انسان کی فطرت میں مخاصمت ہے۔ افراد یا اقوام، نفرت دھوئی جا سکتی ہے اورگاہے مکمل طورپر بھی۔ مگر یہ عمران خان اور شاہ محمود ایسے لوگوں کے بس میں نہیں ہوتا۔ بار بار دہرایا گیا، وہی شعر بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے سعودی عرب اور ایران کا دورہ،اصل موضوع ایران، عرب تعلقات نہیں، افغانستان ہے۔ طالبان اور صدر ٹرمپ معاہدے کے قریب پہنچ چکے۔ درحقیقت معاہدہ مرتب ہو چکا۔ ٹرمپ کو افغانستان سے نکلنا ہے کہ 100ملین ڈالر کے اخراجات بچا کر، امریکہ میں فلاحی پروگراموں پر خرچ کر سکے۔ امریکی عوام کی اکثریت افغان جنگ سے بیزار ہے۔ تجربہ ان کا یہ ہے کہ ویت نام کی جنگ سے رسوائی کے سوا انہیں کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ عراق کی جنگ سے بھی کچھ نہ ملا۔ عراق پر حملے کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میںریاست ہائے متحدہ کے رسوخ کو بڑھاناتھا۔ دوسرے الفاظ میں، اسرائیل کے حوالے کرنا کہ خطے میں تل ابیب، واشنگٹن کے مفادات کا نگہبان ہے۔ دنیا میں امریکہ کا سب سے بڑا حلیف۔ یہودی لابی کی حمایت کے بغیر صدارت کا کوئی امریکی امیدوار ظفر مندی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ کے مالیاتی اور ابلاغی نظام میں یہودیوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ امریکہ کے نئے عالمی تصور World viewمیں بظاہر یورپی یونین کے علاوہ چار ااقوام زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اول اسرائیل، جس کے بلّ پر وہ مشرق وسطیٰ کو محکوم،مجبوراً، اپنے آپ پرمنحصر رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے جاپان اور آسٹریلیا، جس کے ذریعے جنوب سے چین پر دبائو رکھنا مقصود ہے۔ جاپان اور آسٹریلیا امریکی حمایت میں یکسو ہیں۔ تیسرے بھارت، یہاں بھی بنیادی ہدف چین ہے مگر عالم اسلام کا اہم ترین ملک پاکستان بھی۔ وہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ اس کے پاس بہترین میزائل ہیں۔ پاکستان کو زیردام لائے بغیر اس خطے میں بھارتی اور امریکی غلبے کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات میں جو بہتری دکھائی دیتی ہے، پس پردہ اس میں دو عوامل کارفرما ہیں۔ ایک افغانستان کہ طالبان کو راولپنڈی اور اسلام آباد کی تائید کے بغیر ہموار نہیں کیا جا سکتا۔ ثانیاً سی پیک کے بعد، امریکہ میں یہ احساس بڑھا ہے کہ پاکستان کو یکسر نظرانداز کرنے کی صورت میں وہ چین کی گود میں چلا جائے گا۔ چین اور پاکستان کے تعلقات ایک طرح سے اسرائیل اور امریکہ کی مانند ہیں۔ فرق صرف یہ کہ پاکستان خطے میں بالاتری کا آرزو مند نہیں۔ جنوب مغربی ایشیا میں واشنگٹن کی پالیسی کا محور بہرحال بھارتی بالادستی ہے۔ ہر طرح سے اس کی تائید و حمایت، قوموں کے لاشعور میں بعض تصورات بہت گہرے ثبت ہوتے ہیں۔ چین نیا خطرہ ہے مگر عالم اسلام کو بھی وہ اتنا ہی سنگین سمجھتے ہیں۔ امریکہ ہی نہیں، یورپی یونین کی پالیسی بھی یہ ہے کہ پاکستان سے مراسم رکھے جائیں، مگر اسے محدود کرنے کے لیے۔ ان آٹھ صدیوں کو وہ بھولے نہیں، سپین پر جب مسلمانوں کی حکومت تھی۔ فرانس میں وہ داخل ہو چکے تھے۔ چیکو سلواکیہ اور یونان سمیت کئی مغربی ممالک عثمانی ترکوں کے زیر نگین تھے۔ پوری طرح افغانستان سے امریکہ کو فرصت مل گئی، یعنی ایسی حکومت کا قیام جو اس کی محتاج رہے تو پاکستان کے ساتھ، اس کے تعلقات پھر نچلی سطح پر جا پہنچیں گے۔ امریکی خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ بہرحال افغانستان ایک مسلم ملک ہے۔ پشتون پٹی تو کسی طرح بھی پاکستان سے بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح فارسی بولنے والی افغان آبادی پر ایران کے گہرے اثرات ہیں۔ خاص طور پر وسطی افغانستان کی شیعہ آبادی۔ احمد شاہ مسعود سے، جو شمالی افغانستان کے ہیرو ہیں۔ قاسم سلیمانی مرحوم کے ذاتی مراسم تھے۔ ایران کی اس پالیسی پر، ان مراسم کی بنیاد تھی کہ خطے میں ایران کا رسوخ بڑھایا جائے۔ پچھلے تین عشروں میں ایران نے افغانستان میں کم از کم چار، پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایران کے بغیر بھی افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سوویت یونین سے رزم آرائی کے مہ و سال میں سعودی عرب نے افغان مجاہدین کو سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کی۔ باہم مشاورت کے ساتھ۔ اسلام آباد اور ریاض افغان مجاہدین کو آمادہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایران عرب تعلقات بہتر بنانے میں پاکستان مثبت کردار کا آرزو مند ہے۔ اس باب میں اس کی مگر محدودات ہیں۔ اوّل تو یہ کہ صدیوں پرانی یہ کشمکش محض اختلافات نہیں بلکہ بغض و عناد پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر پچھلے بارہ سو برس سے، بغداد میں عرب دارالحکومت قائم ہونے کے بعد سے۔ عربوں اور ایرانیوں کی ہر آنے والی نسل کو دشمنی کا سبق پڑھایا گیا۔ دونوں اقوام نسل پرستی کے خمار میں مبتلا ہیں۔ خالص آرین اور دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کا وارث ہونے کی بنا پر ایرانی خود کو افضل سمجھتے ہیں۔ دو اڑھائی ہزار برس پہلے ایران اس خطے کی عالمی طاقت تھی، افغانستان اور پاکستان کے بعض حصوں پر ان کی حکمرانی رہی، عالم عرب کا ایک حصہ بھی ان کے زیرنگین تھا۔ بعض اقوام کا اجتماعی حافظہ شدت سے کارفرما رہتاہے۔ ان میں سے ایک ایران ہے۔ عربوں کا حال اور بھی پتلا ہے۔ وہ ایرانیوں سے بڑھ کر مغالطوں کا شکار ہیں۔ طاقت گمراہ کرتی ہے اور زیادہ قوت اور بھی زیادہ گمراہ۔ کبھی تین براعظموں پر عربوں نے حکومت کی تھی۔ گزشتہ پانچ عشروں میںدولت کی فراوانی سے، قومی افتخار پھر سے جاگ اٹھا ہے۔ بدبختی یہ ہے کہ اپنی ہی دولت کا بڑا حصہ انہوں نے برباد کردیا۔ بحالی اور فروغ کی بجائے یہ کمزوری کا باعث بنا۔ ملوکیت بجائے خود ایک بیماری ہے خاندانی بادشاہت ہمیشہ خطرات کی زد میں رہتی ہے۔ کوئی بادشاہ پیشہ وارانہ مہارت کی حامل طاقتور فوج بنانے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ عربوں کے ہاں اسلحے کے انبار پڑے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران سعودی عرب نے امریکہ اور دوسرے ممالک سے ساڑھے تین سو ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ آئندہ نصف عشرے کا ہدف اس سے زیادہ ہے۔ توپیں ان کے پاس بہت، مگر توپچی نہیں۔ اور بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اسرائیل سے انہوں نے ہار مان لی ہے۔ کہا جاتا ہے افواج ہر سرزمین پہ لازمی ہوتی ہیں، اپنی نہیں تو دوسروں کی۔ عرب سرزمینوں پر امریکی دستے براجمان ہیں۔ چھچھورے ڈونلڈ ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں، وہ بات کہہ دی تھی، ہماری تائید کے بغیر ایک ہفتہ بھی، سعودی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی۔ عرب ایران تعلقات کی بحالی نہیں، شاہ محمود قریشی، افغانستان میں، قیام امن کے لیے تہران اور ریاض تشریف لے جا رہے ہیں۔ عمران خاں جس زاویے سے بات کرتے ہیں، یہی اس پر عرض کیا جا سکتا ہے کہ یہ شیخ چلی کا خواب ہے۔ پچاس لاکھ مکانوں اور ایک کروڑ ملازمتوں کی مانند۔ عربوں اور ایرانیوں میں پاکستان اگر مصالحت کراسکے تو اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہو گی۔ یہ مگر جامع منصوبہ بندی اور سالہا سال کی ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔ انسان کی فطرت میں مخاصمت رکھی گئی۔ افراد یا اقوام، نفرت دھوئی جا سکتی ہے اورگاہے مکمل طورپر بھی۔ مگر عمران خان اور شاہ محمود ایسے لوگوں کے بس میں نہیں ہوتا۔ بار بار دہرایا گیا، وہی شعر بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے