بہار بن کے مجھے چھو گیا زمانہ بھی گل خیال کھلے گا کہ ہے بہانہ بھی بہار کی آمد آمد ہے۔ یقینا طیور نغمہ سنج ہونگے مگر شہروں کی آلودگی اور شور شرابے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اچھی بات ہے کہ ایسے میں باغ جناح ‘ ریس کورس یا کسی اور پارک کا رخ کیا جائے۔ فطرت کی ہم آہنگی سچ مچ اندر سبزہ بھر دیتی ہے اور آنکھوں میں رنگ آپ ذرا دیکھیں تو سہی کیسی اجلی اجلی کونپلیں درختوں سے پھوٹ رہی ہیں۔ ایسے میں مریضان محبت پر بھی جنوں کے آثار ظاہر ہوتے ہیں کہتے ہیں کانٹوں پر بھی بہار اتر آتی ہے۔ موسم گل کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے ابھی میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے کچھ ادیب شاعر بھی کسی پارک میں گئے ہیں اور پوسٹ میں وہ کسی گانے پر باقاعدہ رقص کناں ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ یہ موسم شاعروں اور ادیبوں کی صلاحیتوں کو بھی کیسے اجاگر کرتا ہے: میں وی کوئی کھیل رچاواں آپے نچاں آپے گاواں خورے تاہیوں کہناں واں کجھ کجھ نہ آکھاں تے مرجاواں بہار میں زمین کو نئی زندگی ملتی ہے اور فطرت اپنے پورے رنگوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے۔ اسی کو بسنت رت کہتے ہیں اور کہا جاتا ’’آئی بسنت پالا اڑنت‘‘ یقیناً یہ منانے والا موسم ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس میں پتنگیں اڑانے اور پتنگیں کاٹنے کو جی کرتا ہے اور پکوان کھانے کو بھی۔ بہار کی دھوپ کتنی خوشگوار ہوتی ہے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم نے اس تفریح کو بھی خونی بنا رکھا ہے۔ آپ اسے جہالت کہیں یا کچھ اور مگر یہ اچھا نہیں ہوا کہ دھاتی ڈوریں استعمال کر کے بے گناہوں کے گلے کاٹنے شروع کر دیے۔ دو تین حادثات تو اب تک فیصل آبادمیں ہو چکے ہیں۔ بظاہر تو وہ اس کو زندہ دل سمجھتے ہیں کہ انہوں نے قوانین کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پابندیوں کو توڑ کر پتنگیں فضا میں لہرا دیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ دو تین لوگ جو اس دوران ابدی نیند سو گئے ان کا قاتل کون ہے! ایسا بھی نہیں کہ سارے شہر نے دستانے پہن رکھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارکوں اور باغوں میں جا کر اس موسم سے لطف اٹھانا نہایت اچھی بات ہے پھر پھولوں کی مصاحبت سبزہ نورستہ کی خوبصورتی اور درختوں پر ہریالی کے کئی شیڈز مزہ دے جاتے ہیں۔ ہم آ گئے تو گرمئی بازار دیکھنا‘ ظاہر ہے یہ ساری رونق حضرت انسان ہی سے ہے۔اسی موسم میں تو حسرت موہانی نے کہا تھا’’دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام‘‘ اس پر ایک گرہ ہم نے بھی لگائی تھی کہ: شبنم نے کام کر دیا جلتی پہ تیل کا دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام اسی گل رت ہی میں پھولوں کی نمائشیں ہونی چاہئیں۔ ویسے تو یہ موسم گھر بیٹھے بھی آپ پر اثر انداز ہوتا ہے کہ اس کی ہوا میں ہی پرلطف تاثیر ہوتی ہے۔ اس باد بہاری کا لمس باقاعدہ جسم پر بھی محسوس ہوتا ہے۔ اگر آپ توجہ کریں تو اس موسم کی عنایات بڑھ جاتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب شبیر احمد ہارٹی کلچر ریس کورس کے چیئرمین تھے تو ہم وہاں باقاعدہ ایک مشاعرہ کیا کرتے تھے اسے بہار مشاعرہ بھی کہا جاتا تھا۔ میں نے کئی سال اس کی میزبانی بھی کی اور اس مشاعرے میں تقریباً سب اہم شعرا آئے اور ایک کہکشاں سج جاتی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہاں سیر کے لئے آئے ہوئے لوگ بھی سننے والوں میں آ کر بیٹھتے پھر یوں ہوا کہ جیسے ہماری اس رت کو نظر ہی لگ گئی۔ ایک مرتبہ پھر ملک کا امن اور سکون واپس آیا ہے۔ تو ایک مرتبہ پھر ایسی تقاریب رکھی جا سکتی ہیں جس سے مثبت تفریح فراہم ہو سکے۔ اللہ کی صناعی تو بے مثل اور لاثانی ہے: در بہاراں گل نوخواستہ سبحان اللہ جلوہ آرا ہے وہ بالواسطہ سبحان اللہ ایسا ہنستا ہوا چہرہ کبھی دیکھا ہی نہ تھا کہہ دیا میں نے بھی بے ساختہ سبحان اللہ مجھے اوپن ایئر مشاعرہ بھی یاد ہے جو باغ جناح کی پہاڑی کے قریب ہوتا تھا۔ ایک ایسا ہی مشاعرہ مجھے کبھی نہیں بھولا۔ اس میں منیر نیازی سمیت سب بڑے بڑے شعرا موجود تھے۔ مشاعرہ ختم ہوا تو ہم کھانے کے لئے وہاں سے پیدل ہی دوسری جانب روانہ ہوئے۔ مجھے یاد ہے اعزاز احمد آذر اور منیر نیازی بھی ساتھ تھے۔ میں اکثر نیازی صاحب کو کمپنی دیتا۔ راستے میں واش روم کے قریب جا کر نیازی صاحب نے مجھے کہا کہ دیکھو اندر کوئی ہے تو نہیں۔ میں نے آ کر بتایا کہ روحی کنجاہی صاحب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ چلے جائیے۔ کچھ وقت گزر گیا روحی صاحب باہر نہ آئے تو منیر نیازی کہنے لگے ’’یار جا کے ویکھ اوہنوں پتہ نہیں چلدا مینوں لگدا اے اوہ کھبے پاسے والی ٹوٹی کھول کے تے سجے پاسے ہتھ دھو رہیا اے‘‘ یعنی ’’اس کو پتہ نہیں چلتا وہ بائیں ہاتھ والی ٹوٹی کھول کر دائیں جانب ہاتھ دھو رہا ہے‘‘اصل میںروحی کنجاہی صاحب کی نظر زیادہ ہی کمزور تھی اس مناسبت سے فقرہ نے بہت مزہ دیا۔ لیجیے مجھے منیر نیازی کا ایک شعر یاد آ گیا: شاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندر جویں اک حقیقت نوں وہم وچ لوکا دتا بہار آنے کے آثار خود بخود ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے گھر کے لان میں لگے پودوں کو چھنگوا دیا تھا تاکہ بہار پوری طرح ان پر اترے ۔ بہار اترتی ہے تو پودے نئی کونپلوں سے اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ سب سے پہلے شہتوت پھوٹتا ہے۔ انار کے پتے بھی نکلتے ہیں لیکن یہ عجیب منطق اور پراسراریت ہے کہ انار کا دوسرا پودا جو قریب ہی ہے۔ ایک ماہ بعد پھوٹے گا۔ بہرحال بہار بہار ہی ہے میری مراد موسم ہے اداکارہ نہیں۔ ایک مرتبہ بہار ،منو بھائی کے ساتھ بیٹھی تھی تو میں نے کہا سفید بال یا منیر نیازی پر جچے یا آپ پر۔ کہنے لگی’’جب ہم جوان تھے تو ہمارے بال سفید کر کے ملکہ جذبات بنایا گیا اور جب ہم بوڑھے ہو گئے تو بال کالے کر دیے گئے۔ سفید بالوں کا آنا تو سب نے سنا مگر منیر نیازی نے ایک مرتبہ جعفر شیرازی سے کہا تھا کہ ’’بس کرو‘ اب تو تمہاری وگ میں سفید بال آ گیا ہے‘‘یہ بھی تو نمو کی باتیں ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں