آج کل آپ کوئی بھی اختیار اٹھا کر دیکھیں آپ کو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئے گی۔ملک اقتصادی بحرانی کا شکار تو ہے ہی لیکن سیاسی بحران اس سے بھی زیادہ گہرا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اقتصادی بحران حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے اور حکومت عوام پر مزید ٹیکس لگانے میں مصروف۔اگر عام آدمی کو یہ نظر آئے کہ حکومت نے اپنے اخراجات پر بھی ایمرجنسی نافذ کی ہوئی ہے تو عوام کسی حد تک مطمئن ہو سکتے ہیں لیکن حکومت تو دکھاوے کے لئے بھی اپنے اخراجات کم کرنے کی کوئی کوشش کرتی نظر نہیں آتی۔حکومت میں آتے ہی وزیر اعظم نے جس طرح اپنے سوئمنگ پول کی تزئین و آرائش سے اپنی حکومت کا آغاز کیا اس سے یہی محسوس ہوا کہ اس قوم کا اصل مسئلہ ہی یہ تھا کہ وزیر اعظم ہائوس کا سوئمنگ پول اچھے معیار کا نہیں ہے۔ہمارے لیڈر بار بار حکومت سے نکالے جانے کے باوجود بھی کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔وہ جیسے ہی حکمرانی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ان کے لئے ذاتی پیسہ خرچ کرنا گناہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے عزیز و اقارب کے لئے بھی سرکاری خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔جس طرح وزیر اعظم نے اپنی سزا یافتہ بھتیجی کے لئے درجہ اول کی سکیورٹی کی منظوری دی وہ اپنی مثال آپ ہے۔وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر جو نیک نامی کمائی تھی کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے منتظم اور برق رفتار لیڈر ہیں، وہ دھری کی دھری رہ گئی۔اب نہ ان کی قوت فیصلہ کام کرتی ہے اور نہ ان کے پاس کوئی پروگرام ہے۔حرفِ انکار ان کی لغت سے غائب ہو چکا ہے۔انہیں پندرہ سولہ جماعتوں کی ہر فرمائش پر آمنا و صدقنا کہنا پڑتا ہے۔جس کے نتیجے میں 61عدد وزیر اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔ایسی جماعتوں کے لوگ بھی وزیر ہیں جن کی قومی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں ہے۔وزارت کے لئے کوئی معیار نہیں ہے۔بیشتر وزیر ایسے ہیں جو اپنی ذاتی قابلیت پر شاید کسی دفتر میں کلرک بھی نہ لگ سکیں۔ایسی کابینہ کی موجودگی میں امید کیسے لگائی جا سکتی ہے کہ وہ قوم کے کوئی معقول پروگرام پیش کرے گی۔ کابینہ کا واحد کام حزب مخالف کے خلاف مختلف اقدامات کی منظوری دینا ہے کہ حزب مخالف کو ای سی ایل پر ڈالا جائے اور ان کے خلاف طرح طرح کے مقدمات بنائے جائیں اور انہیں غدار قرار دیا جائے۔ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کی روش پاکستان بننے کے فوری بعد ہی شروع ہو گئی تھی اور آج تک جاری و ساری ہے۔ بانیان پاکستان حسین شہید سہروردی‘ مولوی فضل حق اور مادر ملت فاطمہ جناح جیسے لوگوں کو بھی غداری کے تمغے سے نوازا گیا۔ اس روش نے ہمارے وطن کو جن حادثات سے دوچار کیا وہ آج ہماری تاریخ کا حصہ ہے لیکن پھر بھی ہم سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ شہباز گل آج کل اخبارات کی زینت ہیں۔ افواج پاکستان کے بارے میں جس یاوہ گوئی کے وہ مرتکب ہوئے خود ان کی جماعت اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اسے ان کا ذاتی بیان قرار دے رہی ہے۔ عمران خان کی مردم ناشناسی ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے جس طرح کے ادنیٰ لوگوں کو انہوں نے اپنی آنکھوں پر بٹھایا آج اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ شہباز گل وہی ذات شریف ہیں جن کو عثمان بزدار جیسے وزیراعلیٰ نے بھی برداشت نہیں کیا تھا اور اپنے مشیر کی حیثیت سے برخاست کر دیا تھا لیکن بھلا ہو عمران خان کے دوستوں کا جن کی سفارش سے وہ مرکزی حکومت کا حصہ بن گئے اور اپنی خوشامد کی بدولت آہستہ آہستہ عمران خان کی آنکھ اور کان بن گئے۔ وہ پی ایچ ڈی پروفیسر ہونے کے بھی دعویدار رہے ہیں۔ خدا اس یونیورسٹی پر رحم فرمائے۔ ان کی من سینس کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی پارٹی پہلے ہی زیر عتاب ہے انہوں نے ایسا بیہودہ بیان داغا ہے کہ نہ صرف وہ خود مشکل میں ہیں بلکہ اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کو بھی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ ایسے خوشامدی لوگوں کو اپنے باس کو خوش کرنے کے چکر میں ملکی سالمیت کا بھی خیال نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس دوسرے اور تیسرے درجے کے ایسے لیڈروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ہنر نہیں ہے کہ وہ اپنے باس کے تیور دیکھ کر اس کے مطابق اپنا مشورہ پیش کرتے ہیں اور ماحول کے مطابق اپنا نظریہ بدلتے ہیں۔ جب یہی رہنما ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے صف اول میں جا کھڑے ہوں گے تو قوم کی حالت مزید قابل رحم ہو جائے گی۔ ہمارے حکمرانوں اور ہمارے لیڈروں کو ایسے لوگوں سے محتاط رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیڈر کے لیے مردم شناس ہونا انتہابی ضروری ہے۔ اس وقت عمران خان کی لہر پر سوار ہیں اور ان کے چاہنے والے ان کی کوئی کمزوری دیکھنے پر تیار نہیں ہیں لیکن خود انہیں اپنی غلطیوں کی ایک فہرست مرتب کرنی چاہیے تاکہ آئندہ اس سے گریز کیا جا سکے۔ انہی کی غلط بخشیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ان کی ایک سابقہ اہلیہ بھی ان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہی ہے حالانکہ ان کا واحد باعزت تعارف یہی ہے کہ وہ عمران خان کی سابقہ اہلیہ ہیں اور عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے آج تک اس خاتون کے بارے میں ایک برا لفظ بھی نہیں کہا۔ لیکن عمران خان کے لیے سیکھنے کی بات یہ ہے کہ امور حکومت میں گھریلو خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور انہیں اپنے قریبی ترین لوگوں پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ نور جہاں کے حکومت چلانے کا زمانہ عہد اکبری کے ساتھ ہی رخصت ہوا اور نور جہاں بھی شاید اس لیے کامیاب رہی کہ ان کی کوئی سہیلی ان کے ساتھ مقیم نہیں تھی۔ بعض دوستیاں صرف عرصہ اقتدار تک محدود ہوتی ہیں۔ جب سخت وقت آئے تو ایسے دوست دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور واپسی کا نام نہیں لیتے۔ آج کے اخبارمیں ایک چھوٹی سی خبر نظر سے گزری ہے کہ فرح گوگی کا نام بگاڑنے پر فرحت شہزادی عرف فرح خان نے عطا تارڑ کو قانونی نوٹس بھجوایا ہے کہ نام بگاڑنے سے ان کی شہرت متاثر ہورہی ہے۔ عجیب قصہ ہے کہ یہاں نام بگاڑنے کی بات ہو رہی ہے اور جو انہوں نے پوری قوم کا کام بگاڑا ہے اس کا جواب دینے کے لیے وہ پاکستان آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ذرا سا منظر بدلنے کی دیر ہے کہ قوم شہباز گل کی جگہ طلال چوہدری اور عطا تارڑ کا چہرہ دیکھے گی۔ دیگر پارٹیوں کو بھی اپنے اپنے شہباز گلوں اور فرح گوگیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مشکل وقت میں مزید مشکل پیدا کرتے ہیں۔ مریم اورنگزیب اور عظمیٰ بخاری جس شدومد سے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہی ہیں وہ لیڈروں اور عوام دونوں کے لیے قابل غور ہے۔ ہماری معیشت ہمارے لیے خطرناک نہیں ہے۔ ہمارا طرز سیاست ہمارے لیے خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک زرخیز اور بہترین ملک سے نوازا ہے لیکن ہمارے رہزن نما رہنمائوں نے ہمیں بھکاری بنا دیا ہے۔ جب تک ہم من حیث القوم بہترین لیڈر سامنے نہیں لائیں گے ہمارے مسائل بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ ہم معیشت نہیں قیادت کے بحران سے نبرد آزما ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمیں کوئی قائداعظم جیسا رہنما میسر آ جائے توہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں۔