آج ہمدم دیرینہ ضیا زبیری نے یاد دلایا ہے کہ ظہورالحسن بھوپالی کو ہم سے رخصت ہوئے 37برس بیت چکے ہیں۔ اس عرصے میں سیاست نے اتنی کروٹیں لی ہیں کہ اب کم لوگوں کو ان کا نام بھی یاد ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ شہید نہ کر دیا جاتا تو کراچی میں الطاف حسین پیدا نہ ہوتا‘ وہ کراچی کا اصلی لیڈر ہوتا۔ ایسا لیڈر جو پاکستان سے محبت کے جذبے سے سرشار تھا۔ آپ مری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں بھوپالی کی شہادت نے اس فتنے کی راہ کھول دی جس نے پاکستان کی سیاست میں ایسے باب کا اضافہ کیا جو ناقابل بیان ہے۔ میں کہ اس کا شاہد ہوں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بھوپالی کے چلے جانے سے پاکستان کو خاص کر کراچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ بھٹو صاحب نے اقتدار میں آتے ہی پریس پر ایک کڑا اور اوچھا وار کر دیا۔ زندگی ‘ اردو ڈائجسٹ بند کر دیے گئے اور اس کے مدیران گرفتار کر لئے گئے اور ان پر عمر بھرصحافت کرنے پر ایسے پابندی لگا دی گئی جیسے آج کل نواز شریف وغیرہ کی سیاست پر لگائی گئی ہے۔ میں مصطفی صادق کے ساتھ اسلام آباد پہنچا کہ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں لابی کی جا سکے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کو ملنے ان کے کمرے میں حاضر ہوا تو سامنے ایک نوجوان کو کھڑا پایا جو نہا کر کپڑے تبدیل کر رہا تھا۔ معلوم ہوا یہ ظہور الحسن بھوپالی ہیں۔ منتخب تو وہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لئے ہوئے ہیںمگر یہاں پارٹی نے انہیں نورانی میاں کی معاونت کے لئے بھیجا ہے۔ یہ تاثر تھا کہ حضرت نورانی کے پیچھے انہی کا ہاتھ تو ہوتا ہے۔ یہ مرا بھوپالی سے پہلا تعارف تھا۔ یہ 14اپریل 72ء کی بات تھی اور 3جولائی 73ء کو میں کراچی منتقل ہو گیا۔ وہاں سندھ اسمبلی میں اگرچہ بھٹو کا راج تھا مگر مختصر سی اپوزیشن نے تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔ جی اے مدنی تھے‘ نواب اسماعیل کے بیٹے‘ افتخار احمد تھے جماعت اسلامی کے نمائندے اور جے یو پی کا ایک اچھا خاصا گروپ تھا جس کی قیادت یوں تو شاہ فرید الحق کر رہے تھے مگر ظہور بھوپالی اس کے روح رواں تھے۔ یہیں ضیا زبیری سے بھی ملاقات ہوئی جو لیڈر آف اپوزیشن کے سیکرٹری تھے اور پھر جو زندگی بھر مجھے بہت عزیز رہے۔ بھوپالی اپنی سٹوڈنٹ لائف میں بلا کے مقرر تھے۔ دوست محمد فیضی‘ خوش بخت شجاعت اور خطابت کے جوہر دکھانے والوں کا ایک پورا قبیلہ تھا۔ بھوپالی نے صحافت کو پیشے کے طور پر اختیار کیا تھا۔ جنگ میں ملازمت کر لی تھی۔ تاہم اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے بعد ان کی پارٹی نے انہیں کل وقتی سیاست سے وابستہ ہونے کی ہدایت کی۔ ان کا اخبار بھی ذرا ڈر گیا کہ وہ حزب اختلاف کے رکن اسمبلی تھے۔ ایسا فعال ‘ نڈر اور عوامی شخص سیاست میں کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان دنوں مرے پاس موٹر سائیکل تھی بھوپالی اس پر بیٹھ کر بھی جگہ جگہ پہنچ جاتے۔ کئی واقعات آنکھوں میں گھوم گئے ہیں۔ 1977ء میں جب متحدہ قومی اتحاد(پی این اے) بنی تو انتخاب سر پر آ کھڑے ہوئے۔ اس وقت یہ صورت حال تھی کہ جے یو پی اور جماعت اسلامی میں ایک طرح کی کٹی تھی۔ ان دنوں غالباً نورانی میاں اور پروفیسر غفور احمد صاحب میں بول چال بھی بند تھی۔ ایسے میں کام کیسے ہو گا‘ ٹکٹوں کی تقسیم بھی ہونا تھی۔ وقت کم تھا۔ بھوپالی کا فون آیا تم کچھ کرسکتے ہو۔ پوچھا‘ کیا کرنا ہے بتائو ‘کہا پہلے مری اور منور حسن کی ملاقات کرائو۔ باقی میں دیکھ لوں گا۔ اس ملاقات میں تلخی ہو گئی۔ بات چیت ختم ہو گئی۔ ظہور الحسن بھوپالی کے والد وہاج الدین اور میں نے مل کر بھوپالی کو سمجھایا کہ غلطی اس کی ہے کہ بات اس کے گھر ہو رہی تھی۔قصہ مختصر اگلے یہ روز سارے مرحلے طے ہو گئے اور چند دنوں میں انتخابات میں کراچی میں قومی اتحاد نے ایسا معرکہ مارا کہ مضافات کی دو نشستوں کے سوا باقی نو کی نو نشستیں پی این اے جیت گیا۔ اصغر خاں‘ شیر باز مزاری‘ منور حسن ‘ پروفیسر غفور احمد‘ شاہ احمد نورانی‘ مصطفی الازہری‘ کراچی نے کیا کیا ہیرے چنے تھے۔ بھوپالی سے اس زمانے تک آتے آتے بہت قریبی تعلق ہو چکا تھا۔ ایک بات یاد آ رہی ہے۔ ایسے ہی فقرے بازی کرتے ہوئے میں بھوپالی سے کہتا تم تو سیاسی بریلوی ہو‘ میں تو پیدائشی بریلوی ہوں۔ وہ بھی جواب میں بازنہ رہتا۔ ایک دن فون آیا بڑے بریلوی بنتے ہو‘ آج شام اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں کی یاد میں جلسہ ہے تمہیں تقریر کرنا ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی مہمان خصوصی تھے۔ مجھے یاد ہے یہ بات پہلی بار میں نے وہاں کہی تھی کہ علامہ اقبال سے یہ بات منسوب ہے کہ وہ کہتے تھے احمد رضا خاں کے مزاج میں شدت نہ ہوتی تو وہ اپنے عہد کے ابو حنیفہ ہوتے۔ عرض کیا میں کہتا ہوں وہ اپنے عہد کے ابو حنیفہ تھے۔ اس لئے کہ امام اعظم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جمہورکے مذہب کو شریعت کے اصولوں کے مطابق منضبط کیا اسی طرح امام احمد رضا خاں نے بھی اپنے عہد میں جمہورکے دین کو منضبط کیا۔ چونکہ اس زمانے میں دین کا سب سے بڑا مسئلہ عشق رسول ؐتھا تو ان کے مزاج میں شدت آنا لازمی تھی۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی جیسے مورخ کی موجودگی میں یہ بات کہنے کا مجھے جو مزہ آیا ۔اسے میں آج تک نہیں بھولا۔ بھوپالی کو ہمیشہ یہ کہتا تھا یہ تقریر مجھ سے تم نے کرائی ہے۔ پھر مجھے 82ء کی وہ گھڑی بھی یاد ہے جب خبر آئی کہ ظہور بھوپالی کو گھر میں گھس کر گولیاں ماری گئیں میں اس وقت حرمت اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ہمارے فوٹو گرافر مجیب نے اطلاع دی کہ وہ وہاں موجود تھا اس نے میز کے پیچھے چھپ کر جان بچائی ہے۔ مگر پھر بھی وہ چند تصویریں بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ دفتر پہنچتا بھوپالی کی شہادت کی خبر آ چکی تھی۔ پاکستان ایک محب وطن سیاست دان سے محروم ہو چکا تھا۔ اچانک شہادت کی خبروں نے ایسا صدمہ یا مجھے خواجہ رفیق کی شہادت کی خبر سن کر ہوا تھا یا یہ خبر سن کر۔ان دنوں نورانی میاں کے اپنے اس محرم خواص سے تعلقات کشیدہ تھے۔ حضرت کا یہ مزاج تھا کہ وہ ناراض ہوتے تو پھر انہیں منانا مشکل ہو جاتا۔ بھوپالی نے مگر اپنی جدوجہد ترک نہ کی۔ کراچی کے حوالے سے ایک تنظیم بنائی اور کام کرتے رہے۔ جب شہید کا جنازہ گھر پہنچا تو سب سے پہلے پہنچنے والوں میں نورانی میاں بھی تھے کہ آخر برسوں تک انہوں نے اکٹھے کام کیا تھا۔ وقت گزرتا تورنجش بھی ختم ہو جاتی۔ میں نے ایسا دیکھا ہے۔ کراچی کی جو سیاست بدلی ہے وہ بھوپالی کی شہادت کے بعد ہی بدلی ہے۔ مرا مطلب یہ نہیں کہ اس کا سبب یہ تھا۔ میں تو تاریخ کو تقویم وار درج کر رہا ہوں۔ ایم کیو ایم تو 85ء وغیرہ کے بعد نمودار ہونے لگی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی والوں کوشکایت تھی کہ ان کی آواز ہی باقی نہیں رہی۔ میں کبھی سمجھ نہیں پایا کہ غوث علی شاہ نے ضیاء الحق کو کیسے اس بات پر قائل کیا کہ کراچی کے فقیر منش میئر عبدالستار افغانی کو گرفتار کر کے کراچی میں بلدیاتی نظام ختم کر دیا جائے ۔یہ جماعت اسلامی کے خلاف کارروائی نہ تھی‘ کراچی کے خلاف کارروائی ثابت ہوئی۔ کراچی اس کے بعد سنبھل نہیں پایا۔ میں نہیں جانتا منصوبہ سازوں نے کیا منصوبہ بنایا تھا اور کیوں بنایا تھا۔ مگر اس کے بعد کراچی مسائل کی دلدل میں پھنستا ہی چلا گیا۔ اس سارے کام میں کون کون لوگ شریک تھے۔ یہ جو آج کل پیپلز پارٹی کے بلاول سندھ کارڈ کھیل رہے ہیں تو اس وقت یہ سب کچھ اسی پس منظر میں ہوا تھا کہ سندھی قوم پرستوں کو نکیل دی جائے۔ ایم کیو ایم کے بیانئے میں اتنی جان تھی کہ جب بند کمروں میں اس پر گفتگو ہوئی تو بڑے بڑے سنجیدہ لوگ اس کے قائل ہو جاتے۔ سچ پوچھئے کہ ایک عرصہ تک ہم بھی سمجھ نہ پائے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بس اتنا اندازہ ہوتا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ پھر تفصیلات سامنے آنے لگیں تو چودہ طبق روشن ہونے لگے۔ کراچی میں یہ صورت حال بن گئی تھی کہ کراچی میں کور ہیڈ کوارٹرز میں ’’قیدیوں‘‘ کے تبادلے کرائے گئے۔ اس منظر کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ الذوالفقار ایک طرف تھی تو دوسری طرف کراچی کے دہشت گرد جن میں کوئی نام نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کو نازک جگہوں پر ڈرل کیا گیا تھا۔ تب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ سب خیریت نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے ان دنوں بہت سے لوگ بھوپالی کو یاد کرتے تھے کہ وہ تعصب اور تنگ نظری کی قوتوں کے خلاف بھی ڈٹا ہوا تھا اور کراچی کی آواز بھی بلند کرنا چاہتا تھا۔ ان دنوں حیدر آباد سے ایک نواب مظفر تھے جو پنجابی‘ پختون‘ مہاجر اتحاد کے واحد نمائندہ تھے۔ نام اس کا کچھ بھی ہو‘ مگر لسانی فساد اس وقت یہ شروع ہو چکا تھا انہی دنوں بھٹو نے دو لسانی بل سندھ اسمبلی میں پیش کر کے ایک آگ لگا دی تھی۔ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے گا‘سندھ اسمبلی کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجیے بھوپالی اس وقت کس طرح اس فتنے کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے۔ میرے حافظ میں بہت کچھ محفوظ ہے کہ میں روز ہی تو اسمبلی جاتا تھا اور ان سب سے ملتا تھا اور سب کی سنتا تھا۔