صدا بادشاہی اس مالکِ کائنات کی ہے جو تمام جہانوں کا فرماں روا ہے۔ اسی کا حکم بّروبحر پر چلتا ہے اور اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے کہ کس ذی نفس کا زمین پر کس قدر اختیار ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے اقتدار بخش دیتا ہے اور جس سے چاہے چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت عطا فرماتا اور جسے چاہتا ہے ذلت کے قعرِ مذلّت میں دھکیل دیتا ہے ۔ انسان ہر روز اس معرکۂ قوت و اختیار کا تماشہ دیکھتے ہیں، لیکن سنبھلنے کا نام نہیں لیتے۔ وہ کہ جن کا کل تک اس ملک پر طوطی بولتا تھا، آج انہیں کوئی پہچانتا تک نہیں اور وہ جو آج سرفراز ہیں ان کی قوت و اقتدار بھی کل کو بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ میرا اللہ قوت کے بڑے مراکز اور جتھوں کو بھی ریت کی دیوار بنا کر رکھ دیتا ہے۔ منگولوں کی آندھی جب چلی تھی تو دنیا اس کے پائوں تلے روندی گئی، کون سا ملک تھا جس پر تاتاریوں کا خوف طاری نہ ہوا ہو، لیکن آج وہ منگول قوم جو کبھی بار بار چین پر چڑھ دوڑتی تھی، بیجنگ جن کا دارالحکومت تھا، منگولیا کے چھوٹے سے خطے میں اسی چین کے احکامات کے سائے میں سانس لیتی ہے۔ جس یونان سے نکل کر سکندر نے آدھی دنیا کو فتح کیا تھا، آج وہ اپنی معاشی بقا کے لئے یورپ کی امداد کا محتاج ہے۔ ہر ظالم و جابر اور آمر اکیلا اپنا اقتدار قائم نہیں کر سکتا بلکہ وہ اس کے لئے ایک منظم نیٹ ورک بناتا ہے۔ پہلے زمانوں میں یہ صرف فوج اور وفادار اشرافیہ پر مشتمل تھا، لیکن گذشتہ ایک صدی سے اسے اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، جو لاتعداد اداروں، خفیہ اور علانیہ نیٹ ورکس اور قانون کی بالادستی قائم کرنے والی طاقت ور منظم قوتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد جب سرد جنگ کا آغاز ہوا تو ہر بڑی طاقت نے اپنی ایک اسٹیبلشمنٹ قائم کی۔ امریکہ میں یہ پینٹاگون اور سی آئی اے پر مشتمل تھی اور سوویت یونین میں پولٹ بیورو، فوج اور کے جی بی کے اشتراک سے بنائی گئی تھی۔ ان عالمی طاقتوں کی طرز پر چھوٹے چھوٹے ممالک نے بھی قوت و اقتدار پر مسلسل قبضہ برقرار رکھنے کے لئے مضبوط اسٹیبلشمنٹ قائم کر لیں۔ شاہ ایران نے اپنی سپاہ اور خفیہ ایجنسی ’’ساواک‘‘ کو ملا کر ایک ایسا خوفناک ماحول پیدا کیا، کہ پورے ایران میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قوم کبھی اس مضبوط شکنجے سے نجات حاصل کر پائے گی۔ امریکہ نے اپنی سرپرستی میں ’’ساواک‘‘ کو تیار کیا تھا اور اس کے لاتعداد ٹارچر سیل بنائے گئے تھے، جنہیں آج انقلابِ ایران کے بعد عبرت کے طور پر میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ لاطینی امریکہ کے لاتعداد ممالک، فلپائن، تھائی لینڈ غرض جہاں جہاں امریکہ نے اپنے قدم جمائے، اس نے وہاں اپنی ہی طرز کی ایک اسٹیبلشمنٹ بنا دی، تاکہ اس کے ذریعے اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا جائے یا پھر اقتدار پر موجود لوگوں کو قبضے میں لیا جائے۔ پاکستان میں ایسی ’’طرزِ حکمرانی‘‘ کا آغاز فیلڈ مارشل ایوب خان کے امریکی ایما و سفارش پر کمانڈر اِن چیف بننے سے ہوا۔ شروع شروع میں وہ کھلم کھلا نظر آنے لگے، یعنی وہی ایوب خان پاکستان کی کابینہ میں وزیر دفاع بن گیا اور پھر ایک دن اس نے ایک ایسے وقت میں اقتدار پر قبضہ کیا جب ملک ایک اسلامی دستور بنا چکا تھا اور جمہوری الیکشنوں کی سمت بڑھ رہا تھا۔ خان عبدالقیوم خان کی عوامی مقبولیت بتا رہی تھی کہ اب کون برسراقتدار آئے گا، مگر پوری سیاست کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس دن سے لے کر آج تک پاکستانی سیاست، اسٹیبلشمنٹ کی یرغمال چلی آ رہی ہے۔ کیسے پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں سے کھیلا جاتا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے خوب سمجھا جا سکتا ہے۔ مشرف کے ’’مارشل لائ‘‘ نما اقتدار سے ایک سال پہلے تک میں بلوچستان میں واسا کا منیجنگ ڈائریکٹر تھا۔ اس محکمہ کا وزیر بسم اللہ کاکڑ تھا، قواعد و ضوابط کے برخلاف نوّے (90) نئی آسامیاں تخلیق کر کے اپنے من پسند افراد کو بھرتی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے محکمے کی ناگفتہ بہ معاشی حالت اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کے لئے ایک اختلافی نوٹ تحریر کیا اور اسے چیف سیکرٹری کو بھیج دیا، جسے وزیر اعلیٰ کو بھجوا گیا۔ وزیر اعلیٰ جان محمد جمالی نے میرے اس نوٹ کے برخلاف فیصلہ دیا اور یوں یہ کاغذ ان سب لوگوں کے دستخطوں کے بعد میرے پاس پہنچا۔ جیسے ہی لوگوں کی بھرتی کا عمل شروع ہوا تو مجھے کباب میں ہڈی سمجھ کر فوراً ٹرانسفر کر دیا گیا۔ میں نے احتیاطاً اس پورے نوٹ کی ایک فوٹو کاپی اپنے پاس رکھ لی۔ مشرف برسراقتدار آیا تو نیب کی تحقیقات اور پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ یہ کیس بھی نکالا گیا۔ فائل مکمل ہوئی اور کارروائی عدالت تک جا پہنچی۔ مجھے تمام کاغذات کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کو کہا گیا۔ جج انور کانسی (جو بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا) اگرچہ کہ وہ ایک طالب علم رہ چکا تھا جب میں یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا مگر اس نے میرے ساتھ ایسا تلخ روّیہ اختیار کیا کہ جیسے میں بھی ملزمان میں شامل ہوں۔ وجہ یہ تھی کہ کیس کے چالان میں وزیر اعلیٰ جان محمد جمالی کا نام شامل نہیں تھا۔ میں نے اصل کاغذ کی فوٹو سٹیٹ دکھائی، جس پر اس ’’موصوف‘‘ کے دستخط تھے، مگر جج صاحب نے مجھے اس کے مقابلے میں چالان میں منسلک ایک اور فوٹو سٹیٹ دکھائی جس پر چیف سیکرٹری کے بعد وزیر اعلیٰ کے دستخط غائب تھے اور ایک پی اے کے ذریعے فائل مجھے واپس بھیجی گئی تھی۔ جان محمد جمالی اس پورے معاملے سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ میں نے سوال کیا کہ میرے پاس جو فوٹو سٹیٹ ہے، اس کی اصل کہاں ہے۔ تو بتایا گیا کہ اصل تو اس کی بھی موجود نہیں جس کی فوٹو سٹیٹ ہمارے پاس ہے۔ اصل دستاویز نیب نے اس لئے غائب کر دی تھی، کیونکہ پرویز مشرف جان محمد جمالی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانا چاہتا تھا۔ میں عدالت میں کاغذ دکھاتا رہ گیا، مگر مقدمے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ وزیر بسم اللہ کاکڑ کو سزا سنا دی گئی اور اسٹیبلشمنٹ جسے وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی تھی وہ آخر کار وزیر اعلیٰ بن گیا۔ جان محمد جمالی میرا دوست ہے، میں اس کو قصور وار نہیں سمجھتا کہ اسے معلوم تھا کہ اس ملک میں گذشتہ پچاس سال سے اسٹیبلشمنٹ اسی طرح انصاف کے معیارات سے کھیلتی چلی آئی ہے تو پھر اس ’’جناتی دیوار‘‘ سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن دس اپریل 2022ء کے دن، پاکستان میں عوام نے یہ ’’جناتی دیوار‘‘ ریزہ ریزہ کر دی ہے۔ ایسا عوامی طوفان پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عوام کے دلوں میں موجود خوف کے بُت توڑ دیئے ہیں۔ پہلا بُت اس وقت ٹوٹا جب حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ اور اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد کے باوجود پی ٹی آئی کے عام غیر مقبول اُمیدواران ایسے ’’الیکٹبلز‘‘ کے مقابلے میں جیتے، جنہیں کبھی اسٹیبلشمنٹ ان سیٹوں پر جتوا کر پارٹیوں کو تحفے میں دیا کرتی تھی۔ دوسری شکست اس وقت ہوئی، جب عمران خان کو نااہل قرار دیا گیا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور پھر اسی ہفتے اسے سات نشستوں پر منتخب کروا کر اس دیوار کو بالکل زمین بوس کر دیا۔ مگر گذشتہ روز کا پنجاب اسمبلی کا معرکہ اس پر مہر تصدیق ثابت ہوا۔ عوام کا خوف تو دس اپریل کو نکل چکا تھا۔ اصل خوف تو سیاست دانوں کے دلوں میں بٹھایا گیا ہے۔ یہ خوف ان کی فائلیں بنا کر، ان کی ویڈیوز اور آڈیوز کے ذریعے، ان کے خلاف فوجداری مقدمات کھول کر پیدا کیا جاتا ہے۔ سیاست دان گذشتہ ساٹھ سال سے بلیک میل ہوتے چلے آئے ہیں، وفاداریاں بدلتے رہے، لیکن اب یوں لگتا ہے جیسے خوف اُتر چکا ہے۔ دنیا میں ہر صاحبِ اقتدار کا ایک دن خوف ضرور اُترنا ہی ہوتا ہے، کیونکہ اصل بادشاہی اس مالکِ کائنات کی ہے۔ اقتدار، قوت، طاقت سب ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغ ہوتے ہیں۔ بقول عبیداللہ علیم ’’جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی‘‘۔ سب کچھ فنا ہے، رہے نام اللہ کا۔