبار سے بھی یہ صوبہ بہت مالدار ہے۔ شیر‘ چیتے‘ گلدار سے لے کر لومڑی ‘ لگڑ بھگے اور بہت اقسام کے ہرنوں تک بے شمار جانور یہاں پائے جاتے ہیں۔ ہاتھی اور گینڈا البتہ ان جنگلوں میں نہیں ہوتے۔ چھتیس گڑھ دراصل مدھیہ پردیش سے کاٹ کر ایک نیا صوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کا دارالحکومت رائے پور بھی تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بہت مشہور ہے۔ اس صوبے میں ہندو مسلم فساد کبھی ’’ایشو‘‘ نہیں رہے لیکن اس کی وجہ ’’رواداری‘‘ سے زیادہ یہ ہے کہ یہاں مسلمان برائے نام ہیں۔ اڑھائی پونے تین کروڑ کی آبادی میں مسلمان محض اڑھائی فیصد ہیں‘ ان سے کچھ کم یعنی لگ بھگ دو فیصد عیسائی ہیں۔ ’’غیر ہندوئوں‘‘ کی اتنی معمولی تعداد کے باوجود اس ریاست میں ہندو توا کاعروج حیران کن بات ہے۔ خیر‘ اب اس حیرانی کے دن بھی گئے۔ مدھیہ پردیش بہت اہم صوبہ ہے۔ یہ بھارت کے وسط میں ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا شہر داستانی شہر اندور ہے۔ تاریخی شہر گوالیار اور مذہبی و تاریخی شہر اجین بھی اسی صوبے میں ہیں لیکن اس صوبے کا سب سے اہم شہر‘ اس کا دارالحکومت بھوپال ہے۔ یہ وسطی بھارت میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ پورے صوبے میں مسلمان بہت زیادہ نہیں ہیں یعنی محض سات ساڑھے سات فیصد ہیں۔ پرانے شہر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن شہر اب پھیل گیا ہے۔18لاکھ آبادی کے اس شہر میں 70فیصد ہندو آبادی ہے۔ پرانا شہر اردو اور قدیم مسلمان تہذیب کا مرقع ہے اس کی مشہور ’’تاج المساجد‘‘ (غلط العام طور پر اسے تاج المسجد کہا جاتا ہے) لاہور کی بادشاہی مسجد سے بہت مشابہ ہے۔ قومی الیکشن میں ‘جو نئے سال کے اپریل مئی میں ہونے ہیں‘ اصل معرکہ سب سے بڑی ریاست یو پی میں لڑا جائے گا۔ فی الحال بہت زیادہ یقینی بات نہیں ہے کہ بی جے پی ہار جائے گی لیکن اتنا یقین ہے کہ جیت گئی تو بھی اتنی طاقتور نہیں رہے گی جتنی کہ اس وقت ہے۔ یو پی میں بی جے پی کی حکومت بنی تو یہ صوبہ بھی گجرات بن گیا تھا۔ امید ہے ہندو توا کا جنون اس بار کم پڑے گا تو پھر کم ہوتا چلا جائے گا۔ پچھلے پانچ سال مسلمانوں کے لئے عذاب کے تھے اس کی لپٹیں کم پڑ جائیں گی۔ امید تو یہی ہے۔ بہرحال‘ ان سیاسی پنڈتوں کی بات غلط نکلی جو یہ کہتے ہیں کہ کانگریس اب دم توڑتی جماعت ہے‘ وہ تو پھر زندہ ہو گئی۔