دس مئی کو عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کیلئے آئے تو وہ جب کورٹ آفس میں بائیو میٹر کس کروا رہے تھے تو انہیں رینجرز اہلکار عدالت کے احاطے سے اٹھا کر لے گئے جس کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا اور انہیں رہا کر نے کا حکم دے دیا _عمران خان پر 150 سے زیادہ کیسز بنا ئے گئے ہیں اور انہیں القادر یونیورسٹی کے لئے زمین لینے پر نیب نے مقدمہ درج کر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے کیونکہ عمران خان نے ان کے نیشنل کرائم ایجنسی کے سیٹل کردہ 150 ملین پاؤنڈز سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کیے جبکہ ایک رائے ہے کہ یہ رقم حکومت کے خزانے میں جمع ہو نے چاہیے تھی۔عمران خان کی گرفتاری سے سارے ملک میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے پر تشدد مظاہرے کئے اور فوجی عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور لاہور میں جناح ہاؤس کو ہجوم نے توڑ پھوڑ کر کے آگ لگا دی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ایسے عناصر کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے مگر ایسا ردعمل اس وقت جلتی پر تیل ڈالتا ہے جب نہتی خواتین کو پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے اور گھسیٹتے ہوئے گرفتار کر تی ہے۔ تحریک انصاف کو بھی ایسے عناصر کو اپنی پارٹی سے فارغ کرنا ہوگا کیونکہ فوج پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے کیا پارٹی کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے یقیناً ایسا نہیں، تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ پاکستان انار کی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے اسکی اصل وجوہات کیا ہیں کہ ہمارے نوجوان بات بات پر تشدد پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ تاریخ کا پہیہ ہماری خواہشوں اور تمنا ؤں سے آزاد ہوتا ہے۔ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر تاریخی آشوب کی جڑیں سماج کے اندر ہوتی ہیں بیرونی حملہ آور یا علاقائی دشمن انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فتح حاصل کر تے ہیں۔ تاریخی تبدیلیوں کا منبع سماج کے اندر ہی ہوتا ہے لہٰذا ہمیں سمجھنا چاہیے کہ آج پاکستان میں میں سیاسی بدامنی، معاشی تباہی، دھشت گردی اور مافیا ز کا راج ہے عورتوں اور بچوں کے خلاف ظلم وستم، غریبوں اور کمزور طبقے کا استحصال مفاداتی سماجی ارتقاء اور سٹیٹس کو کی پیداوار ہے اگر چہ ہماری آج کی نوجوان نسل نے کئی سو سال کی غلامی نہیں دیکھی ،یہ نسل ہجرت پاکستان کے وقت کے قتل و غارت سے بھی نا واقف ہے سوال یہ ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی تاریخ کے اس گھمبیر لمحے میں موجود ہوتا تو کیا تاریخ کے جبر کو روک سکتے تھے۔ آج کا پاکستانی ایک طرف طالبان کے ساتھ لڑی جانے والی دہشتگردی کی جنگ میں حالات کے جبر کا شکار امن کے لئے کوشاں ہے ۔ آج کے بدترین حالات میں ملک کے اندر ساٹھ فیصد سے زیادہ نوجوانوں میں ملک کے بالائی طبقات کی کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف شدید لاوا پھوٹ رہا ہے، عمران خان تو محض ایک مزاحمت کا استعارہ ہے جو اپنی دلیری اور بہادری سے سٹیٹس کو کی علمبردار قوتوں کو للکار رہا ہے، اگر چہ عمران خان کی شخصیت مجموعہ اضداد ہے مگر اقتدار سے محرومی کے بات اس کی مزاحمت اور عزم راسخ نے اس کی مقبولیت کو مزید چار چاند لگا دیئے ہیں ،عمران خان کو نوجوان نسل اس لئے اپنا ہیرو تسلیم کر رہی کہ انہیں حکمرانوں اور افسر شاہی کے شاہانہ لائف سٹائل پر شدید غصہ ہے، ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کو بیروزگاری کی وجہ سے شدید فرسٹریشن ہے کیونکہ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور اس وجہ سے یا تو وہ منشیات کی طرف راغب ہو رہے ہیں دوسرا جرائم اور دہشت گردی کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں اگر وہ اس حد پر نہیں پہنچے ہیں تو وہ پرتشدد جماعتوں کے آلہ کار بن کر ان کے مزموم مقاصد کے لئے گھیراؤ جلاؤ یا سوشل میڈیا پر اداروں اور اپنے مخالفین کے خلاف نفرت کے آلاؤ بھڑکا رہے ہیں۔ کچھ نوجوان غیر قانونی طور پر مغربی ممالک میں پہنچنے کے خواب لیے سمندروں کی نذر ہو رہے ہیں اور چند خوش قسمتی سے پہنچ پاتے ہیں مگر ایک مشقت بھری زندگی کا شکار ہو جاتے ہیں تاہم اپر مڈل کلاس کے بچے تعلیم کے لئے زیادہ پیسے خرچ کر کے بیرون ممالک جا رہے ہیں اور وہاں سیٹل ہونے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ آج کا پاکستان دو طرح کا ہے ایک حکمرانوں اور صاحب ثروت کا اور دوسرا مجبور پاکستانیوں کا۔ ان دونوں کے طرزِ حیات اور نظریات کے درمیان مفاہمت ناممکن ہے اور بہت نچلے طبقے کے جامد سوچ کی حامل اکثریت مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہے اور ان کے لئے ریاست پاکستان کے بالائی اور مڈل کلاس کے لوگوں کا طرزِ حیات قطعی طور پر قبول نہیں۔ لہذا جب بھی کسی بھی پارٹی یا تنظیم کا احتجاج ہوتا ہے تو اس طبقے کے دل شکستہ اور معاشی مسائل کے مارے نوجوان گھیراؤ جلاؤ شروع کر دیتے ہیِ اپنی محرومیو ں کا غصہ دوسروں کی عمارتیں اور گاڑیاں جلا کر لیتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے نوجوان طالبان کی صف میں شامل ہو کر پاکستان کے عوام اور سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیتے ہیں۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بالائی طبقات کی لو ٹ مار کی وجہ سے متوسط طبقہ کے نوجوان بھی سیاست یا سرکاری نوکری کے ذریعے اپنی قسمت بدلنے کے خواب دیکھتے ہیں مگر جب چند ایک علاوہ باقی جو زندگی میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں وہ اپنی شناخت اور انرجی کو چینیلا ئز کرنے کے لیے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور زیادہ مایوس انتہا پسندی کا شکار ہو کر دہشت گردوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں جب تک جدلیاتی عمل کا ادراک کرتے ہوئے ان تقسیم در تقسیم طبقات کے درمیان عمرانی معاہدہ جو سب کے لئے عدل انصاف اور زندگی میں برابر کی تعلیم اور ہنر مندی سے خوشحالی اور باوقار زندگی کے دروازے نہیں کھولے گا تو اس ملک کے حالات نہیں بدلیں گے اگر ہمارے مقتدر اور بااختیار حلقوں نے مختلف سوچ وفکر کے حامل طبقوں کے درمیان ہم آہنگی نہ پیدا کی تو پھر لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں یوں وقت تو مل جائے گا، مہلت نہ ملے گی