ان حالات کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ نے سیاسی مشیر ای سی ویکفیلڈکے مشورہ پر ریاستی مسلمانوں کا ایک نمائندہ وفد طلب کیا، جو اپنی شکایات اور مطالبات پیش کرے۔ جموں سے مستری یعقوب علی، سردار گوہر رحمان، چودھری غلام عباس اور شیخ عبدالحمید کو نامزد کیا گیا۔ کشمیر سے نمائندوں کو طے کرنے کیلئے سرینگر میں میر سید علی ہمدانی کی درگاہ یعنی خانقاہ معلی کے صحن میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ جس میں سات افراد میر واعظ یوسف شاہ، میر واعظ احمداللہ ہمدانی، آغا سید حسن جلالی، خواجہ غلام احمد عشائی، منشی شہاب الدین ، خواجہ سعدالدین شال اور شیخ محمد عبداللہ کو اتفاق رائے سے نمائندگی کیلئے منتخب کیا گیا۔ یہ گروپ میمورنڈم و مطالبات کو تحریری شکل دینے کیلئے پاس کے ہمدانیہ مڈل اسکول میں چلا گیا۔ قریباً ایک لاکھ افراد ابھی بھی خانقاہ کے صحن میں جمع تھے، کہ ایک غیر ریاستی پٹھان عبدالقدیر اسٹیج پر وارد ہوگیا۔ یہ شخص پشاور میں یورک شائر رجمنٹ کے ایک انگریز میجر کے ساتھ خانساماں کے طور پر کشمیر آیا تھا۔چونکہ وہ پاس ہی نسیم باغ میں ایک ہاوٗس بوٹ میں ٹھہرا تھا ، اسلئے درگاہ حضرت بل میں وہ نماز ادا کرنے آتا تھا اوروہاں کئی بار اسنے شیخ عبداللہ سے ملاقات کرکے کشمیر ی مسلمانوں کی زبوں حالی پر تاسف کا اظہار کیا۔ بقول شیخ عبداللہ ، جب وہ دیگر نمائندگان کے ساتھ چائے نوش کر رہے تھے، تو دریائے جہلم کے کنارے خانقاہ کے صحن سے زور و شور سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ عبدالقدیر سٹیج سے تقریر کررہا ہے۔ پولیس کے خفیہ محکمہ سی آئی ڈی نے اسکی تقریر کچھ یوں ریکارڈ کی ہے۔ ’’ مسلمانو اب وقت آگیا ہے ، کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ یادداشتوں اور گذارشوں سے ظلم و ستم میں کوئی فرق آئیگانہ توہین قرآن کا مسئلہ حل ہوگا۔ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاو اور ظلم کے خلاف لڑو۔ راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبدالقدیر نے بتایا کہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔‘‘ اسی رات عبدالقدیر کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے سرینگر سینٹرل جیل میں قید کر دیا گیا۔ عوامی غیظ و غضب کو دیکھ کر ڈوگرہ حکمرانوں نے جیل کے احاطہ کے اندر ہی عدالتی کارروائی 13جولائی کو مقرر کی۔ کسی کال کے بغیر ہی ہزاروں لوگ اس دن سینٹرل جیل کے باہر احاطہ میں صبح سویرے سے ہی جمع ہوگئے۔ جب ہجوم نماز ظہر کی تیاری کر رہا تھا کہ گورنر رائے زادہ تلوک چند سپاہیوں کی ایک پلٹن کے ساتھ نمودار ہوا۔ پہلے تو اس کے جیل حکام کو خوب لتاڑا کہ اس انہوں کے اس بھیڑ کو کس طرح جیل کے باہر میدان میں جمع ہونے دیا۔ اور پھر گولی چلانے کا حکم دیا۔ بندوقوں کے دہانے ان لوگوں کی طرف کردیئے گئے، جو باغ میں نماز ادا کرنے کیلئے صف بستہ تھے۔ ایک شخص دیوار کی بلندی سے اذان دے رہا تھا کہ پولیس کی گولی سے ڈھیر ہوگیا۔ شیخ عبداللہ کے مطابق جو ش جنوں کا یہ عالم تھا کہ اس کی جگہ دوسرے آدمی نے لی اور اذان وہاں سے جاری رکھی، جہاں سے پہلا شخص گولی لگنے سے شہید ہو گیا تھا۔ اس کو بھی گولی سے بھون دیا گیا۔ اس طرح 22افراد جام شہادت نوش کر گئے۔ زخمیوں کی تعداد تو سینکڑوں میں تھی۔ شہید کے ایک کرتے کو پرچم بنا کر ہجوم جامع مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔ ان شہدا کی سرخ روئی کا اس سے اور کیا بڑ ا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ویکفیلڈ نے اعتراف کیا کہ سبھی شہیدوں کے سینوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔ شہیدوں اور زخمیوں کو جامع مسجد کے صحن میں رکھا گیا تھا۔ اسی دوران ایک شدید زخمی نوجوان نے شیخ عبداللہ کو اشارے سے قریب بلایا اور نحیف آواز میں کہا: ’’’شیخ صاحب، ہم نے اپنا فرض اد اکر دیاہے۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے، قوم سے کہیں کہ وہ اپنا فرض نہ بھولیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نوجوان نے ہچکی لیکر جان ، جان آفریں کے سپرد کردی۔ مگر وائے افسوس شیخ عبداللہ نے اس شہید کی آخری وصیت کا پاس رکھنے کے بجائے فیصلہ کن لمحوں میں اقتدار کی نیلم پری کو گلے لگانے کی خاطر خطے کو ایک گرداب میں پھینکنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے آج تک سرزمین کشمیر شہیدوں کے لہو سے لالہ زار چلی آرہی ہے۔ شہیدوں کو زیارت گاہ خواجہ نقشبند صاحب کے احاطہ میں ،جو مزار شہداء سے موسوم ہے، میں دفنایا دیاگیا۔ یہاں پر سرکاری اور غیر سرکاری طوہر سال شہیدوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی اورگل باریاں کی جاتی تھیں، جلسے ہوتے تھے ۔ پولیس گارڈ آف آنر پیش کرکے شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتی تھی۔اس سال سرینگر میں سرکاری طور پر ان شہدا کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کر دیا گیا کہ عوام ابھی بھی حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ وہ ابھی اپنے خوا بوںاور خواہشوں کے مطابق نظام حیات تعمیر نہیںکرسکے جس کیلئے بے انتہا قربانیاں دی گئیں۔آج بھی شہری آزادیاں مفقود ہیں، ظلم و ستم کی چکی رواں دواں ہے۔ شہیدوں کے نام پر قسمیں کھانے والے یہاں کے سیاست دانوں نے اپنے نجی اور گروہی مفادات کیلئے سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ 1931ء کے شہدا کا مشن ابھی تشنہ تکمیل ہے۔مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک اس ریاست کے لوگوں کیلئے سکون و اطمینان کی زندگی جینا محال ہے کیونکہ اس مسئلے کے حل طلب رہنے تک یہاں سیاسی بے یقینی بھی قائم رہے گی اور اقتصادی ترقی کی راہیں بھی مسدود رہیں گی۔وقت کا تقاضا ہے کہ حکمران اس مسئلے کو اپنے مفادات اور انا کی بھینٹ نہ چڑھاتے ہوئے دور اندیشی اور انسان نوازی کا ثبوت دے کر اس مسئلے کے حل کے لیے آگے آئیں اور ریاست کے مظلوم عوام کا مسلسل کرب ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔(ختم شد)