ڈپلومیسی کے میدان میں بہت بار جو سامنے نظر آ تا ہے، ویسا حقیقت میں نہیں ہوتا۔ کئی بارسب کچھ بظاہر سرد اور جمود کی کیفیت میں لگنے کے باوجود پیچھے کہیں پر بامعنی، نتیجہ خیز مذاکرات چل رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اچانک بریک تھرو ہوجانا اس ایشو کو گہرائی سے مانیٹر نہ کرنے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ زور شور سے مذاکرات چل رہے ہیں، مگر پیچھے کہیں اندرونی اختلاف، انتشار پایا جاتا ہے۔ ایسے میں پھر اچانک ہی سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ایک تیسری صورت ٹرمپ سٹائل آف پالیٹیکس بھی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اپنے غیر متوقع (UnPredictable)رویے کی عمومی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ کسی وقت، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ ان کی بڑی کمزوری ہے اور قوت بھی۔ ویسے تولگتا ہے کہ یہ ٹرمپ سٹائل لیڈرز کا دور ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی…یہ سب کئی باتیں مشترک رکھتے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین، میڈیا ، تجزیہ کاروں کی قطعی پروا نہ کرنے والے، مخالفت کو بلڈوز کرنے ، کوئی بڑا غیر متوقع فیصلہ کر کے ہر ایک کو حیران کر دینے والے۔ اس سے بھی بڑھ کر ان میں خبط عظمت ہے ، کچھ بہت بڑا کر کے تاریخ میں نام لکھوانے کی خواہش۔ ظاہر ہے وہ تاریخ اور مورخ بھی اپنی پسند کا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کو ایک ایڈوانٹیج یہ حاصل ہے کہ ایسے من موجی، ترنگ میں غیر متوقع فیصلے کرنے والے دنیا کے طاقتور ترین لیڈر سے مذاکرات کرنا آسان نہیں رہتا۔ اوبامہ جیسے لیڈر کے بارے میں ہر ایک جانتا تھا کہ وہ غیر معقول فیصلہ نہیں کرے گا یا کر بھی بیٹھا تواس کی کوئی حد ہوگی۔ ٹرمپ کے سامنے کوئی سرخ لکیر نہیں، اس پر وہ یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لیڈر سے ڈیل کرتے ہوئے یہ خدشہ ذہن میں رہتا ہے کہ کہیں یہ سب کچھ تلپٹ نہ کر دے۔ یہ وہ فیکٹر ہے جسے ہوشیاری سے استعمال کر کے ٹرمپ نے شمالی کوریا کے اپنے سے زیادہ سرپھرے لیڈر پر سبقت حاصل کی تھی۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کے اچانک اعلان کے پیچھے بھی ایسی کوئی چال پوشیدہ ہے؟ جمعرات کا د ن امریکی اور دیگر اہم عالمی میڈیا ویب سائٹس، اخبارات کھنگالتا رہا۔ اندازہ ہوا کہ خود امریکی تجزیہ کار بھی شاک کی کیفیت میں ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ٹرمپ نے ایسا کیوں کیا یا پھر اب آگے کیا ہوگا؟فارن پالیسی میگزین نے افغانستان میں سابق امریکی سفیر ریان سی کروکر کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے۔ کروکر ٹرمپ حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سخت مخالف ہیں۔ انہوں نے صدر ٹرمپ پر سخت تنقید کی اور انہیں متضاد جملے بیک وقت بولنے والا(oxymoron) غیر متوقع لیڈر قرار دیا۔ سابق امریکی سفیر کے خیال میں امریکی تین بڑی غلطیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر دیا ہے کہ ہم افغانستان میں تھک گئے ، اب ہم لڑنا نہیں چاہتے اور واپس جانا چاہتے ہیں، اس سے طالبان کا مورال ہائی ہوا اور انہیں فتح سامنے نظر آ رہی ہے۔دوسر ا مذاکرات دراصل طالبان اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے مابین ہونے چاہیے تھے۔ تیسرا کروکر کے خیال میں سیز فائر کے بغیر مذاکرات اتنے آگے نہیں جانے چاہیے تھے۔کروکر نے ٹرمپ کو پھر سے جارحانہ انداز اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کا غیر متوقع اعلان کسی حکمت عملی کی بنیاد پرہے؟ایسا بظاہر لگ نہیں رہاکیونکہ اس اعلان سے صرف طالبان ہی نہیں بلکہ امریکی مذاکرات کار بھی ہکے بکے اور پریشان ہیں۔ اگر ٹرمپ نے کسی حکمت عملی کے تحت افغان طالبان پر دبائو کے لئے ایسا کیا ہوتا تو یہ ایک منظم ، سوچی سمجھی موو ہوتی ، مگر ایسا نظر نہیں آیا۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کو ہٹایاجانا بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ میں خاصے مسائل چل رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی محکمہ دفاع پنٹا گون اور سی آئی اے میں ایک طاقتور لابی طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کی مخالفت کر رہی تھی۔ انہیں یہ سرنڈر لگ رہا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اسے صرف طالبان کے ہاتھوں شکست نہیں بلکہ چین اور روس کی طرف سے ملنی والی ہزیمت اور شکست بھی تصور کرتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ سب نے مل کر امریکہ کو ’’آئوٹ کلاس‘‘ کر دیا۔ امریکی وزیردفاع پومپیو بھی امن معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ نے جان بولٹن کو ٹوئٹر پر فارغ کر کے اب سب مخالفین کو ایک سخت اور واضح پیغام دیا ہے ،تاکہ مخالف کیمپ کچھ کمزور ہواور صدر کو اپنی پسند کے فیصلوں کی سپیس مل سکے۔ مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے دو متضاد نقطہ نظر بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک پرو طالبان عناصر کی جانب سے ہے ۔ ان کے خیال میں امریکی طالبان سے کچھ زیادہ منوانا چاہتے تھے ، مگرانہوں نے ہوشیاری سے امریکی سازش ناکام بنا دی۔ ایک تجزیہ کار نے یہ بھی لکھا کہ طالبان قائد ملا ہیبت اللہ چاہتے تھے کہ امن معاہدے پر دستخط سے پہلے طالبان وفد امریکہ کا دورہ نہ کرے، اس لئے انہوں نے وفد بھیجنے انکار کر دیا۔ جب امریکی صدر ٹرمپ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی انا بچانے کے لئے ازخود ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ دلیل کمزور اور بے بنیاد لگتی ہے۔ اگر یہ وجہ تھی تو جان بولٹن کو کیوں ہٹایا گیا؟ کیا جان بولٹن نے طالبان وفد کو امریکہ بلوایا تھا یا اس کی وجہ سے طالبان امریکہ نہیں جا رہے تھے؟ ظاہر ہے ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ممکن ہے صدر ٹرمپ مذاکرات مخالف لابی کو کچھ کمزور کرنا اور اپنے لئے سپیس لینا چاہ رہے ہوں۔ دوسرا حلقہ مذاکرات کی ناکامی کی تمام تر ذمہ داری افغان طالبان پر عائد کررہا ہے۔ ان کے خیال میں افغان طالبان نے بے لچک رویہ اپنایا اور غیر ضروری جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان افغان علاقوں کو ہدف بنایا جن سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ یہ درست ہے کہ افغان طالبان نے غیر معمولی جارحیت اپناتے ہوئے قندوز، فرح اور بعض دیگر حلقوں پر بڑے حملے کئے۔یہ بات مگر ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مذاکرات کے دوران کہیں پر یہ بات نہیں شامل کی گئی کہ فریقین نے ایک دوسرے پر حملے نہیں کرنے۔ طالبان وہی کر رہے تھے جو برسوں سے کرتے آئے۔ امریکی فوجی ایک حملے میں ہلاک ہوا، مگر مذاکرات کے جومتعدد رائونڈز ہوئے ، ان میں پہلے بھی کئی بار امریکی فوجی نشانہ بنے ، تب تو صدر ٹرمپ کو اپنے فوجی کی جان کا تقدس یاد نہیں آیا؟یاد رہے کہ اس دوران امریکی فوج اور ان کے ایما پر افغان سرکاری فوج بھی طالبان کے خلا ف آپریشن کرتی رہی ۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ جب معاملہ صدر ٹرمپ سے ہو تو حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ عین ممکن ہے کہ امریکی پھر سے بڑے پیمانے پر فضائی حملے کریں۔ طالبان لیڈروں کو ڈرون حملوں میں نشانہ بنانے کی کوشش بھی ہوگی ۔امریکی یہ کوشش تو ضرور کریں گے کہ طالبان میں ڈینٹ ڈالے جا سکیں۔ بات پھر وہی کہ یہ سب اٹھارہ برسوں میں امریکی نہ کر پائے ۔ تب ان کے پاس فوج بھی بہت زیادہ تھی، وسائل اور مورال کی سطح بھی بلند تھی۔ماضی میں جس انتہا تک گئے تھے، اس سے آگے اور کیا ہوسکتا ہے؟طالبان کے لئے معاملہ نسبتا ً آسان ہے۔ وہ اپنے وطن میں ہیں۔ انہیں کہیں نہیں جانا۔ ان کا خرچ بھی بہت کم ہے، ان کی گولیاں ختم ہو رہی ہیں نہ ہتھیار ۔طالبان کا مورال انتہائی بلندیوں پر جا چکا، افغان حکومت اور فوج کی حالت بڑی کمزور ہے۔ ہر ایک پر واضح ہے کہ جلد یا بدیر امریکیوں کو جانا اور ان کے خلا کو طالبان ہی نے پر کرنا ہے۔ افغان طالبان کو صرف اپنی لیڈر شپ اور اہم کمانڈروں کو کچھ عرصے کے لئے محفوظ رکھنا اور حملوں کو جاری رکھنا ہے۔ دو تین ماہ کا عرصہ ہے، پھر سردیوں میں افغانستان کے بیشتر محاذ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، تب اگلا مرحلہ سپرنگ آفینسو یعنی ’’بہار کے بعد کی جارحیت‘‘ ہوتی ہے۔ امریکہ کو نقصان یہ ہے کہ تب تک ان کے ہاتھ سے چھ ، سات ماہ نکل چکے ہوں گے ۔ صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم بھی خاصا آگے چلی جائے گی اور وہ افغانستان کے مسئلے کو ختم کرنے کا کریڈٹ نہیں لے پائیں گے۔ یہ فیکٹر بھی ٹرمپ کے مشیروں کے ذہن میں ہوگا۔ پاکستان کے لئے حالات سنجیدہ ضرور ہیں، زیادہ پریشان کن نہیں۔پاکستان امریکہ کو یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے جو کرنا تھا کر لیا، طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم ہونے کا اعلان آپ نے کیا ہے۔ اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ویسے ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں پاکستان پر الزام یا طعنہ لگانے سے گریز کیا ہے۔ ممکن ہے کسی نئے ٹویٹ میں ایسا کر بھی لیا جائے، مگرتادم تحریر ایسا نہیں ہوا۔ افغانستان کے حوالے سے اب پاکستان اکیلا نہیں، یہاں روس، چین ، ایران اور پاکستان کی متحد، مشترکہ پالیسی چل رہی ہے۔ امریکی دبائو کا جواب روس اور چین سے ملے گا۔ ہمارے لئے البتہ ایف اے ٹی ایف سنگین مسئلہ ہے، امریکہ صرف اس راستے سے ہم پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ہمیں اس سے نکلنے کا راستہ کھوجنا ہوگا۔ لگتا یہی ہے کہ امن مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے ،امریکہ کے پاس اور آپشن نہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کی ضرورت پھر پڑے گی۔ ہمیںتب ایف اے ٹی ایف کی تلوار مستقل بنیاد پر ہٹانے کا مطالبہ منوانا چاہیے ۔