لیجئے ہمارا شمار بھی دنیا کے مہنگے ترین ملکوں میں ہونے لگا یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم تھا کہ یہاں زندگی سستی اور اشیائے خوردنی مہنگی ہے۔ انسان سستا اور پٹرول مہنگا ہے۔ جھوٹ بولنا آسان اور سچ بولنا دشوار ہے۔ لیکن یہ پتا نہ تھا کہ دنیا میں دوسرے ملک بھی ایسے ہیں جہاں صورت حال ہمارے ملک جیسی ہو گی۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ہمارے ملک میں اکثر چیزیں ایشیا میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑی ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ ہم نے ایسے لیڈر بھی پیدا کئے جو ’’فخر ایشیا‘‘ کہلاتے تھے اور یہ فخر بھی ہمیں ہی حاصل ہے کہ اس فخر ایشیا کو ہم نے نہایت اہتمام سے تختہ دار تک پہنچا دیا،اس مشکل مرحلے سے ہم اور ہماری قوم نہایت آسانی سے گزر گئے۔ پھانسی دینے کے بعد ہم نے اپنے ہر دلعزیز لیڈر کی شان میں ایسے ایسے نعرے ایجاد کیے جسے سن کر رگوں میں خون جوش مارنے لگتا تھا۔ رگوں میں ہمارے خون اس لئے جوش مارتا ہے کہ ہم ایک جوشیلی قوم ہے۔ جوشیلا لیڈر کہتا تھا’’لڑو گے!‘‘قوم چیخ کر جواب دیتی’’لڑیں گے!‘‘لیڈر پھر پکارتا ’’مرو گے!‘‘ مجمع جوش میں کہتا ’’مریں گے!‘‘اور پھر لیڈر مزید جوش میں ہاتھ مار کر لائوڈ سپیکر کو گرا دیتا اور قوم کے جذبات کو نقطہ عروج پہ پہنچا کر یہ جا وہ جا۔ ہم لیڈر پرست لوگ ہیں۔ اپنے لیڈر کی پوجا کرتے ہیں اس کی غلط سلط باتوں پہ بھی آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔ کوئی اعتراض کرے تو سادہ سا جواب دیتے ہیں’’سیاست میں سب چلتا ہے!‘‘ پچھلے دنوں سینٹ کے انتخابات میں وعدے اور یقین دہانی کے باوجود چودہ سینیٹروں نے چپکے سے چیئرمین سینٹ کے حق میں ووٹ دے کر خود اپنی پارٹیوں کو حیران کر دیا۔ یہ اس لئے ہوا کہ اب ’’لیڈر پرستی‘‘ کا بھوت آہستہ آہستہ ذہنوں اور اعصاب سے اتر رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو اب ماضی جیسے لیڈر رہے بھی نہیں۔ آج کل نوعمر اور نوجوان لیڈر میدان سیاست میں ابھر رہے ہیں۔ نوجوان قیادت میں بدقسمتی سے ہے وہ ’’کرزما‘‘ نہیں ہوتا جو پرانے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ جنوبی ایشیا میں سیاست میں بھی خاندانوں کا راج ہوتا تھا۔ باپ مر گیا تو بیٹی یا بیٹے باپ کی جگہ لے لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کرزما شفٹ ہو جایا کرتا تھا۔ باپ کا کرشمہ بیٹی یا بیٹے کے اندر منتقل ہو جایا کرتا تھا۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے اپنے باپ نہرو کی جگہ لی۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں اپنے باپ کی گدی سنبھالی۔ ہمارے ملک میں بے نظیر بھٹو نے بھٹو کے خلا کو پر کیا اور اب بے نظیر کی کمی کو ان کے صاحبزادے برخوردار بلاول پورا کر رہے ہیں۔ لیکن ادھر دس پندرہ برسوں میں جنوبی ایشیا کے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آتی نظر آ رہی ہے۔ اب لوگ لیڈر کے خاندان کو نہیں‘ اپنے خاندان اور اس کے مفادات کو عزیز رکھنے لگے ہیں۔ موجودہ حکومت کوکریڈیٹ جاتا ہے کہ اس نے نہایت تیزی سے اپنے ملک کو یہ اعزاز دلایا کہ اس کا شمار دنیا کے مہنگے ترین ملکوں میں ہونے لگا۔ حکومت کے عمال کا کہنا ہے کہ یہ سب کیا دھرا سابقہ حکومتوں کا ہے جنہوں نے اللے تللوں میں پڑ کر قومی خزانہ خالی کر دیا۔ قوم کو اگر خوشحالی چاہیے تو اسے دو ڈھائی برس انتظار کھینچنا ہو گا۔ تب تک صبر سے کام لینا اور مہنگائی کو جھیلنا ہو گا۔ گویا حکمران پارٹی کا یہ نعرہ کہ روک سکو تو روک لو‘ تبدیلی آئی رے کی جگہ یہ نعرہ قوم میںمقبول ہوتا جا رہا ہے کہ روک سکو تو روک لو مہنگائی آئی رے۔ ایک حکومت پہلے بھی ایسی آ چکی ہے جس نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا اور چند ہی برسوں میں اس نے روٹی کی جگہ گولی‘ کپڑا کی جگہ کفن اور مکان کے بدلے قبر عوام کو دی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کل تک کرپشن‘ رشوت ستانی‘ کک بیک اور کمیشن وغیرہ آرڈر آف دی ڈے تھا‘ یہ بدعنوانی اس دھڑلے سے تھی کہ اسے حکمرانوں کا حق سمجھا جانے لگا تھا۔ کوئی صاحب ضمیرحکمران ہوتا تو اتنی لوٹ مار کے بعد قوم سے آنکھیں چار کرتے ہوئے اسے حیا آنی چاہیے تھی لیکن شرم و حیا کرنا تو دور کی بات‘ دونوں حکمران پارٹیوں نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کے بعد اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ اپنے بھانجوں بھتیجوں کو بھی میدان سیاست میں اتار دیا کہ اب تمہاری باری ہے۔ جتنا کچھ ہمیں سمیٹنا تھا‘ سمیٹ لیا‘ اب جو کچھ بچا کھچا ہے اسے تم لوگ لوٹ لو۔ تو اگر وزیر اعظم عمران خان ان سابقہ حکمرانوں کے معاملے میں سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو کیا غلط ہیں۔ البتہ ہم تب مانیں گے جب وہ اپنی صفوں میں موجود لٹیروں کو نیب کے حوالے کریں۔ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکمران پارٹی میں سارے فرشتے جمع ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم بھی جانتے ہیں کہ ان یک پارٹی میں موجود کون کون ایسے ہیں جنہوں نے اس ملک و قوم سے کیا کچھ کمایا اور کتنا کچھ جمع کیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف ہوتا اس طرح نظر آنا چاہیے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ حکومت کو ایسا اصطبل نہ ہونا چاہیے جس میں گدھے‘ گھوڑے اور خچر سب بندھے ہوں اور ان میں کوئی فرق نہ کیا جائے۔ عوام اگر عمران خان کی حکومت میں مہنگائی اور پریشانی سب کچھ جھیلنے کے لئے تیار ہیں تو اس لیے کہ وہ عمران خان کو سچ مچ تبدیلی کا نشان سمجھتے ہیں۔اگر یہ حکومت تبدیلی نہ لا سکی تو خدانخواستہ یہ نوبت آئی تو پھر سب سے پہلا ریلا اسی حکومت کے خلاف آئے گا۔ اگر حکومت کا رُخ صحیح سمت میں ہے وہ درد دل کے ساتھ غربت مٹانے اور بے گھروں کو گھر کی چھت کی فراہم کرنے پہ کام کرتی نظر آئے گی تو عوام اس مہنگائی کو بھی جھیل جائیں گے لیکن اگر معاملہ برعکس نکلا تو پھر کیا ہو گا۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں اس حکومت سے ناامید نہیں۔ یہ حکومت اور اس کے وزراء ناتجربہ کار سہی لیکن چند ایک کے سوا ان میں کوئی بدنیت نہیں۔ اگر اوپری سطح پر معاملات درست ہیں تو نچلی سطح پر بھی معاملات رفتہ رفتہ درست ہو جائیں گے ایک اچھی اطلاع یہ بھی ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کے لئے منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ خدا کرے یہ منصوبہ صحت مند‘ مفید ارو قابل عمل ہو۔ تعلیمی نظام کی اصلاح کے بغیر کوئی قابل فہم تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ حکومت میں آج سے پہلے عمران خان یکساں نصاب اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے پر زور دیتے رہے ہیں‘ اگر انہوں نے ایسا کر دیا تو یہ ان کا بڑا کارنامہ ہو گا۔ اسی طرح قانون کی بالادستی کے لئے انہیں پولیس کے محکمے میں بھی بنیادی تبدیلی کے لئے قدم اٹھانا چاہیے۔ تعلیم میں یکسانیت ‘ قانون کا نفاذ اور سستا و فوری انصاف ہمارے بڑے مسائل ہیں۔ اگر تین بڑے کام موجودہ حکومت کر دیتی ہے تو کوئی وجہ نہیںکہ قوم اسے اگلے ٹرم کے لئے بھی منتخب نہ کر لے۔