تحریک پاکستان کا ایک اہم مقصد آزاد وطن کو فلاحی ریاست بنانا تھا مگر عام پاکستانی کا یہ خواب ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ نچلے طبقے کے عوام کی حق تلفی کرتے ہوئے اپنے طبقاتی مفادات کو تحفظ دیا پاکستان کے قیام کے بعد جاگیرداروں اور اوقاف کے جعلی کلیمز حاصل کرنے والوں نے خوب مال کمایا علاوہ ازیں جاگیر دار طبقہ اقتدار کے ایوانوں پر بھی قابض ہو گیا جس کی وجہ سے کوئی بھی حکومت آج تک ان کی زرعی شعبے سے آمدنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کی جسارت نہ کر سکی اور نہ ہی ایوب بھٹو کی زرعی اصلاحات سے ہاریوں کی اکثریت کو زمینوں کے ملکیت مل سکی کا غزوں میں مالک ہونے کے باوجود حد ملکیت سے زائد زمینوں کے مالک جاگیر دار ہی رہے اور آج بھی ان مزاروں کی اولاد یں نسل در نسل غلامی اور غربت کی چکی میں پس رہی ہیں ایوب دور میں حکومت کی منشا کے مطابق دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہونے دیا گیا خیال تھا کہ جب سرمایہ دار زیادہ دولت کما یں گے تو زیادہ سرمایہ کاری کریں گے تو اس کے کچھ ثمرات نچلے طبقے تک بھی ٹریکل ڈاؤن کر جانے سے انکو معاشی خوشحالی حاصل ہو گی مغرب کی ویلفیئر سٹیٹس میں تو ایسا جزوی طور پر ہوا اور حکومتوں نے بھی امراء پر زیادہ ٹیکس لگا کر انہیں غریبوں کی فلاح بہبود پر خرچ کیا مگر پاکستانی کاروبار ی طبقہ ایک طرف حکومت سے ٹیکسوں میں چھوٹ لیتا رہا اور دوسری طرف جاگیر دارنہ ذہنیت کے تابع مزدور کی محنت کا استحصال کرتا رہا بقول محبوب الحق دولت 22 خاندانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گئیء جاگیر داروں اور صنعتکاروں کے ہاتھوں کسانوں اور مزدوروں کے استحصال کا بھٹو نے خوب فائدہ اٹھایا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کر کے غریبوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا او انہیں خوش کرنے کے لیے نجی صنعتی اور سروسز کے چھوٹے بڑھے سبھی ادارے سرکاری تحویل میں لے لیے اور بھٹو کی اس غلط معاشی فیصلے کا قوم آج بھی خمیازہ بھگت رہی ہے ۔بیورو کرییس اور ٹریڈ یونینوں نے سرکاری اداروں کو تباہ کر دیا آج بھی سٹیٹ کی ملکیت میں ادارے 1700 ارب کا ہر سال نقصان کر رہے ہیں سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے کوئی بھی حکومت ان کی نجکا ری کرنے سے قاصر ہے ۔ضیاء اور مشرف کے دور میں ہم امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر افغانستان میں پراکسی جنگیں لڑتے رہے چند بلین ڈالرز کی امریکی امداد نے اس وقت کے جرنیلوں کی کئی نسلوں کی قسمت تو سنوار دیں مگر ہمیں پچاس ہزار شہادتوں کے ساتھ سو ارب ڈالرز کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے 20 سالہ دور اقتدار میں میگا پراجیکٹس قائم کرنے کے لیے خوب غیر ملکی قرضے لئے گئے اور ان پراجیکٹس میں حکمرانوں اور بیورو کریٹس نے خوب کمیشن اور کک بیکس حاصل کئے اور اربوں کھربوں کی کرپشن کی دولت یا تو رئیل سٹیٹ میں پارک کر دی گئی یا منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر ممالک میں جائیدادوں اور کاروباروں میں لگا دی گئی اس وجہ سے آج پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 130 ارب ڈالرز پر پہنچ گیا ہے اور ہم اس قابل بھی نہیں کہ قرضوں پر سود کی اقساط ہی ادا کر پائیں۔ اس کے لئے ہم آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے محتاج ہیں اور رواں مالی سال ہمیں 7 ارب ڈالر ز کی ڈیٹ سروسنگ کی ادائیگیا ں مسئلہ بنی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود بالادست طبقہ 17 ارب ڈالرز کے فوائد ہر سال سمیٹ رہا ہے جبکہ پاکستان کی 84.50 فیصد آبادی کی فی کس روزانہ آمدنی 5.5 ڈالرز سے کم ہے اور آدھی سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے پاکستان کی معاشی صورتحال میں دس پندرہ ہزار ماہوار کمانے والے افراد بمشکل زندگی کی ڈور قائم کئے ہوئے ہیں اور اس سال کے آخر تک حفیظ پاشا کے مطابق ایک کروڑ اسی لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے اور اس کے علاوہ درآمدات محدود ہونے سے 80 لاکھ لوگ مزید بیروزگار ہو سکتے ہیں عشرت حسین کا کہنا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم ہر سال دس ارب ڈالرز کی غزائی اشیا درآمد کر رہے ہیں ایک سال کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کی ماہوار شرح 47?5 تک پہنچ گئی ہے ہمارے روپے کی قدر ایک سال میں 56 فیصد گر گئی ہے مگر حکمرانوں کے اللے تللے جاری ہیں وزیر اعظم کے وفود نے 9 ماہ میں غیر ملکی دوروں پر ایک ارب 30 کڑور خرچ کئے ہیں .رواں مالی سال میں وفاق نے ڈیٹ سروسنگ اور دفاع پر 3200 ارب خرچ کئے ہیں جو وفاق کی خالص آمدنی سے 708 ارب زیادہ ہیں انسانی ترقی کا انڈیکس دیکھیں تو 192 ممالک کی درجہ بندی میں ہم 161 درجے پر ہیں اور ہمارا نمبر انسانی سہولیات کی عدم فراہمی میں افغانستان اور یوگنڈا سے بھی نیچے ہے ورلڈ بینک ہمیں بار بار تلقین کر رہا ہے کہ ہم اپنے آپریشنل اور دوہری وزارتوں اور محکموں کے آخراجات کنٹرول کریں وفاق 320 ارب کے صوبائی نوعیت کے آخراجات ختم کے اور اعلیٰ عہدوں پر مراعات اور سبسڈیز ختم کرے مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے آئی ایم ایف کے مطابق ہماری معاشی ترقی کی شرح نمو محض 0?5 فیصد رینے کی توقع ہے جبکہ پاکستان کی جاب مارکیٹ میں ہر سال 20 لاکھ لوگ داخل ہو رہے ہیں ان کے روزگار کی فراہمی کے لئے ہمیں مسلسل 6 فیصد سے زیادہ معاشی نمو درکار ہے مگر ہمارے طاقتور بلائی طبقات آپس میں دست گریبان ہیں اور لگتا ہے انہیں 22 کڑور پاکستانیوں کی زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں اسلامی فلاحی ریاست کا تصور ان کے دماغوں سے محو ہو گیا ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ یہ داخلی عدم مساوات اور معاشی اضطراب ملکی سلامتی کے لئے کسقدر خطرناک ہے عام پاکستانی کے دکھوں کا کوئی مداوا ہی نہیں کوئی نہیں غمگسار انسان کیا تلخ ہے روزگار انسان