علامہ عبدالستار عاصم نے پاکستان کے نیک نام بیورو کریٹ تحریک پاکستان کے نامور محقق اور مہربان دوست ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب’’سچ تو یہ ہے‘‘ تاخیر سے ارسال کی‘11ستمبر گزر چکا ہے اور میڈیا پر موٹر وے لنک روڈ پر ایک خاتون سے انسان نما دو وحشی درندوں کے غیر انسانی سلوک کے چرچے ہیں‘ لیکن کچھ عرصے سے ہمارے میڈیائی دانشور اور بعض نام نہاد محقق تحریک و تاریخ پاکستان‘ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان سے بغض و عناد یا کسی مخصوص مقصد کے تحت غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہیں ان کے ازالے کی کوششوں کو نظر انداز کرنا بدذوقی ہے‘ مناسب جانا کہ دیر آید درست آید کے مصداق‘ ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں درج کچھ تاریخی حقائق قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کئے جائیں کہ نسل نو ’’کم پڑھے زیادہ لکھے‘‘ دانشوروں کے پھیلائے ہوئے شر سے محفوظ رہ سکے‘ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے باہمی تعلقات‘ قائدؒ کی زیارت سے واپسی اور نماز جنازہ کے حوالے سے ڈاکٹر صفدر محمود نے ان شخصیات کے بیانات پر انحصار کیا ہے جن کی قائدؒ سے وابستگی اور دیانت و امانت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں۔ ’’مجھے سچ جاننے کی خواہش بریگیڈیئر نور حسین مرحوم کے پاس لے گی جو زیارت میں قائد اعظم کے بطور کیپٹن اے ڈی سی تھے اور قائد اعظمؒ کے قبر میں اترنے تک ہر لمحے کے عینی شاہد تھے۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی زیارت میں آمد اور ملاقات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قائد اعظمؒ کے انگریز ملٹری سیکرٹری کرنل نوئلز کراچی میں تھے۔ میں ڈیوٹی پر قائد اعظمؒ کے ساتھ زیارت میں تھا۔ ایک روز ملٹری سیکرٹری کا پیغام ملا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان اور سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی گورنر جنرل سے ملاقات کے لئے وقت مانگ رہے ہیں۔ بریگیڈیئر صاحب کے بقول انہوں نے خود یہ پیغام قائد اعظمؒ کو پہنچایا جس کے جواب میں قائد اعظمؒ نے اے ڈی سی سے ان کی آمد کی تصدیق کی اور انتظامات کے بارے میں پوچھا۔ قائد اعظمؒ نے وزیر اعظم کی آمد اور ملاقات کو اتنی اہمیت دی کہ دوپہر کے کھانے کا مینیو خود طے کیا اور ان کے استقبال کے حوالے سے ہدایات دیں۔ بریگیڈئیر صاحب بتا رہے تھے کہ جب وزیر اعظم صاحب اور چودھری محمد علی تشریف لے آئے تو میں نے جا کر قائد اعظمؒ کو ان کی آمد کی اطلاع دی۔ انہوں نے فرمایا کہ مہمانوں کو میرے پاس لے آئیں۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ خود وزیر اعظم اور سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کو قائد اعظمؒ کے کمرے میں لے کر گئے۔ ان دنوں قائد اعظمؒ شدید علیل تھے اور اس قدر نحیف ہو چکے تھے کہ بازو بھی اٹھانے سے قاصر تھے لیکن لیاقت علی خان کو دیکھ کر انہوں نے مسکرا کر بازو اٹھایا اور خوش آمدید کہا۔ کچھ دیر چودھری محمد علی بھی قائد اعظمؒ سے ملاقات میں شامل رہے۔ پھر وہ نیچے آ کر اے ڈی سی کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ یہ گورنر جنرل کی وزیر اعظم سے ون ٹو ون آخری ملاقات تھی جس میں قائد اعظمؒ نے وزیر اعظم کو کچھ اہم ہدایات بھی دیں۔ ملاقات کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نیچے تشریف لے آئے۔ اب کمرے میں اے ڈی سی‘ قائد اعظمؒ کے معالج کرنل الٰہی بخش‘ چودھری محمد علی اور وزیر اعظم تھے اور چند لمحوں کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لے آئیں کہ انہوں نے دوپہر کے کھانے میں قائد اعظمؒ کی نمائندگی کرنا تھی۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم لیاقت علی خان‘قائد اعظمؒ کی صحت کے بارے میں تشویش اور تفکر کا اظہار کرتے رہے اور برابر کرنل الٰہی بخش سے علاج کی تفصیل پوچھتے رہے۔ وزیر اعظم نے کرنل الٰہی بخش کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ بیرون ملک سے کسی ماہر ڈاکٹر کو بلانا چاہتے ہیں تو بتائیں‘ حکومت فوراً انتظامات کرے گی۔ اس موقع پر لیاقت علی خان نے کہا کہ قائد اعظمؒ ہمارے لئے محترم ترین شخصیت اور قوم کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں ‘اس لئے ان کے علاج و معالجے میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہیے۔ انہی دنوں پاکستان کے امریکہ میں سفیر اصفہانی صاحب بھی قائد اعظمؒ کی مزاج پرسی کے لئے آئے تھے اور انہوں نے بھی امریکہ سے ماہر ڈاکٹر بھجوانے کی بات کی تھی لیکن قائد اعظمؒ کا کہنا تھا کہ میرے غریب ملک کا خزانہ ایسے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس دردمندی اور سوچ کے بعد کے حکمرانوں سے موازنہ کریں تو آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے‘‘۔ ’’چند دنوں بعد قائد اعظمؒ شدید ترین علالت کا شکار ہو گئے تو انہیں کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بریگیڈیئر نور حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہی کراچی میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کو قائد اعظمؒ کی آمد کی اطلاع دی اور انتظامات کرنے کو کہا۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ اس کی آمد کی اطلاع وزیر اعظم اور کابینہ کو نہیں دی گئی جیسا کہ پرائیویٹ وزٹ کے موقع پر ہوتا ہے۔ مس فاطمہ جناح کی ہدایت تھی کہ کراچی آمد کو پرائیویٹ رکھا جائے۔ پھر اس کے بعد وہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا کہ قائد اعظمؒ کی ایمبولینس خراب ہو گئی محترمہ فاطمہ جناح پنکھا جھیلتی رہیں او دوسری ایمبولینس کو آنے میں کوئی نصف گھنٹہ گزر گیا۔ بریگیڈیئر صاحب نے میرے سوالات کے جواب میں بتایا کہ جب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قائد اعظمؒ کی آمد کا پتہ چلا تو وہ کابینہ کی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر ایئر پورٹ روانہ ہوئے۔جب وزیر اعظم کی گاڑی ایئر پورٹ میں داخل ہو رہی تھی تو قائد اعظمؒ کی ایمبولینس نکل رہی تھی۔ چنانچہ وہ ہمارے پیچھے آئے۔ جب ایمبولینس راستے میں خراب ہوئی تو وہ دوسری ایمبولینس کے آنے تک ہمارے ساتھ موجود رہے اور ایمبولینس کو گورنر جنرل ہائوس پہنچا کر ایک ضروری میٹنگ کے لئے گئے‘‘۔ بریگیڈیئر صاحب نے اس موضوع پر ’’دی نیوز‘‘ میں مضمون بھی لکھا تھا جس میں وضاحت کی تھی کہ کرنل نوئلز نے کئی ایمبولینس گاڑیاں منگوا کر ان میں سے بہترین کا انتخاب کر کے ایئر پورٹ بھیجی تھی۔ اس وقت کراچی ایک چھوٹا شہر تھا۔ وسائل بہت کم تھے۔ بریگیڈیئر صاحب سے گفتگو نے میرے دو مخمصے رفع کر دیے۔ اول تو یہ کہ قائد اعظمؒ کے جانشین خواجہ ناظم الدین ہوں گے۔ یہ فیصلہ کس نے کیا اور دوم قائد اعظمؒ کی نماز جنازہ کے بارے میں فیصلہ کیسے ہوا؟ بریگیڈیئر صاحب نے مجھے بتایا کہ جب وزیر اعظم لیاقت علی خان زیارت میں قائد اعظمؒ سے ون ٹو ون ملاقات کر کے نیچے آئے تو انہوں نے آتے ہی سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان چودھری محمد علی سے کہا کہ وہ خواجہ ناظم الدین او رمولانا شبیر احمد عثمانی کو فون کر کے کہہ دیں کہ وہ کراچی میں موجود رہیں۔ اس سے بریگیڈیئر صاحب یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ قائد اعظمؒ نے اپنی علالت کے پیش نظر یہ ہدایات خود وزیر اعظم کو آخری ملاقات میں دی تھیں۔ گویا یہ دونوں فیصلے قائد اعظمؒ کے اپنے تھے۔ سچ یہ ہے کہ ہم مزاجاً علم دوست قوم نہیں اور ہمیں سازشی تھیوریاں بہت اچھی لگتی ہیں۔!! ہزار وضاحتوں کے باوجود ہم بدگمانیوں اور سازشی کہانیوں کے فریب سے رہائی نہیں پاتے۔ اب ایک مزید شاہد کا بیان سامنے آیا ہے۔ کریم اللہ 1948ء کے اوائل سے مس جناح اور قائد اعظمؒ کی سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور تھے۔ چند برس قبل ان کی خود نوشت ڈائری چھپی جس میں وہ 11-9-48کو لکھتے ہیں۔ Quaid-e-Azam very sick - Ziarat to Karachi by plan Liaquat Ali (PM) arrived at Karachi Airport. لیاقت علی خان کی قائد اعظمؒ کے علاج و معالجے میں عدم دلچسپی اور تعلقات میں سرد مہری کے حوالے سے کچھ بے بنیاد باتیں لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہیں جن کی تحقیق کے ذریعے تصحیح کی جائے تو لوگ یقین نہیں کرتے۔ کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 11پر لیاقت علی خان کی زیارت آمد کا حال بیان کرتے ہوئے وزیر اعظم کے (DEEP CONCERN)کا تفصیل سے اظہار کیا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ بریگیڈیئر نور حسین نے جو دیکھا اور بیان کیا ہے وہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔منیر احمد منیر کی کتاب میں قائد اعظمؒ کے سکیورٹی آفیسر ایف ڈی ہنسوٹیا کا طویل انٹرویو شامل ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں ’’لیاقت علی خان زیارت بھی آئے‘ انہوں نے لاہور سے ڈاکٹر بھجوائے اور ڈاکٹر محمد علی مستری کو بھی بھیجا۔ مطلب کہ وہ بڑا خیال رکھتے تھے قائد اعظمؒ کا۔ان کو بڑی عزت دیتا تھا قائد اعظمؒ۔ یہ بات غلط ہے قائد اعظمؒ سے ان کی بنتی نہیں تھی‘‘ کراچی کے ایک بیورو کریٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ قائد اعظمؒ کی سرکاری نماز جنازہ سے قبل گورنر جنرل ہائوس کے کمرے میں قائد اعظمؒ کی اثنائے عشری کے مطابق نماز جنازہ پڑھی گئی تھی۔ میرے پوچھنے پر بریگیڈیئر نور حسین نے بتایا تھا کہ میرا کمرہ اس کمرے کے ساتھ تھا جس میں قائد اعظمؒ کی میت رکھی تھی۔ میں رات بھر جاگتا رہا۔ میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی اور اگر ایسا ہوتا تو مجھے ضرور علم ہوتا۔ اسی حوالے سے بریگیڈیئر صاحب نے انکشاف کیا کہ میرے ایک ساتھی اے ڈی سی نے ایک بار قائد اعظمؒ کو ایک چٹ دی جس پر لکھا تھا کہ کراچی فلاں جگہ پر کل شام ’’مجلس‘‘ ہے۔ آپ کا انتظار رہے گا۔قائد اعظمؒ نے چٹ پڑھتے ہی حکم دیا کہ اس اے ڈی سی کو پہلی دستیاب ٹرین سے پنڈی جی ایچ کیو بھجوا دیا جائے۔ کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ نام’’سچ یہی ہے‘‘ زیادہ بہتر تھا۔