ٹیرنس میک کینا کے مطابق ’’آج کی جدید دنیا میں دو چیزوںشعور اور کنڈیشنگ کا بحران ہے ۔ ہمارے پاس تکنیکی طاقت ہے، اپنے سیارے کو بچانے کی، بیماری کا علاج کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، جنگ کو ختم کی لیکن ہمارے پاس فکری وژن، اپنی سوچ بدلنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو 10,000 سال کے برے رویے سے آزاد کرنا چاہیے۔ اور، یہ آسان نہیں ہے۔ ٹیرنس کہتا ہے کہ حکومت کو ڈر ہوتا ہے کہ جو رائے عامہ کا ڈھانچااس نے تشکیل دیا ہے اجتماعی شعور اس کو تحلیل نہ کر دے ۔ ثقافتی طور پر ایسا طرز عمل اور معلومات کی پروسیسنگ کا ماڈل ترتیب نا پا جائے جس سے یہ امکان پیدا ہو کہ عوام یہ ادراک کرنے لگیں کہ وہ جو جانتے ہیں یا جو انہیںبتایا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ حکومتیں لوگوں کو اپنی خود ساختہ اطلاعات کے حصار سے کسی صورت باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ اس کے لئے لالچ اور خوف کے دونوں حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔امریکہ نے عراق پر حملہ کرنا تھا تو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خوف سے دنیا بالخصوص یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پر مجبور کیا گیا ۔ آج کی مہذب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پھر تیسری دنیا کے پسماندہ غریب ممالک ، عوام کو گمراہ کرنے کے لئے طریقے مختلف ہو سکتے ہیںمگرصرف مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ لوگ صرف حکومت کی عینک سے دیکھیں، حکومت جو سنانا چاہتی ہے صرف وہی سنیں، حکومت کی خواہش کے مطابق عمل کریں۔ امیر ممالک کے شہریوں کو کیونکہ ضروریات زندگی میسر ہوتی ہیں اس لئے ان آسائشوں کے چھن جانے کا خوف پیدا کر کے حکومتی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو غریب ممالک میں عام آدمی بھوک سے خودکشی پر مجبور ہوتا ہے اس لئے اس کی امید قائم رکھنے کے لئے لالچ اور امید کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جب بحیثیت مجموعی قوم کی ہمت جواب دینے لگتی ہے یا امید ٹوٹنے لگتی ہے تو دعووں اور وعدوں سے بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 75برسوں سے عوام کو دعووں اور وعدوں سے بہلانے کا ہی کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔قوم نے ہر وعدے پر اعتبار کیا مگر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا تو قوم نے منصور عادل کی طرح یہ سوال کرنا شروع کیا: کب تک پڑے رہو گے ہوائوں کے ہاتھ میں کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار جب قوم کھوکھلے شبدوں سے بہلنے سے انکار کرتی محسوس ہوئی تو سیاستدانوں کے بجائے فوج جس پر 75سال سے قوم اعتبار اور اعتماد کرتی چلی آ رہی تھی اس کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جو اب سابق ہو چکے، کو میدان عمل میں اترنا پڑا۔ انہوں نے قوم کو ففتھ جنریشن وار کی منطق سمجھانا چاہی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان پر ففتھ جنریشن وار مسلط کی گئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی فیتھ جنریشن وارکے ہتھیار کو پاکستانی اشرافیہ اپنی عوام کے خلاف بھی استعمال کر رہی ہے۔ عوام کو اپنی خود ساختہ اطلاعات کے ذریعے گمراہ کیا جا رہا ہے المیہ تو یہ ہے کہ ایسا حکومت کے علاوہ اپوزیشن بھی کر رہی ہے۔ تحریک انصاف اپنا بیانیہ عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہے تو حکومت عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لئے اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ عوام کو بیانیوںکے شور میں الجھایا جا رہا ہے۔مقصد صرف اپنی اپنی من مانیاں مسلط کرنا اور عوام کو گمراہ کرناہے۔ لوگ آٹے کی لائن میں جان دے رہے ہیں جبکہ حکمران اتحاد اور تحریک انصاف دونوں اقتدار کے کھیل میں مصروف ہیں ۔یہ تو وہ تماشا ہے جو لوگ دیکھ رہے ہیں اس تماشے کے پیچھے ایک اور کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کے لئے تماشا لگایا گیا ہے یہ کھیل عوام تو دور کی بات میڈیا کے دانشوروں کی نظروں سے بھی اوجھل ہے یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں بند کروادی گئیں ہیں۔ گزشتہ 40سال سے جس افغانستان کو پاکستان کی سٹریٹجک ڈیپتھ بتا کر عوام کو افغان جنگ پر آمادہ کیا گیا آج وہی طالبان پاکستان پر ہتھیار تانے ہوئے ہیں۔بلوچستان اور کے پی کے میں ہر روز حملے ہو رہے ہیں۔ میڈیا اور حکومت، پاکستانیوں کو یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ چالیس سال تک جن کے لئے خون بہایا گیا آج وہی ہمارا ہی خون بہانے پر تلے ہوئے ہیںَ۔ جو طالبان پاکستان کا سٹریٹجک اثاثہ تھے وہ پاکستان کے وجود کو ہی لہولہان کیوں کررہے ہیں؟ پاکستانی اس بارے میں سوچنے لگیں اور حکومت سے سوال نہ کریں اس لئے آٹے اورمہنگائی کا جن ان پر مسلط کر دیا گیا۔ میڈیا رات ایک بجے تک وزیر اعلیٰ پنجاب کے اعتماد کے ووٹ کا ہیجان پیدا کئے رکھتا ہے تو رت جگے کے مارے دن کو آٹے کی لائن میں جان دینے نکل پڑتے ہیں۔ پاکستانیوں کو فرصت کے لمحات ہی میسر نہیں آنے دیے جا رہے کہ وہ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریںکہ جس چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند سمندر سے گہری ہوا کرتی تھی وہ چین پاکستان میں تو سکیورٹی ایشوز کی وجہ سے منصوبے بند کر رہا ہے لیکن دنیا جس افغانستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بتاتی ہے چین اسی افغانستان کے ساتھ اربوں ڈالر کے سمجھوتے کر رہا ہے جب افغانستان سے پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں اس وقت چینی کمپنی افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تیل نکالنے اور ریفائنری قائم کرنے کا معاہدہ کر رہی ہوتی ہے۔ 750 ملین ڈالر کے معاہدے کے بعد شمالی افغانستان میں تیل تلاش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جنگ سے تباہ حال افغان حکومت اپنے ملک کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے امداد نہیں تجارت جبکہ پاکستان کی حکومت پاکستانیوں کو 10ارب ڈالر کے عالمی امدادی پیکج اور سعودی عرب کے 15ارب ڈالر کے قرض کی تھپکی دے کر پھر سلا نے کی کوشش کررہی ہے۔قرض مل رہا ہے !ڈالر آ رہے ہیں! پھر دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کو ہیں! مقصد صرف ایک ہی کہ کہیں خود ساختہ رائے عامہ کا ماڈل تحلیل نہ ہو جائے۔ عوام سے اچھے دنوں کی امید کے بدلے قربانی مانگی جارہی ہے مگر شاید اب وقت بدل رہا ہے اور پاکستانی سوال کر رہے ہیں: کب سے ٹہل رہے ہیں گریباں کھول کر خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو