وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ اسلامو فوبیا کے بڑھتے واقعات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اسلامو فوبیا کے پھیلائو میں انٹرنیٹ پر موجود مواد کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ نفرت انگیز مواد اور انتہا پسندوں کو روکنے کے لئے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پر ایسی معلومات اور مواد بڑی مقدار موجود ہے جو دنیا کو ایک نئے جھگڑے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پاکستان میں ہر مسلک اور نظریے کے پیروکار کروڑوں میں ہیں۔ پاکستان اس بھیانک دور کو بھگت چکا ہے جب فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کو ہوا دینے والا لٹریچر آسانی سے شائع ہوتا اور ایک مخصوص نیٹ ورک کے ذریعے پھیلایا جاتا۔ اس لٹریچر نے ایسے دماغ پیدا کئے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور احکامات کو چھوڑ کر فروعات پر ایک دوسرے کو کافر کہتے رہے۔حکومت، سکیورٹی اداروں‘ پولیس‘ علماء کرام اور ذرائع ابلاغ نے مل کر اس ذہنیت کی حوصلہ شکنی کی۔ نفرت اور اشتعال انگیزی کو ابھارنے والے عناصر مکمل ختم تو نہیں ہو سکے تاہم ان کی طاقت کافی حد تک کم کر دی گئی ہے۔ یہ پس منظر پاکستان کو خبردار کرتا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلام کے متعلق بے سروپا باتوں کودھڑلے سے پھیلانے کا نتیجہ عالمی سطح پر خونریزی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ ایک ہفتہ پہلے کینیڈا میں پاکستانی نژاد مسلم خاندان سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک سفید فام ٹرک ڈرائیور نے ان پر گاڑی چڑھا دی۔ خاندان کا سربراہ‘اس کی والدہ‘ بیٹیاں اور بیٹا اس ٹرک کی زد میں آ گئے۔ آٹھ دس سال کا بیٹا زخمی ہوا باقی تمام جاں بحق ہو گئے۔ ٹرک ڈرائیور گرفتار ہوا اور اعتراف کیا کہ اس نے جان بوجھ کر مسلم خاندان کو کچلا کیونکہ وہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھتا ۔ کینیڈا میں بڑی تعداد میں عیسائی‘ مسلمان‘ سکھ‘ ہندو اور دیگر اقوام آباد ہو رہی ہیں۔ کینیڈا کا سماج ایک وسیع سوچ اور رواداری کے رویے پر استوار ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مسلمانوں کو قابل نفرت قرار دے کر ان کو قتل کرنے کی سوچ کے خلاف عوامی اور حکومتی سطح پر بھر پور ردعمل آیا۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تسلیم کیا کہ کینیڈا میں اسلامو فوبیا موجود ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بابت ان کی وزیر اعظم عمران خان سے بات بھی ہوئی جس میں اسلامو فوبیا کے خطرے کے حوالے سے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان کا زیر تبصرہ بیان اسی واقعہ کے تناظر میں ہے۔ کینیڈا کے واقعہ سے قبل دو برس پرانا وہ سانحہ یاد آتا ہے جب پرامن سمجھے جانے والے ملک نیوزی لینڈ میں مسلم دشمنی میں اندھے شخص نے ایک مسجد پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں 49 کے قریب نمازی شہید ہوئے جن میں کئی پاکستانی شہری تھے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈن نے اس واقعہ کو اسلامو فوبیا تسلیم کیا اور شہید و زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیا۔ جسنڈا آرڈن کے اس منصفانہ اور ہمدردانہ طرز عمل کو ساری دنیا میں سراہا گیا۔ اس وقت اسلامو فوبیا پھیلانے کے دو مراکز ہیں۔ پہلا مرکز امریکہ اور اس کے سکیورٹی ادارے ہیں جو سوویت انہدام کے بعد اسلام کو اپنے اقتصادی و سماجی نظام کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دے کر دنیا بھر کے مسلم ممالک کو مسلح تنازعات میں پھنسانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئے۔ خلیج‘ مشرق وسطیٰ‘ افغانستان‘ لیبیا‘ افریقہ ‘ مصر اور پاکستان تک اس پالیسی کی زد میں آئے۔ اپنی فوجی کارروائی کو قانونی اور جائز ثابت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کے تحت اشتعال انگیز واقعات کی بنیاد رکھی گئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں قرآن پاک کی توہین اور رسول کریمؐ کے خاکوں کے واقعات ایک تسلسل سے رونما ہوئے۔ مسلمان جب ایسے واقعات پر اپنا فطری ردعمل دیتے ہیں تو انہیں عدم روادار اور آزادی اظہار کا دشمن بنا کر ذرائع ابلاغ پر دکھایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کوجھگڑالو ‘ مغربی اقدار کا دشمن اور غیر مہذب و جہادی بنا کر ان کا تشخص مسخ کیا جاتا ہے۔ اس سے مغرب کے لوگ مسلمانوں کو اپنے اور اپنے سماج کے لئے خطرہ تصور کرنے لگے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ مسلمان ان پر غالب آ کر انہیں برباد کر دیں گے۔ بھارت وہ دوسرا مرکز ہے جہاں سرکاری سطح پر مسلم دشمن پالیسی رائج ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو راہ چلتے انتہا پسند ہندو مار ڈالتے ہیں‘ ان کی املاک پر قبضہ کر لیا جاتا ہے‘ کاروبار ہتھیا لیا جاتا ہے۔مسلم دشمنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھگوان کا اس لئے درجہ دیدیا جاتا ہے کہ وہ مسلم اقدار کا مخالف ہے۔ اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر گولہ باری کرتا ہے۔ سینکڑوں فلسطینی شہید ہوجاتے ہیں لیکن بھارت کی حکمران جماعت کے پیروکار اسرائیل کی شرمناک انداز میں حمایت کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال کا المناک پہلو یہ ہے کہ اگر پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کشمیر پر بھارتی جبر پر بات کریں تو بھارتی دبائو پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس ان صارفین کو بلاک کر دیتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر مسلمانوں کی کردار کشی کی کھلی اجازت ہے مگر انہیں جواب اور دلیل کا حق نہیں دیا جا رہا۔ یوں سماجی رابطے کی سائٹس عملی طور پر اس سائبر جنگ کا حصہ بن گئی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں عمران خان کی ان تجاویز پر عالمی برادری کو ضرور توجہ دینی چاہیے جن میں انٹرنیٹ اور سماجی ویب سائٹس کے لئے سب کے لئے قابل قبول قانون سازی کرنے اور بلا امتیاز کارروائی یقینی بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔