شہر شہر ایسے میں ہجوم اگر فریاد کناں ہوں؟چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہوں۔ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟ ایسے میں کوئی لشکر کیا کرے گا؟ سالار کیا کریں گے؟ اگر عدالت ہی عرصہ امتحان میں ہوئی؟کیا کوئی ڈوبنے والا بھی بوجھ اٹھایا کرتا ہے؟ آنے والا کل کیا لائے گا؟ ابھی حکم لگانا مشکل ہے۔اس لئے نہیں کہ عوامل و عناصر کا ادراک مشکل ہے بلکہ اس لئے کہ فیصلوں پر اثرانداز ہونے والے ابھی خود کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ابھی وہ خود سان گمان میں ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ سب کچھ راز کے پردے میں پنہاں ہو۔ چھن چھن کر اطلاعات تو آئی ہیںلیکن افواہ اور خبر میں تمیز مشکل ہے۔حالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ اقدام کرنے والوں میں سے اکثر آخری نتیجے پر پہنچنے میں دشواری پاتے ہیں۔وہ جو اردو کے جلیل القدر شاعر نے کہا تھا: رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ابھی ابھی ایک کہنہ مشق اخبار نویس کا ٹویٹ ایک دوست نے بھیجا ہے ’’مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ کل میاں محمد نواز شریف اور جنرل باجوہ کی ملاقات ہوئی‘‘ اتنی سی بات ہوتی تو نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ۔فوراً بعد کا جملہ یہ ہے ۔’’ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کو وضاحت کرنی چاہیے‘‘۔ آئی ایس پی آر کی وضاحت ہی مطلوب ہے تو اطلاع مصدقہ کیسے ہوئی؟ اب تک کی خبر یہ تھی کہ مذاکرات اسحق ڈار کے توسط سے ہو رہے ہیں‘ جس طرح کہ عمران خاں سے اعجاز الحق کے ذریعے۔آسانی سے اعجاز الحق سے بات ہو سکتی ہے۔وہ راز رکھنے کے کچھ زیادہ عادی بھی نہیں۔کم از کم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خلاصہ تو بتا ہی دیں گے۔اسحق ڈار سے تصدیق کیسے کی جائے۔پھر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بات بتائیں گے زیادہ یا چھپائیں گے زیادہ۔ لندن سے حال ہی اسلام آباد پہنچنے والے ایک مسافر نے جو بڑے میاں صاحب کے حکم پر محترمہ مریم نواز کے ذہنی کلی ہیں‘ ذرا سا پردہ سرکایا ہے۔اپنے رازدانوں کو انہوں نے بتایا:نواز شریف پابہ رکاب ہیں مگر اہل حَکَم پوری طرح تعاون پہ یکسو نہیں۔آنجناب کے مطابق نواز شریف کا کہنا یہ ہے :کہ ان کے برادر خورد ناکام ہو چکے۔خاص طور پر 17جولائی کے ضمنی الیکشن میں ان کی مہم اور شکست تباہ کن ثابت ہوئی۔عبرتناک۔مے فیئر کی آب و ہوا سے آشنا‘ خبریں سونگھنے والے یک زبان ہیں کہ صاحبزادی والد بزرگوار کی واپسی کے لئے مچل رہی ہیں۔شفقت پدری بے تاب ہے اور دوسری وجوہ سے بھی لیکن کریں تو کیا کریں۔ حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے دو برس کی سیاسی بے روزگاری اور اپنے ہی گھر کے سامنے پیہم مظاہروں سے اکتائے ہوئے‘ سابق وزیر اعظم کے مرتب کردہ معجون کا نسخہ بہت سادہ اور واضح ہے۔پاکستان آمد سے قبل عدالت ان کی ضمانت منظور کرلے۔اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر وہ اتریں۔امام خمینی کا سا استقبال ان کا منتظر ہو۔سڑک کے راستے راولپنڈی سے لاہور کا قصدفرمائیں۔ سوا تین سو کلو میٹر کی مسافت میں گلاب کے پھولوں کی دو تین ٹن پتیاں ان پر نچھاور کی جائیں۔عمران خاں کی ’’افواج دشمنی‘ وطن دشمنی اور کرپشن‘‘ کو بے نقاب کرتے ہوئے لاہور پہنچیں تو تمام شہر گلیوں میں امڈ آئے گرما کا شباب ۔موسم بہار میں بدل جائے: امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر مشکل یہ ہے کہ ہولناک الزامات کی یلغار میں گھرا ہونے کے باوجود کپتان تن کر کھڑا ہے۔اس سے بھی سوا یہ کہ ہر بار اس کی آواز پہ غمگسار امنڈے چلے آتے ہیں۔بچے ‘ بوڑھے‘ عورتیں سب سے بڑھ کر جوانانِ رعنا اور وہ جدید بستیوں کے وہ مکین‘ ابھی کل تک کارِسیاست سے جو بے زار تھے۔سیاستدانوں کی طرف جو نگاہ غلط انداز سے دیکھتے اور اپنے محسوسات کی دنیا میں داخل ہونے نہ دیتے: سایۂ ابرِ گریزاں سے ’’ہمیں‘‘ کیا لینا ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں پانچ سات دن چلیے‘ پانچ سات ہفتے میاں صاحب ہجوم گرما لیں گے۔اس کے بعد کیا ہو گا؟جب لات چلے گا بنجارہ ۔نہلے پہ جب دہلا پڑے گا۔سو سنار کی ایک لوہار کی۔زمان پارک کے مکین نے کسی دن مینار پاکستان کے نواح کو تمتاتے چہروں سے بھر دیا تو کیا ہو گا۔کیا ہو اگر یہ لوگ لاہور کے کوچہ و بازار میںنعرہ زن ہوں؟ لاہور ہی پہ کیا موقوف قصور‘ شیخو پورہ‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد‘ ساہیوال‘ خانیوال‘ ملتان‘ گجرات ‘ راولپنڈی اور پشاور کے علاوہ دریائے کابل کے پار ایک ایک دیار میں۔ اس کے سوا بھی تو ایک دیوار راہ میں ہے۔دیوار کیا سدِ سکندری۔ ججوں نے اگر انکار کر دیا‘ عدالت نے قانون کی پاسداری کا مصمم ارادہ کر لیا؟ سیاست میں تاویل کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی۔قانون کو کبھی کبھار ہی موم کی ناک بنایا جا سکتا ہے۔حالات جب سازگار ہوں ‘ خلق خدا جب متوجہ نہ ہو۔آج کے پاکستان میں دو اور دو چار کی طرح کچھ حقائق ایسے ہیں جو ہمالہ کی طرح اٹل ہیں۔عدالت عظمیٰ جس کا حکم کوئی منسوخ نہیں کر سکتا‘میاں صاحب سزا یافتہ ہیں۔ اس شرط کے ساتھ جیل سے رہائی اور سمندر پار سفر کی اجازت ملی تھی کہ چار چھ ہفتے میں لوٹ آئیں گے۔لوٹ کر کیا آتے؟ علاج کی ابتدا ہی نہ ہوئی ۔وہ جو پلیٹ لیٹس کا شور شرابا تھا۔نرا شور شرابہ ہی نکلا۔یہ اکیسویں صدی ہے۔معالج اور مشینیں بتا سکتی ہیں کہ مریض کبھی مبتلا بھی تھا یانہیں: تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ خلقِ خدا کے ساتھ فریب دہی تو کارِ سیاست میں کبھی کوئی جرم تھا ہی نہیں مگر عدالت کو دھوکہ دہی؟ برادرِ کلاں ہی نہیں ممکن ہے وزیر اعظم بھی طلب کئے جائیں۔’’حضور!آپ نے پیمان کیا تھا؟ شخصی ضمانت آپ نے دی تھی‘‘۔ شہر شہر ایسے میں ہجوم اگر فریاد کناں ہوں؟چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہوں۔ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟ ایسے میں کوئی لشکر کیا کرے گا؟ سالار کیا کریں گے؟ اگر عدالت ہی عرصہ امتحان میں ہوئی؟کیا کوئی ڈوبنے والا بھی بوجھ اٹھایا کرتا ہے؟ پس تحریر: اتنے بہت سے اخبارات اوراتنے بہت سے چینل یک آوازاونچے سروں میںگا رہے ہیں کہ شہباز گل ٹوٹ گیا ہے؟ واقعی ایسا ہے؟ تو کوئی شہادت کیوں نہیں؟کوئی انکشاف کیوں نہیں؟